ٹویوٹا کرولا میں سجدے اور دیسی مرغی کا فاتح
کراچی کی ایک بڑی شاہراہ پر بتی سرخ ہوئی۔ میں سڑک پار کرنے کے لیے لپکا تو ایک سفید ٹویوٹا کرولا سامنے رکی، میں نے گاڑی کے مسافر کو دیکھا تو میرا دِل زور سے دھڑکا، سانس بند ہونے لگی۔ ڈرائیور کی ساتھ والی سیٹ پر میرے صحافتی ہیرو ہارون الرشید صاحب تشریف فرما تھے۔ میں کراچی کی بے ہنگام ٹریفک کی پرواہ نہ کرتے ہوئے، رکشوں اور موٹر سائیکلوں کا دھواں پھانکتے ہوئے اِس سفید کرولا کی طرف بڑھا۔ پتہ چلا کہ آپ منہ ہی منہ میں کچھ بڑ بڑا رہے ہیں۔ میں سمجھا آپ مطالعہ فرما رہے ہیں۔ کچھ لوگوں کی ایک کیوٹ سی عادت ہوتی ہے کہ وہ جب پڑھتے ہیں تو اُن کے ہونٹ ہلتے ہیں۔ میرے شوق تجسس نے زورآوری کی کہ آگے بڑھو اور دیکھو کہ آپ کیا پڑھ رہے ہیں۔ میں نے گاڑی کے شیشے میں سے جھانکا تو آپ مطالعہ نہیں کر رہے تھے بلکہ نماز پڑھ رہے تھے۔
میرے دِل میں پہلے ہی اُن کی عِزت بہت تھی، ایک دم مجھے لگا کہ اِس سے بڑا عبادت گزار کوئی نہیں ہو سکتا۔ آپ یقینا کِسی جنگ یا ٹی وی پروگرام کے لیے جا رہے ہوں گےتو راستے میں عصر کا وقت ہوا تو بجائے اپنے میزبان کو تنگ کرنے کے، رستے میں ہی نیت باندھ لی۔ میرا دِل کیا کہ چیخ چیخ کر کہوں کہ ٹریفک کی لال بتی پر بےصبری سے ہارن بجانے والو، دیکھو کہ پاکستان کا ایک عظیم صحافی اپنی گاڑی میں سجدہ ریز ہے۔ اِتنے میں ٹریفک کی بتی سبز ہوئی اور میں طوفانی ٹریفک سے بچتا بچاتا، ڈرائیوروں کی گالیاں کھاتا سڑک کے دوسرے پار پہنچ گیا۔
پرانی عادت ہے کہ جب کِسی اپنے پسندیدہ مصنف، شاعر یا فنکار کو دیکھتا ہوں تو بات کرنے کی ہمت نہیں ہوتی۔ آپ اُن کو کیا ایسی بات بتائیں گے جو پہلے ہی کوئی پرستار نہ بتا چکا ہو اور وہ آپ سے کیا ایسا کہیں گے جو اُن کی تحریروں یا فن پاروں میں موجود نہیں ہے۔
میں جِم میں کبھی کبھی سابق کرکٹر محمد یوسف کو ٹریڈ مل پر بھاگتے دیکھتا ہوں تو سلام کرنے کی بجائے کن انکھیوں سے دیکھ کر اُن کا دوڑنے کا سٹائل کاپی کرنے کی کو شش کرتا ہوں۔ سال سے اوپر ہو گیا ایک قدم بھی اُن جیسا نہیں اُٹھتا لیکن کوشش جاری ہے۔
میں اپنے صحافتی ہیرو ہارون الرشید کی نقل اُس وقت سے کرنے کی کوشش کر رہا ہوں جب میں نے اُن کی جنرل اختر عبدالرحمن کی سوانح عمری \’فاتح\’ پڑھی تھی۔ آپ کو کتاب کے مندرجات سے اختلاف ہو سکتا ہے لیکن وہ جُزیات کے بادشاہ ہیں۔ جنرل اختر کی ترقی نہیں ہوتی تو وہ جنرل ضیاالحق کو چھاؤنی کے معائنے کی دعوت دیتے ہیں لیکن اُس سے پہلے یہ تحقیق کرتے ہیں کہ جنرل صاحب کو کون سا باسمتی چاول پسند ہے اور یہ کہ مطالعہ میں مُودودی مرغوب ہے۔ تو میس میں چاول بھی وہی پکتے ہیں اور تقریب تقسیم انعامات میں تفہیم القران اِنعام کے طور پر دِی جاتی ہے۔
اُس کے بعد ایسے وقتوں میں جب عمران خان پاکستانی سیاست میں ایک لطیفہ سا بن چلے تھے یہ ہارون رشید ہی تھے جو ہر روز اُن کے ناشتے، لنچ اور ڈنر کا احوال لِکھتے تھے۔ بزرگان کے ساتھ اُن کے مکالموں کی تفصیل رقم کرتے تھے۔ خان صاحب کے لیے دیسی مرغی کہاں سے آتی تھی یہ سب ہم اُنہیں کی وجہ سے جانتے ہیں۔ عمران خان کو سیاستدان تو پتہ نہیں کس نے بنایا لیکن کپتان بہرحال آپ ہی نے بنایا ہے۔
پھر ایک ایسے وقت میں جب جنرل کیانی کو ریٹائرمنٹ کے بعد کوئی اچھے لفظوں میں یاد کرنے کے لیے تیار نہیں تھا تو آپ ہی نصف شب کو اُن کے ساتھ محفلوں کے تذکرے، اُن کے گھر کے بنے ہوئے سموسوں کے ذائقے اور اُن کے ذوقِ مطالعہ کی خبریں ہم تک لاتے تھے۔
آپ کے اکثر شہہ پارے کِسی قرآنی آیت، حدیث، یا کِسی فقیر کی حکایت سے شروع اور ختم ہوتے ہیں جن کے مقابلے میں اِنسانی دلیل لانا تقریباً ناممکن ہے۔ لیکن گزشتہ ہفتے آپ نے ایک کالم شروع کیا کہ فقیر نے پوچھا کہ فلاں فلاں فلاں ورد کرتے ہیں۔ وغیرہ
اِس کے بعد عمران خان کو مشورے، جنگ کی تیاریاں، بیچ طوفان کے جرات اور حکمت کا موازنہ۔ لیکن ایک ہی جملے میں آپ یہ بھی کہہ گئے کہ آپ کی طرح اِسلام آباد کا ایک دوسرا صحافی جِس پر ایک خبر کی وجہ سے عذاب نازل تھا یعنی سِرل المائڈا اُس کے بھارت سے رابطے ہیں۔
کیا واقعی؟
آپ ہی کے کالم میں کئی بار پڑھ چکے ہیں اور حدیثوں اور حکایتوں کے حوالے سُن چکے ہیں کہ کوئی افواہ سُنو تو تحقیق کے بغیر نہ بڑھاؤ اور اِس میں تو افواہ بھی سب سے پہلے ہم نے آپ سے ہی سُنی۔ کیا یہ کافی نہ ہوتا کہ آپ اُس کی خبر پر سوال اُٹھاتے، چلیں اُس کی نیت پر بھی شک کر لیتے لیکن کیا آپ نہیں جانتے کہ کِسی پاکستانی صحافی پر بھارت سے تعلقات کا الزام لگانے کا کیا مطلب ہوتا ہے۔ ہمارے درویش بہتان لگانے والوں کے بارے میں کیا کہتے ہیں۔
جِس قلم سے حکمت کے پھول برستے ہیں اُس سے دُشنام بہنے لگے تو قاری کیا کرے۔ اور جو میری طرح آپ کے شاگرد ہیں وُہ کِس دیوار پہ اپنا سر پٹکیں۔ کیونکہ شک ہونے لگا ہے کہ کیا واقعی جنرل اختر عبدالرحمن فاتح تھے، انہوں نے کونسا ملک فتح کیا تھا؟ کیا جنرل کیانی کے گھر بننے والے سموسوں میں تیل واقعی برائے نام ہوتا ہے۔ کیا واقعی عمران خان کی ہر مرغی دیسی ہوتی ہے؟
خدا کراچی کی ٹریفک لائٹوں پر آپ کے سجدے قبول کرے لیکن اِس دل کا کیا کریں جو آپ کو فلاں، فلاں فلاں سمجھتا تھا اور اب مضطرب ہے کہ اب اپنے ہیرو کو کیا سمجھے۔
(بشکریہ بی بی سی اردو – 3 نومبر 2016)
- محسن نقوی کا پاکستان - 17/03/2024
- 44 سال بعد مرگِ یوسف کی خبر - 09/03/2024
- کیا اسلام آباد میں ایک دیوانے کی گنجائش بھی نہیں؟ - 03/03/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).