سیاست دان اور مولانا کی گرفتاری


\"sajidسنہ 1969 کی بات ہے میں گورنمٹ کالج لاہور میں تیسرے سال کا طالب علم تھا۔ ایک ڈیبیٹ میں شرکت کے لیے شیخوپورہ جانا تھا۔ میرے ایک ہم جماعت کا گھر شیخوپورہ میں تھا۔ اس نے مجھے کہا کہ میں اس کے گھر آ جاؤں اور وہاں سے اکٹھے کالج چلیں گے۔ میں جب اس کے گھر پہنچا تو ڈرائنگ روم میں بہت سے لوگ جمع تھے۔ ایک صاحب میر محفل بنے بیٹھے تھے۔ خالص دہلوی لہجے میں اردو بول رہے تھے۔ انگریزی بھی نہایت شستہ تھی۔ ان کی گفتگو اردو کے کلاسیکی شعرا کےاشعار، دلی کے محاوروں اور انگریزی شاعری کے شہ پاروں پر مشتمل تھی۔ محفل میں کسی نے مشاعرے کا ذکر کرتے ہوئے یہ جملہ بولا کہ فلاں شاعر کے آگے شمع بڑھائی انہوں نے فوراً ٹوک دیا اور کہا: صاحب! شمع بڑھانا شمع گل کرنےکو کہتے ہیں۔

میں نے بہت اندازے لگائے کہ ان صاحب کا شغل کیا ہو گا مگر وہ تمام غلط ثابت ہوئے۔ وہ کراچی کے ایک پولیس آفیسر تھے، ایس پی رینک کے۔ ان سے کسی نے پوچھا کہ کیا آپ نے کبھی سیاست دانوں کو گرفتار کیا ہے؟ اس پر انہوں نے بہت دلچسپ واقعات سنائے۔ ایک دفعہ جب وہ سردار عطا اللہ مینگل کے گھر پر انہیں گرفتار کرنے پہنچے تو سردار صاحب نے کہا آپ نے ناحق زحمت فرمائی۔ آپ ٹیلی فون کر دیتے، میں خود تھانے میں آ جاتا۔ خیر آپ آ گئے ہیں تو ہمارے ساتھ کھانا کھائیے۔ اس کے بعد ہم آپ کے ساتھ چلتے ہیں۔

جماعت اسلامی کراچی کے ایک رہنما چودھری غلام محمد تھے۔ انھوں نے ان کو فون کیا کہ میں آپ کے پاس حاضر ہونا چاہتا ہوں۔ چودھری صاحب نے آنے کی وجہ پوچھی تو کہا کہ آپ کو گرفتار کرنا ہے۔ چودھری صاحب نے جواب دیا آپ کو زحمت کرنے کی ضرورت نہیں، میں ایک گھنٹے بعد خود آپ کے پاس پہنچ جاؤں گا۔ اور وہ ٹھیک ایک گھنٹے بعد ان کے دفتر میں موجود تھے۔

اللہ اللہ کس پائے کے لوگ تھے۔ جب سیاست میں تھے تو یہ بھی معلوم تھا کہ گرفتاریاں بھی ہوں گی، جیل بھی جانا پڑے گا۔ وہ اس کو کھیل کا حصہ سمجھتے ہوئے بڑے وقار کے ساتھ قبول کرتے تھے۔\"ataullah-mengal\"

اس کے بعد انہوں نے مولانا احتشام الحق تھانوی صاحب کی گرفتاری کا قصہ سنایا جو خاصا عبرت ناک تھا۔ مولانا صاحب نے صدر ایوب خان کو غیر ملکی دورے پر روانہ ہوتے وقت ان کے بازو پر امام ضامن باندھ کر بہت ’’نیک نامی‘‘ کمائی تھی مگر عید کے چاند پر حکومت سے اختلاف ہو گیا تھا جس پر پانچ دیگر علما کے ساتھ ان کی گرفتاری کے بھی وارنٹ جاری ہو گئے۔ مولانا کو گرفتار کرنے کی ذمہ داری بھی انہیں ہی ملی۔ ایس پی صاحب نے بتایا کہ مولانا صاحب سے ان کے بڑوں کے دلی سے تعلقات تھے۔ وہ وارنٹ لے کر مولانا کی رہائش گاہ پر گئے اور انہیں اپنے ناخوشگوار فریضے سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ اپنی سہولت سے تیار ہو جائیں، بس کسی کو فون نہ کیجیے گا کہ میری نوکری کا سوال ہے۔ مولانا نے وعدہ کیا کہ وہ کسی کو فون نہیں کریں گے اور تیار ہونے گھر کے اندر چلے گئے۔ ایس پی صاحب نے بتایا کہ جب دیر ہوگئی تو انہوں نے کمرے میں پڑے ٹیلی فون کا ریسیور اٹھایا تو مولانا ٹیلی فون پر تقریر کر رہے تھے۔ اس طرح کوئی چار پانچ ٹیلی فون سنے۔ اس کے بعد مولانا تشریف لائے تو انہوں نے مولانا سے وعدہ خلافی کا ذکر کرنا مناسب نہ سمجھا۔ اس کے دو دن بعد کراچی کے نشتر پارک میں ایک مذہبی اجتماع تھا، جس میں مولانا کے ہاتھ کا لکھا ہوا ایک بیان تقسیم کیا جا رہا تھا۔ یعنی مولانا نے ٹیلی فون ہی نہیں کیے تھے بلکہ ایک بیان بھی لکھ کر رکھ گئے تھے۔ اس پر ان کو محکمانہ انکوائری کا سامنا کرنا پڑا جس سے بڑی مشکل سےگلو خلاصی ہوئی۔

عجیب بات ہے کہ مولانا تھانوی مرحوم کا ایوب خان کی حکومت سے رویت ہلال کے مسئلےپر اختلاف ہوا مگر ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت میں انہیں رویت ہلال کمیٹی کا چئیرمین مقرر کر دیا گیا۔ آغا شورش کاشمیری نے اپنے ہفت روزہ چٹان کے سرورق پر مولانا کی تصویر شائع کی اور اس پر یہ بلیغ تبصرہ کیا تھا: اب چاند سے طلوع ہونے میں کبھی غلطی نہیں ہو گی۔

ان پرانی باتوں کے یاد آنے کا ایک سبب یہ ہے کہ آج کل ٹی وی پر کچھ سیاسی رہنماؤں کا گرفتاری کے وقت طرز عمل دیکھتے ہوئے طفیل نیازی کا وہ مشہور گیت یاد آنے لگتا ہے: میں نئیں جانا کھیڑیاں دے نال


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments