بس میں پھنسی چڑیا اور گدھ


\"zeffer05\"

چرس کے چند سوٹوں کا اثر تھا، کہ اُس کے پانو زمین پر نہیں پڑ رہے تھے۔ وہ بہ مشکل، فیض آباد بس اسٹینڈ تک پہنچا تھا۔ جڑواں شہر کو ملانے والا فلاے اوور، ابھی زیر تعمیر تھا۔ خلط ملط ٹریفک کے باوجود، اُس نے سڑک کسی نہ کسی طرح کراس کر ہی لی۔ اُس پار اسلام آباد میں، لوک ورثہ کی سالانہ نمایش کی تیاریاں شروع ہوگئی تھیں، جہاں اُس نے بھی اسٹال لے رکھا تھا۔ عموماً وہ نشے سے دور ہی رہتا تھا؛ معلوم نہیں کاروبار میں مسلسل خسارے کا اثر تھا، یا اِس شہر کی اُداس فضا کا نتیجہ، کہ ایک اسٹال ہولڈر کو چرس پیتا دیکھ کر، اُس نے بھی، دِل پشوری کرلیا۔ نمایش کے اِفتتاح میں، ابھی دو دن باقی تھے۔ اِس وقت وہ، ضروری کام نِبٹا کر گھر لوٹ رہا تھا۔ وہ ہفتے کا کون سا دن تھا، اب یاد نہیں، لیکن سردیوں کی اَبر آلود شام تھی۔ باہر کی طرح، اندر کا موسم بھی بھیگا بھیگا سا تھا۔ دِل کے نہاں خانوں سے ایک ڈر، سر اُبھارتا تھا، کہ کہیں دوسروں کو، اُس کی حالت کا پتا نہ چل جاے۔ ایسے میں کیف تو خاک ہونا تھا، بس ایک طرح کی بے کلی تھی، جوں ضمیر کی خلش ہوتی ہے۔ اُن دنوں راول پنڈی، اسلام آباد کے روٹ پر، یا تو ہائی ایس ویگن چلتی تھی، جو منزل پر پہنچانے کے لیے کم وقت لیتی تھی، یا پھر مِنی بس، یہ زرا رِمکے رِمکے چلتی تھی۔ عام حالات میں، وہ ویگن کو ترجیح دیتا، لیکن آج وہ بس میں سوار ہوگیا۔ خوش قسمتی سے بس تقریباً خالی تھی۔ دو سواریاں، آخری سِیٹ پر بیٹھی تھیں۔
”اب ٹھیک ہے“ اُس نے سوچا۔ “ یہ بس صدر تک پہنچنے میں چالیس پینتالیس منٹ تو لے گی، اُس وقت تک، میری طبیعت بھی سنبھل جائے گی۔ “
چرس کے نشے میں، ذہن کی حالت، سمندر میں اُبھرتے ڈوبتے جہاز کی سی ہوتی ہے۔ ابھی اوپر، ابھی نیچے، ابھی ظاہر، ابھی گم۔ بس اُسے بادبانی کشتی کے مانند محسوس ہورہی تھی۔ سست؛ پر جلدی بھی کسے تھی؟ اُس نے جسم ڈھیلا چھوڑ دیا۔ بھلا کوئی کشتی سے اُتر کر جاے بھی تو کہاں؟ پاس پورٹ آفس کے اسٹاپ سے چار سواریوں کا اضافہ ہوگیا۔ اُن میں دو لڑکیاں بھی تھیں۔ سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا، مگر بادل اُس کی ڈھلتی کِرنوں سے، اپنی چادر سکھارہے تھے۔ بس کے اندر کی دُھندلائی پیلی روشنی، اور کِھڑکی سے باہر پھیلی سرمئی اُداسی، کنٹَراس کے باوجود، مَیچ کررہی تھی۔ کشتی ایک بار پِھر ڈُوب کر نِکلی۔ چاندنِی چوک کا اسٹاپ گزر چکا تھا۔ اُن کی تعداد پانچ تھی، عمریں سولہ سے چوبیس کے درمیان۔ بس میں جو اُداس سکُون تھا، اُن کے آنے سے وہ منتشر ہوچکا تھا۔ اُس نے پہلی ہی نظر میں اُن لڑکوں کو مُسترد کردیا تھا۔ یہ پچھلے اسٹاپ سے سوار ہوے تھے، اور اب شہدا پَنا کررہے تھے۔ اُن کی ذُومعنی گفت گو کا ہدف، پاس پَورٹ آفس سے سوار ہونے والی لڑکِیاں تھیں۔ سب خاموش تھے۔ نفرت سے، اُس کا چہرہ بگڑا۔ یہ بازاری لڑکے فرنٹ ڈور سے داخل ہوکر، اُن لڑکیوں کے سر پر سوار تھے۔ حال آں کہ پوری بس میں بہت سی نِشَستیں خالی تھیں۔ اُس کا دل چاہا، کہ اُن لڑکوں کو ٹوکے، یا کم سے کم اُس جگہ سے ہٹ کر بیٹھنے کا کہ دے۔ خوف کے سانپ نے سر اُٹھا کے، اُس کا راستہ روک دیا۔
”لڑکے بد تمیز ہیں۔ ہوسکتا ہے، لڑائی بن جائے۔ بات پولِس تک چلی جائے۔ ایسے میں!“
وہ رِسک نہیں لینا چاہتا تھا۔
”گو ذہن آہستہ آہستہ سنبھل رہا ہے، مگر خون میں اثرات تو رہتے ہیں ناں۔ اگر شبہہ بھی ہوگیا، تو بلَڈ ٹیسٹ سے معاملہ صاف ہوجائے گا۔ “ وہ چپ رہا۔ ” بس میں سبھی نشہ کرکے بیٹھے ہیں؟“ اُس نے سوچا۔ اور پھر خود ہی اس خیال کو جھٹک دیا۔
”دراَصل، کوئی پرائی آگ میں نہیں کودنا چاہتا۔ “
یہی بات، ان لڑکوں کی جرات بڑھانے کے لیے کافی تھی۔ اب اُن کی زبانیں ہی نہیں، ایک کے ہاتھ بھی شرارت کررہے تھے۔ وہ جس زاوئیے پر بیٹھا تھا، وہاں سے سب دکِھائی دے رہا تھا۔ چار لڑکوں نے نِیم دائرے کی شکل میں، اپنے اُس ساتھی کو کور دینے کی کوشش کی تھی۔
” کیا کوئی اور بھی اِن لڑکوں کی حرکت نَوٹ کررہا ہے؟“
یہ خیال آتے ہی، اُس نے گردن گُھما کر تمام مسافروں کا جائزہ لیا۔ ایک انوکھا اِنکشاف ہوا، کہ بس میں بیٹھے مسافِر اندھے ہیں۔ کیوں کہ کسی کے چہرے پر کوئی تاثر نہیں تھا، یا پھر سب کے سب اعلا پائے کے اداکار تھے، جِنھیں تاثرات چھپانے میں ملکہ حاصل ہوتا ہے۔ ایک وہی اندھوں میں کانا تھا، مگر راجا بننے کی ہمت نہ ہوئی۔ وہ ڈرپَوک نہیں تھا۔ لڑائی بِھڑائی سے بھی نہ گھبراتا تھا۔ دوستوں میں اُس کی شناخت ایک لڑاکے کی تھی۔ یہ شاید نشہ تھا، جِس نے، اُسے بزدِل بنا دیا تھا۔ اُس نے مَن ہی مَن میں، نشے کو موٹی تازہ گالی بکی۔ یہ گالی، اُن لڑکوں کی سماعت تک نہیں پہنچی، جو حد سے بڑھتے جارہے تھے۔ اُس کا پِھر جی چاہا، کہ اٹھے اور نتائج کی پَروَا کیے بہ غیر اُن لڑکوں کو سبق سِکھائے۔ مگر جسم نے دماغ سے ایسا کوئی سِگنَل، وصول نہیں کیا۔
”لڑکیاں بھی تو احتِجَاج نہیں کررہِیں، بس مزاحمت میں سکڑتی چلی جارہی ہیں۔ “
جِتنا وہ بڑھتے ہیں، اُتنا یہ سمٹتی ہیں۔ بڑھنے کے لیے جگہ کم نہ تھی، سِمٹنے کے لیے کم پڑرہی تھی۔
“ شاید وہ بھی تماشا نہیں بننا چاہ رہیں۔ یہ اَلگ بات ہے، کہ تماشائی اندھے ہیں۔ “
اُس نے کبھی باز کو چڑیا کا شکار کرتے نہیں دیکھا تھا، لیکن لڑکیوں کی حالت، سہمی ہوئی چڑیوں کے مانند دکھائی دے رہی تھی۔ لڑکوں کو باز سے تشبہیہ دینے میں اُسے عار تھا۔
”یہ تَو گِدھ ہیں۔ “ ایسے میں، اُسے اپنا وجود بھی لاش محسوس ہوا۔ “ اب میں اور ظلم برداشت نہیں کروں گا۔ “ اُس نے فیصلہ کرلیا تھا۔ ” اگر میں ظلم کو روک نہیں سکتا، تَو، ، ، تَو، ، ، تَو کم سے کم، اسے دیکھوں گا بھی نہیں۔ “
محلہ وارث خان کا اسٹاپ آتے ہی وہ بس سے اُتر گیا۔ اپنے پیچھے اُسے لڑکوں کی سرور بھری آوازیں سنائی دیں، جیوں اُنھوں نے اِس فیصلے کی تائید کی ہو۔ بس گُزرتے ہی اُس کی نظر، حبیب گلاس ہاوس کے بورڈ پر گئی، جو ایک دُکان کی پیشانی پہ آویزاں تھا۔ یہ پِکچَر فریمنگ کی شاپ تھی۔
”لوگ بھی کیسے بے ڈھب نام رکھتے ہیں۔ حبیب گلاس ہاوس اور پِکچَر فریمنگ کی شاپ؟ اونہ!“
نگاہ ڈھلکتِی ہوئی نیچے آئی۔ کارنر کی دیوار پر تازہ تازہ چاکنگ ہوئی تھی۔ سیاہ اور شنگرفی رنگ بارش میں دھلے دِکھ رہے تھے۔ ”شبابِ مِلی دوَاخانہ۔ مَردانہ کَم زوری کا شرطیہ عِلاج، صرف تیس یَوم میں۔ “
پہلے تو وہ دیکھا کِیا۔ جب بزدلی کا احساس گہرا ہونے لگا، تو سر جھٹک کر، اُس تحریر کو ذہن سے نکال پھینکا۔
”بھلا اٹھائیس سالہ مرد کی کم زوری کا عِلاج، محض تیس یَوم میں کیسے ہوسکتا ہے؟‌“

ظفر عمران

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ظفر عمران

ظفر عمران کو فنون لطیفہ سے شغف ہے۔ خطاطی، فوٹو گرافی، ظروف سازی، زرگری کرتے ٹیلی ویژن پروگرام پروڈکشن میں پڑاؤ ڈالا۔ ٹیلی ویژن کے لیے لکھتے ہیں۔ ہدایت کار ہیں پروڈیوسر ہیں۔ کچھ عرصہ نیوز چینل پر پروگرام پروڈیوسر کے طور پہ کام کیا لیکن مزاج سے لگا نہیں کھایا، تو انٹرٹینمنٹ میں واپسی ہوئی۔ آج کل اسکرین پلے رائٹنگ اور پروگرام پروڈکشن کی (آن لائن اسکول) تربیت دیتے ہیں۔ کہتے ہیں، سب کاموں میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو قلم سے رشتہ جوڑے رکھوں گا۔

zeffer-imran has 323 posts and counting.See all posts by zeffer-imran

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments