جمہوری پٹولے میں آمریت


\"Rashid

اس جمہوریت کے اتنے روپ ہیں کہ کوئی کیسے جانے یہ کیا ہے، ساز ہے یا آواز ہے، داستاں ہے یا ارماں ہے۔ اسے سنا ہے، مگر اتنا بد بخت ہوں کہ کبھی دیکھا نہیں۔ 16 سال پہلے ووٹ کا حق ملا اور ناحق استعمال کیا۔ با رعب نشان پہ ٹھپہ لگایا۔ پھر منشور میاں کی مانی کہ چلو اب کی بار اس کی جمہوریت دیکھتے ہیں۔ الٹ پلٹ کے سب دیکھا مگر جمہوریت کا کوئی سراغ نہیں ملا۔ موجودہ شور و غوغا پہ بھی ہمیں ہر گز یہ گماں نہیں ہوتا کہ جمہوریت ان کے ہاں دستیاب ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جمہور پسندوں کے تیور بہت جدا ہوتے ہیں۔ یہ کوئی کھوئی ہوئی میراث ہے یا ابھی اس تک ہم پہنچے ہی نہیں ہیں۔ ہمارا حال تو اس بدھو خریدار والا ہے، جس کے ساتھ کوئی چالاک ٹھیلے والا شے دینے میں ٹھگی کر جائے۔ دکھائے کچھ اور دے کوئی اور۔ ہم تو ہر ہونی کو حادثہ سمجھ کے بھلانے کے عادی ہیں۔ تقدیر کے کھیل میں ہمارا کیا دوش۔ بھئی عوامی احتجاج کے دوران کسی کے ہاں اگر کوئی کمسن مرے تو اسے کمسن شہادت کہنے پہ غور و فکر ہو رہا ہے۔ زخمی اس معرکے میں غازی ہیں جب کہ جنہوں نے کامیابی سے رکاوٹیں ڈالی ہوں انہیں فاتح مسلمان کہنا پڑے گا۔ یعنی دونوں اقسام کے مسلمان گھاٹے کا سودا نہیں کرتے۔ حیرت ہے کہ ایسے ماحول میں بھارتی سورماؤں کو خواہ مخواہ گولہ بارود ضائع کرنے کی پڑی ہوئی ہے ورنہ صاحب جو کہرام ہم نے مچایا ہوا ہے اس کے لئے بیرونی جارحیت ایک اضافی سا معاملہ لگتا ہے۔ خیر ذکر جس طلسماتی وجود کا ہو رہا ہے، نسلوں طویل مسافتیں طے کر کے بھی ابھی اس کا حصول ”بدستور“ ناممکن بنا ہوا ہے۔

یوں بھی بارہا ہوا ہے کہ عقیدت مندوں کے لئے جمہوری ذکر اذکار کا مناسب انتظام ہر موقع پہ کیا گیا۔ کیونکہ آزاد خیالوں کے لئے کوئی تخیلاتی یا تصوراتی گھڑی اگر آئے تو عقیدت مند کہیں احساس محرومی کا شکار نہ ہوں۔ لہذا ان کے لئے علیحدہ سے بندوبست کیا جاتا ہے اور خاص حلقوں کے ذریعے معتقدین تک جمہوری پیغامات پہنچائے جاتے ہیں۔ باوجود ان سب کاشوں کے کچھ لوگوں کو عقل سے پیدل ہونے کا اعزاز ملتا ہے۔ (جموری معیار کے مطابق) انہیں جمہوریت کے لباس میں آمریت ہی نظر آئی ہے۔ وہ ہر دور میں آمریت ہی کو دیکھتے آئے ہیں۔ ان کے ہاں یہی بحث ہے کہ اس سے بڑی خود فریبی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ہم آمریت کو جانتے ہوئے بھی جمہوری لباس پہناتے آئے اور اس جمہوری پٹولے پہ جو جو لاگت آئی وہ اس ملک کے محنت کشوں کے پسینے کو نچوڑ کے ادا ہوتی رہی ہے۔ عوام کے فیصلوں میں پسماندگی اور ناخواندگی کا جتنا ہاتھ ہے اس سے زیادہ کردار ان معرفت رکھنے والوں کا ہے جنہوں نے آمریت کو جمہوری پٹولے میں پیش کیا۔ یعنی ہمارے ساتھ ٹھگی کرتے رہے، وہ تمام صفات گنواتے رہے جو دراصل لباس کی حد تک تھیں۔ اندر وہی مقروح، سنگدل اور ناگوار آمریت تھی۔ ایک طاقت سے حکومت بچائی جاتی رہی اور دوسری طرف حکومتیں گرانے کی تدبیریں تلاش کی جاتی رہی ہیں۔ اس کھینچا تانی میں عوام ابھی تک زیرو پوائنٹ پہ کھڑے ہیں۔ پہلے انہیں ایک طرف دھکیلا جاتا ہے، بھیڑوں کی طرح، پھر انہیں نان قورمے کی کھٹی ڈکاروں کے ساتھ اسی مقام پہ لوٹنا پڑتا ہے جہاں سے ڈھیروں امنگیں اور بہلاوے سمیٹے نکلے تھے۔

حالیہ احتجاجی واردات میں کیا ہوا، لوگ ایک طرف ہانکے گئے۔ کسی بھی طرح، جمہوری راگ لگے، ایک طرف سے الاپ ہوا دوسری طرف سے رنگ ڈالا گیا۔ عوام نے جو گھونٹ تریاک سمجھ کے لیا۔ اس کی تاثیر نہیں بتا سکتے۔ وہ کڑواہٹ کی شدت ہمیں نہیں بتا سکتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑی چاہ سے گھر چھوڑا، صعوبتیں سہیں، قائدین کی تقریریں لوگ اپنی زبانی نشر کرتے رہے۔ یہ ناچ پتہ نہیں خوشی کا بھی ہو، لیکن خوشی کا تعلق دل سے ہوتا ہے۔ دل ہی اس کا مسکن ہے، دل ہی گواہ ہے اور دل ہی ماخذ ٹھہرا۔ دل گواہی دے گا کہ وہاں سے جو بلا گزری ہے اسے کسی اعتبار سے خوشی نہیں کہا جا سکتا۔ ہر بار خوشی خوشی کہ کر کرب کی دلدل میں اتارنے کا عجب ڈھنگ ہے۔ یہ کہانی تاریخی طور پہ جتنے ادوار پہ مشتمل ہو مگر اس کا مرکزی خیال ایک ہی ہے۔ ہر دور میں صرف کردار بدلتے ہیں۔ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے۔ نہ ماں اپنی اولاد کو نچوا کر اپنی تفریح کا انتظام کرتی ہے اور نہ ڈنڈا برداروں کی بارات لے کر اولاد کو پیٹ ڈالتی ہے۔ ہر صورت میں لوگ ہی ذلیل ہوئے، جزباتی ناخواندگی کی سخت سزا مسلط ہوتی ہے۔

بحرحال میڈیا نے اب صفائی مہم کا آغاز کر دیا ہے، جو جس کے لئے موزوں ہے اس کی بن عدالت وکالت ہو رہی ہے۔ دونوں پارٹیاں مفتوح ہیں اپنی اپنی جگہ اور اپنے ذاتی بیانات کے مطابق۔ عوام کی تاحال کوئی خبر نہیں ہے، وہ چاہتے ہیں کہ اگر اس بار جان چھوٹی تو گانوں سے بھی توبہ کریں گے اور ڈنڈے کھانے کی بجائے سردیوں میں انڈے کھا لیں گے۔ کیونکہ کچھ کھانے کے بعد اگر کچھ حاصل نہ ہو تو جھنجھلاہٹ رہتی ہے۔

اس سب میں ایف سی کے جوانوں کے لئے تنخواہ میں معقول اضافہ البتہ ایک ایسی خبر ہے کہ جسے اس مہم کا اچھا اختتام کہا جا سکتا ہے کہ چلیں کچھ تو ملا ہے عام آدمی کو جس سے کسی گھر کا بھوجن بہتر ہو جائے گا۔ چند ماہ مہنگائی سے جنگ کرنے میں ملازمین کو آسانی ہو گی۔ البتہ اس اعلان نے ایک صدی قبل شہنشائت کی یاد تازہ کرادی۔ جب عالم پناہ کو مشیر خاص یہ تجویز کرتا ہے کہ آنے والے معرکے کے لئے سپاہیوں کے وظیفے کو دگنا کر دیں تا کہ شہنشاہ کی فتح کے لئے سپاہی کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ خیر اب تو نہ وہ شہنشاہ رہے اور نہ سپاہی، یقین مانیے کہ اب ویسا کچھ نہیں رہا۔ بس کچھ آوارہ سی یادیں ہیں جنہیں خدام سلطنت عوام کی تاریخی یاداشت کے لئے تازہ کرتے ہیں۔

لوگ بڑی تیزی کے ساتھ موجودہ قائدین سے لا تعلق ہو رہے ہیں۔ چاہے وہ جس پارٹی سے منسلک ہوں۔ کیونکہ اعتماد کا فقدان ایک دفعہ اگر پیدا ہو جائے تو اس کی بحالی کے لئے غیر معمولی محنت درکار ہوتی ہے۔ جمہوری ساز و آواز سے لوگ اب بہلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ جمہوری پٹولے میں ملبوس آمریت کو لوگوں نے تاڑ لیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments