کورونا وائرس: برسوں سے لوگ کیسے جانتے تھے کہ کووڈ 19 جیسی وبا آئے گی؟
معاملہ یہاں ختم نہیں ہوا
یہ تو تھی اچھی خبر۔ مگر بری خبر یہ ہے کہ کووِڈ نائنٹین نے ہمیں یاد دلایا ہے کہ وبائی امراض ابھی ختم نہیں ہوئے ہیں۔ بلکہ درحقیقت نئے وبائی امراض پیدا ہوگئے ہیں، جیسے سارز، ایچ آئی وی، اور کووِڈ نائنٹین میں گزشتہ صدی کے دوران چار گنا اضافہ ہوا ہے۔ صرف سنہ 1980 میں پھوٹنے پڑنے والی وبائیں تین گنا ہو چکی تھیں۔
اس اضافے کی کئی وجوہ ہیں۔ ایک تو یہ کہ پچھلے 50 برس میں دنیا کی آبادی دگنی ہو گئی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہوا کہ متعدی امراض کا شکار ہونے اور پھر ان وباؤں کو دوسروں کو منتقل کرنے کے لیے زیادہ لوگ دستیاب ہیں۔ گزشتہ دس ہزار سال کے مقابلے میں آج ہمارے پاس مال مویشی زیادہ ہیں اور وائرس کو انسانوں تک منتقل کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔
جیسا کہ کووِڈ نائنٹین نے ثابت کر دیا ہے کہ مربوط عالمی معیشت وبائی امراض پھیلنے کا ایک سبب بھی ہے، اور سامان کی ترسیل کے طویل اور باہم جڑے ہوئے سلسلے کی وجہ سے نازک بھی، کیونکہ وبائی امراض سے پیدا ہونے والا خلل اس میں بڑی آسانی سے رخنہ پیدا کر سکتا ہے۔
دنیا کے کسی ایک مقام سے دوسرے مقام تک محض بیس گھنٹے کے اندر پہنچنے کی صلاحیت اور وہاں سے جراثیم آلود سامان کے ساتھ کہیں اور سفر کرنے نے وبائی امراض کا خطرہ بڑھا دیا ہے۔ ماضی میں طویل دورانیے کے سفر میں ایسے جراثیم کے ہلاک ہو جانے کا امکان زیادہ رہتا تھا۔
وبائی امراض کے خلاف پیش رفت کے باوجود ہماری ترقی نے ہمیں جراثیم کے مقابلے میں زیادہ کمزور کر دیا ہے، جو انسانوں کے مقابلے میں چار کروڑ گنا تیزی سے نمو پاتے ہیں۔
سنہ 1928 میں پینسِلین کی دریافت کے بعد لاکھوں جانیں بچائی گئی ہیں مگر اینٹی بایوٹِکس کے خلاف جراثیم کی مزاحمت بھی روز افزوں بڑھ رہی ہے۔ ڈاکٹر اسے عالمی سطح پر عوامی صحت کے لیے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق صرف یورپ میں سنہ 2018 میں تینتیس ہزار افراد ایسی بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے جن کے جراثیم کے خلاف اینٹی بایوٹِکس بے اثر ہو چکی تھیں۔
سنہ 2013 میں عالمی بینک نے تخمینہ لگایا تھا کہ سنہ 1918 کے فلو جیسی کوئی وبا آج کی مربوط عالمی معیشت کو چار ٹریلین یعنی چالیس کھرب ڈالر کا نقصان پہنچا سکتی ہے۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق کووِڈ نائنٹین کی وجہ سے دس کھرب ڈالر سے زیادہ کا نقصان تو اب تک ہو ہی چکا ہے۔
کووِڈ نائنٹین نے چین کے ایک جدید اور گنجان آباد شہر سے نکل کر چندہ ماہ کے اندر دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سائنسدان اس وائرس کو سمجھنے کی سر توڑ کوشش کر رہے ہیں۔ مگر فوری طور پر اس کی روک تھام کے لیے ہم سوائے اس کے اور کچھ نہ کر سکے کہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں معاشی اور معاشرتی سرگرمیوں کو تالا ڈال کر اس وائرس کی ترسیل کو روکنے کی کوشش کریں۔ انٹرنیٹ اور موبائل پر رابطوں اور تفریح کو اگر ایک طرف رکھ دیا جائے تو ہم نے بھی وہ ہی کیا جو وبا کے دنوں میں ہمارے اجداد کرتے تھے۔
حالانکہ کووِڈ 19 جیسی کسی وبا کی پیشگوئی موجود تھے اس کے باوجود ہم نے اس کے تدارک کے لیے خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے۔
ہمیں مستقبل میں کسی ایسے ہی خطرے سے نمٹنے کے لیے تیار رہنا ہو گا۔ یہ خطرہ حقیقی ہے جس سے ہمیں ہر صورت دوچار ہونا ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ہم صحت کے عالمی اداروں پر زیادہ توجہ دیں، ان کی لیاقت بڑھائیں۔ عالمی ادارۂ صحت کا بجٹ، جو سات ارب اسی کروڑ انسانوں کی صحت کا ذمہ دار ہے، امریکا کے کسی بڑے اسپتال سے بھی کم ہے۔
ہمیں ویکسین تیار کرنے کی استعداد میں اضافہ کرنا ہوگا، اور ادویات بنانے والی کمپنیوں کو باور کرنا ہوگا کہ ان کا سرمایہ وبا کے پہلے ختم ہوجانے کی صورت میں ڈوبے گا نہیں۔
ایک بڑا مسئلہ ہماری یادداشت کا ہے۔ سارز یا اِیبولا جیسی وبا آنے کے بعد سیاستدان وعدے تو بہت کرتے ہیں مگر اس کے بعد بھول جاتے ہیں اور مناسب مالی امداد فراہم نہیں کرتے۔
مجھے جیسے امید سی ہے کہ کووِڈ 19 کے معاملے میں ایسا نہیں ہو گا۔ ہمیں اس وبا کو شکست دینے کے لیے وہ سب کچھ کرنا ہو گا جو ضروری ہے، اور اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ یہ وبا قصۂ پارینہ ثابت ہو نہ کہ آنے والے واقعات کا پیش خیمہ۔
- خاتون فُٹ بال شائق کو گلے لگانے پر ایرانی گول کیپر پر 30 کروڑ تومان جُرمانہ عائد: ’یہ تاریخ میں گلے ملنے کا سب سے مہنگا واقعہ ثابت ہوا‘ - 24/04/2024
- ’مغوی‘ سعودی خاتون کراچی سے بازیاب، لوئر دیر سے تعلق رکھنے والا مبینہ ’اغوا کار‘ بھی زیرِ حراست: اسلام آباد پولیس - 24/04/2024
- جنوبی کوریا کے ’پہلے اور سب سے بڑے‘ سیکس فیسٹیول کی منسوخی: ’یہ میلہ خواتین کے لیے نہیں کیونکہ ٹکٹ خریدنے والے زیادہ تر مرد ہیں‘ - 24/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).