اسحاق ڈار دعاؤں پر یقین کرتے ہیں کہ نہیں؟


ابو سانول

\"sanwal\"یہ تو معلوم نہیں اسحق ڈار صاحب کتنا دعاؤں پر یقین رکھتے ہیں۔ گذشتہ دن پریس کانفرنس کے بعد وفاقی وزیر نماز کے لیے چلے تو ایک سینئر صحافی نے کہا عمران خان کے لئے دعا کیجئے گا جواباً وزیر موصوف نے فرمایا میں سب کے لئے دعا کرتا ہوں۔ ان کے اس جواب سے ہمیں یہ یقین ہے کہ دعا پر اس یقین کا مطلب ہے کہ بد دعا پر بھی اسحق ڈار صاحب کا ایمان ضرور ہوگا۔ ویسے تو ان کا عہدہ سرکاری ہے اس لیے ہم فیصلہ نہیں کر پا رہے کہ اس عہدے کی ذمہ داریوں کی بنیاد پر جو بوجھ عوام پر پڑتا ہوگا، انہیں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کروڑوں غریبوں کی آہیں، سسکیاں، غم و اندوہ سے نکلتی بد دعائیں ان کے لئے ہیں یا ان کے عہدے کے لئے۔ اور کیا نہیں احساس ہے کہ وہ بھی ایسے کام کریں جن سے اکثریتی عوام ان کے حق میں بجائے بد دعاؤں کے دعائیں کرے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ریاستی امور کی تقسیم کے لحاظ سے وہ کی گئی کوتاہیوں، ذمہ داریوں کو پورا نہ ہونے کے احساس اور ممکنہ بد دعاؤں کے خوف کو تمام ریاستی امور کے ذمہ داروں میں حصہ بقدر جثہ تقسیم کر کے مطمئن رہتے ہوں۔ پاکستان بیس کروڑ سے زائد آبادی کا ملک خود ان کی زبانی غربت کی شرح 52% سے کم ہو کر 48% پر آگئی اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ تقریباً 9 کروڑ پاکستانی اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے ہیں۔ غربت کی لکیر والا معاملہ بھی کچھ عجیب ہوگیا ہے۔ غربت کی لکیر کی اکائی ترقی یافتہ دنیا کے معیار کے پیمانوں پر تولی جارہی ہے۔ اگر کبھی یہ معیار پاکستانی پیمانوں میں تبدیل کرکے دیکھا جائے دماغ ماؤف ہوجائے۔ پاکستان کے تمام بڑے شہروں میں سرکاری ہسپتالوں کے باہر صرف ایک دن گذارنا تصویر کے سارے خدوخال واضح کر دیتا ہے۔ ملک کے دور دراز علاقوں، بلوچستان کے ریگزاروں، پنجاب کے چولستان، سندھ کے ریگستان اور خیبر پختونخوا پہاڑی سلسلوں میں زندگی آج بھی قرون وسطیٰ کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ابھی گذشتہ دنوں ہی سبز آنکھوں کے چائے والے کی زندگی کی ڈور باندھے رکھنے کی کہانی منظر نامے کا پتہ دیتی ہے۔ جب کہ ابھی اس کا تعلق پختونخوا کے میدانی علاقے سے ہے۔ سندھ کے کولہیوں، میگواروں، پنجاب کے کمیوں، خیبر پختونخوا کے نائیوں، اور بلوچستان کے چند سرداروں کو چھوڑ، کے حالات کا کیا کہیں۔

سرکاری عملدار کسی بھی سطح کے ہوں ان کے بارے میں پورے پاکستان میں اتفاق رائے پایا جاتا ہے۔ یہ اتفاق ان سرمایہ داروں کے بارے میں بھی بنا کسی شک و شبہ کے موجود ہے جن کی استعداد کسی کو ملازم رکھنے کی ہے۔ چند سالوں پہلے تک سرکار کے ملازم اس معاملے میں خوش نصیب سمجھے جاتے تھے کہ وہ قابل عزت اور قوانین کی حفاظت میں ملازمت کرتے ہیں لیکن بھلا ہو ملک کی معیشت سنوارنے والوں کا جو معیشت کے سدھار کے ایک ہی فارمولے کو دانا جانتے ہیں کہ سرکاری اداروں کو سرمایہ داروں کے ہاتھ فروخت کردو۔ ویسے سرکاری اداروں میں بھی کنٹریکٹ سسٹم اور تھرڈ پارٹی سسٹم نے وہی نظارے پیش کیے ہیں جو نجی سرمایہ داروں کے ماتحت کام کرنے والوں پر دیکھے جاسکتے ہیں۔
معیشت کی بہتری کے دعوے اور اس پر دنیا میں معیشت کی بہتری جانچنے کے کئی اداروں نے پاکستان کی مختلف سطح کی ریٹنگ میں بہتری کے سرٹیفکیٹ دے کر اور اسحق ڈارصاحب کو بہترین فنانس منسٹر قرار دے کر نہ صرف ان کا سر فخر سے بلند کر دیا ہے بلکہ موجودہ حکومت کے وزیر اعظم کے خزانہ کے انتخاب پر فخر کرنے کا موقع فراہم کیا ہے۔ اس فخریہ سیریل میں پاکستان کے 9 کروڑ کے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ وہ بہترین وزیر کے باوجود اب تک غریب ہیں۔ اگر وہ غریب بھی کچھ اپنے ایمان کے مطابق یا اسحق ڈار کی طرح دعا پر یقین بنا لیتے تو بھی ان کی غربت میں نمایاں کمی ہوسکتی تھی۔ اور اگر غربت کم نہ ہوتی تو از روئے ایمان کم از کم خزانہ کے وزیر کے لئے بد دعائیں تو نہ نکلتیں۔

اب کیا غریب غریب کی بات کریں چند سال پہلے تک کچھ امیروں کی بات ہوجائے یہ پاکستان کے واحد فولاد ساز ادارے پاکستان اسٹیل کے ملازمین ہیں پانچ ماہ سے تنخواہوں سے محروم ہیں۔ تین سال پہلے ریٹائرڈ ہونے والے اپنی ریٹائرمنٹ کے واجبات کے لئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ ملازمین کی طبی سہولیات ختم ہوچکی ہیں۔ وہ جنہوں نے کبھی کسی سرکاری ہسپتال یا خیراتی ادارے کا منہ نہیں دیکھا تھا اور جو پینل کے ہسپتالوں میں اپنے ٹائٹل سے نیچے علاج کروانے پر تیار نہیں ہوتے تھے۔ 31 اکتوبر 2016 کو ہونے والی ECC جس کی سربراہی اسحق ڈار صاحب نے کی تھی، میں ایک بار پھر تنخواہیں منظور نہ ہونے پھر سو سو بد دعائیں دے رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments