بائی فوکل کلب – مشتاق احمد یوسفی


ہم نے کہا، ہمارا جو حال ہے وہ تنہا ایک آدمی کے غلط فیصلوں سے ہرگز نہیں ہو سکتا۔ ہمیں تو اس میں پوری قوم کا ہاتھ نظر آتا ہے! فرمایا، جاپان میں فن باغبانی کے ایک مخصوص شعبے بونسائی کو بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ اس کے ماہر پشت در پشت درختوں کو اس چاؤ چونچلے سے اگاتے اورسینچتے ہیں اور ان کی اٹھان کو اس طرح قابو میں رکھتے ہیں کہ تین تین سو سال پرانے درخت میں پھل پھول بھی آتے ہیں، پت جھڑ بھی ہوتا ہے، مگر ایک بالشت سے اونچا نہیں ہونے پاتا۔ تم نے اپنی شخصیت کو اسی طرح پالا پوسا ہے۔

ہم نے آنکھوں میں آنسو بھر کے کہا، مرزا! ہم ایسے نہ ہوتے تو تم کسے نصیحت کرتے؟ کچھ نرم پڑے۔ فرمایا نصیحت سے غرض اصلاح کس مسخرے کو ہے۔ مگر تم نے دماغ سے کبھی کام نہیں لیا۔ خالی چال چلن کے برتے پرساری زندگی گزار دی۔ ہم نے کہا، مرزا! تم تو یہ نہ کہو۔ ہم تمام عمر اپنی خواہشات سے گوریلا جنگ کرتے رہے ہیں۔ تم ہمارے دل کے کھوٹ سے واقف ہو۔ یہ آتش شوق

پوری بجھی نہیں، یہ بجھائی ہوئی سی ہے
جہاں تک اعمال کا تعلق ہے، خدا شاہد ہے کہ ہمارا کوئی کام، کوئی عمل خلاف شرع نہیں۔ لیکن اگر جنت و دوزخ کا فیصلہ فقط نیت کی بناء پر ہوا تو ہمارے دوزخ میں جانے میں خود ہمیں کو شبہ نظر نہیں آتا۔ مسکرا دیے۔ فرمایا، جن خواتین نے اپنی خوبصورتی سے تمہارے دھیان گیان میں خلل ڈالا، ان کی تعداد، کچھ نہیں تو، کراچی کی نصف آبادی کے برابر تو ہو گی؟

ہم نے مرزا کو یاد دلایا کہ لڑکپن ہی سے ہم پر امن زندگی بسر کرنے کے سخت خلاف رہے ہیں۔ مار دھاڑ سے بھرپور جیمس بانڈ جیسی زندگی گزارنے کی خاطر کیسے کیسے جتن کیے۔ انہیں تو کیا یاد ہو گا، قاضی عبد القدوس ان دنوں ہمیں BULL FIGHTING کی ٹریننگ دیا کرتے تھے۔ اور ایک داڑھی دار بوک بکرے کو سرخ ترکی ٹوپی پہنا کر، ہمیں اس کے خلاف اشتعال دلایا کرتے تھے۔ مڈل میں 33 نمبر سے حساب میں فیل ہونے کے بعد ہم نے ذریعہ معاش کے بارے میں یہ فیصلہ کیا کہ والدہ اجازت دے دیں تو PIRATE (بحری قزاق) بن جائیں۔ لیکن جب سن شعور کو پہنچے اور انگریز حکمرانوں سے نفرت کے ساتھ ساتھ نیک و بد کی تمیز بھی پیدا ہوئی تو زندگی کے نصب العین میں، مرزا ہی کے مشورے سے، اتنی اصلاح کرنی پڑی کہ صرف انگریزوں کے جہازوں کو لوٹیں گے۔ مگر ان کی میموں کے ساتھ بد سلوکی نہیں کریں گے۔ نکاح کریں گے۔

فرمایا ”یہ سب علامتیں“ مڈل ایج ”کی ہیں، جو تمہارے کیس میں ذرا سویرے ہی آ گئی ہے۔ ایک روسی انارکسٹ نے ایک دفعہ کیا اچھی تجویز پیش کی تھی کہ 25 سال سے زائد عمر والوں کو پھانسی دے دی جائے۔ لیکن پھانسی سے زیادہ عبرت ناک سزا تم جیسوں کے لیے یہ ہو گی کہ تمہیں زندہ رہنے دیا جائے۔ “ مڈل ایج ”کا بجز پیری، کوئی علاج نہیں۔ ہاں تنگ دستی اور تصوف سے تھوڑا بہت آرام آ جاتا ہے۔ ہمارے یہاں سن یاس کے، لے دے کے، دو ہی مشغلے ہیں۔ عیاشی۔ ۔ ۔ اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو۔ ۔ ۔ تصوف! اور قوالی میں ان دونوں کا عطر فتنہ ہے!

”اور تمہارا علاج ہے، ایک عدد بائی فوکل اور جمعرات کی جمعرات قوالی! دو دن سے سائیں گلمبر شاہ کا عرس ہو رہا ہے۔ آج رات بھی ہمارے پیر صاحب قبلہ نے محفل سماع کا اہتمام فرمایا ہے۔ مٹکے والے قوالوں کی چوکی کے علاوہ حیدرآباد کی ایک طوائف بھی ہدیۂ نیاز پیش کرے گی۔ “ ہم نے پوچھا ”زندہ طوائف؟ “ بولے، ”ہاں! سچ مچ کی! مرے کیوں جا رہے ہو؟ شین قاف کے علاوہ نک سک سے بھی درست۔ حضرت سے بیعت ہونے کے بعد اس نے شادی بیاہ کے مجروں سے توبہ کر لی ہے۔ اب صرف مزاروں پر گاتی ہے یا ریڈیو پاکستان سے! اور صاحب! ایسا گاتی ہے، ایسا گاتی ہے کہ گھنٹوں دیکھتے رہو! ہنستے کیا ہو۔ ایک نکتہ آج بتائے دیتے ہیں۔ ۔ گانے والی کی صورت اچھی ہو، تو مہمل شعر کا مطلب بھی سمجھ میں آ جاتا ہے۔ “

عشاء کے بعد ہم نے قوّالی کی تیاریاں شروع کیں۔ عید گا کڑھا ہوا کرتا پہنا۔ جمعہ کی نماز والے خاص جوتے نکالے۔ (مسجد میں ہم کبھی عام جوتے پہن کر نہیں جاتے۔ اس لیے کہ جوتے اگر ثابت ہوں تو سجدے میں بھی دل انہیں میں پڑا رہتا ہے ) مرزا ہمیں لینے آئے تو نتھنے پھڑکاتے ہوئے دریافت کیا کہ آج تم میں سے جنازے کی سی بو کیوں آ رہی ہے؟ ہم نے گھبرا کر اپنی نبض دیکھی۔ دل تو ابھی دھڑک رہا تھا۔ کچھ دیر بعد بات سمجھ میں آئی تو ہم نے اقرار کیا کہ گرم شیروانی دو سال بعد نکالی ہے۔

کافوری گولیوں کی بو بری طرح بس گئی تھی۔ اسے دبانے کے لیے تھوڑا سا حنا کا عطر لگا لیا ہے۔ کہنے لگے، جہاں آداب محفل کا اتنا لحاظ رکھا ہے، وہاں اتنا اور کرو کہ ایک ایک روپے کے نوٹ اندر کی جیب میں ڈال لو۔ ہم نے پوچھا کیوں؟ فرمایا، جو شعر تمہاری یا میری سمجھ میں آ جائے، اس پر ایک نوٹ ادب کے ساتھ نذر کرنا۔ چنانچہ تمام رات ہماری یہ دہری ڈیوٹی رہی کہ دام شنیدن بچھائے بیٹھے رہیں اور اس شغل شبینہ کے دوران مرزا کے چہرے پر بھی مستقل نظر جمائے رہیں کہ جوں ہی ان کے نتھنوں سے ہویدا ہو کہ شعر سمجھ میں آ گیا ہے، اپنی ہتھیلی پہ نوٹ رکھ کر پیر و مرشد کو نذر گزاریں اور وہ اسے چھو کر قوالوں کو بخش دیں۔

اپنی ذات سے مایوس لوگوں کا اس سے زیادہ نمائندہ اجتماع ہم نے اپنے چالیس سالہ تجربے میں نہیں دیکھا۔ شہر کے چوٹی کے ادھیڑ یہاں موجود تھے، ذرا دیر بعد پیر صاحب تشریف لائے۔ بھاری بدن۔ نیند میں بھری ہوئی آنکھیں۔ چھاج سی داڑھی۔ کترواں لبیں۔ ٹخنوں تک گیروا کرتا۔ سرپر سیاہ مخمل کی چو گوشیہ ٹوپی، جس کے نیچے روپہلی بالوں کی کگر۔ ہاتھ میں سبز جریب۔ ساز ملائے گئے۔ یعنی ہارمونیم کو تالیوں سے اور تالیوں کو مٹکے سے ملایا گیا۔

اور جب کلام شاعر کو ان تینوں کے تابع کر لیا گیا تو قوالی کا رنگ جما۔ ہمارا خیال ہے کہ اس پائے کے مغنیوں کو تو مغلوں کے زمانے میں پیدا ہونا چاہیے تھا، تاکہ کوئی بادشاہ انہیں ہاتھی کے پاؤں تلے رندوا ڈالتا۔ انہوں نے مولانا جامیؔ کے کلام میں میرا بائی کے دوہوں کو اس طرح شیرو شکر کیا کہ فارسی زبان سراسر مارواڑی بولی ہی کی بگڑی ہوئی شکل معلوم ہونے لگی۔ اور ہم جیسے بے علمے کو تو اصل پر نقل کا دھوکا ہونے لگا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5 6 7

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments