دھرنے سے یوم تشکر تک


(حیدر علی)

\"haider-ali\"

پاکستان تحریک انصاف نے آخر کار اسلام آباد بند کرنے کا منصوبہ از خود ختم کردیا۔ اس موقع پر جہاں بہت سے اہل علم تحریک انصاف کو جمہوری طریقہ اپنانے پر مبارک باد دے رہیں ہیں، وہیں پر اس بات پر غور کرنا بھی ضروری ہے، کہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران اس ملک کو کس اذیت سے گزرنا پڑا۔ گو کہ فدوی اس بات سے متفق تھا، کہ تمام اداروں کو آواز دے کر مخاطب کرنے کے بعد بھی اگر پاناما لیکس پر کوئی پیش رفت نہیں ہو رہی، تو ایسے میں پی ٹی آئی کا سڑکوں پر آنا کوئی غیر جمہوری یا عقل سے بالا تر عمل نہیں تھا۔ اپوزیشن کا رویہ جارحانہ ہی ہوتا ہے اور اس پر طرہ یہ کہ اس جماعت کے سربراہ ایک کپتان اور بے حد جذباتی انسان ہوں مگر جماعت کے لاک ڈاؤن پلان کو سرے سے دھرنے کی بجائے فقط ایک جلسے میں بدل دینا یقیناً کم فہمی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ یہ درست ہے کہ سپریم کورٹ نے اب تحقیقات کرنے کا واضح اشارہ دیا ہے، مگر یہ اشارہ چند ریمارکس کی بنیاد پر دیا گیا ہے۔

عمران خان صاحب اس سے پہلے کشمیر ایشو پر پارلیمینٹ کے مشترکہ اجلاس کا بائیکاٹ اس لیے کر چکے ہیں کہ اس سے وزیر اعظم نواز شریف کی آئینی حیثیت کو تسلیم کرنے کا شائبہ نہ ہو، مگر آج معزز جج صاحبان کے چند الفاظ ان کو اتنا بھا گئے اور انہوں نے لاک ڈاؤن کو ناک ڈاؤن کر کے فقط ایک جلسے تک محدود کردیا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اگر آج خان صاحب کو اعلی عدلیہ پر اتنا ہی بھروسا ہے تو یہ بھروسا انہیں چند دن پہلے کیوں نہ ہوا، جب سپریم کورٹ نے شریف فیملی کو باقائد ہ نوٹس بھجوادیا تھا۔

میرا مسئلہ عمران خان یا نواز شریف بھی نہیں، کہ یہ دونوں ’وڈے لوگ‘ ہیں اور وڈے لوگ اپنے مسائل حل کر ہی لیتے ہیں۔

میرا غم ان کارکنوں کے لیے ہے جو دو دن سے پولیس سے ڈنڈے کھا رہے ہیں اور خاص طور پر وہ لوگ جو خیبر پختونخوا کے وزیر اعلی کے ساتھ شیلنگ کا مقابلہ کرتے رہے۔ ان میں مبینہ طور پر عثمان نامی وہ کارکن بھی شامل ہے کہ جو پارٹی کے اپنے دعووں کے مطابق آج شیلنگ کے باعث جان کی بازی ہار گیا۔

کیا پاکستانی جمہو ر کی یہی اوقات ہے کہ ان کو پورے ملک سے بلوا کر اپنے ملک کی پولیس سے ڈنڈے پڑوا کر، احتجاج ملتوی کردیا جائے۔ کیا ’آوے ای آوے‘ اور جاوے ای جاوے کا نعرہ لگانے والے کسی ٹشو پیپر کے مانند استعمال کرکے پھینکنے کے قابل ہی ہوتے ہیں۔ جن حالات میں کارکن پولیس سے مڈ بھیڑ میں مصروف تھے، ایسے میں پارٹی کے سینئیر لوگ بنی گالا میں محصور رہے۔ خود عمران خان صاحب جو پش اپس لگاتے نہیں تھکتے تھے، اپنے گھر کی محفوظ چار دیواری سے باہر نہ آئے۔ حالاں کہ ان کے اپنے قول کے مطابق انھیں آج سپریم کورٹ میں پیش ہونا تھا۔ کیا کارکنان کی قدروقیمت فقط اتنی ہے کہ انہیں پولیس اور ایف سی کے اہل کاروں کے سامنے کردیا جائے اور خود اعلی سطح کا اجلاس جاری رکھا جائے۔ عاجزانہ رائے فقط اتنی ہے کہ اسلام آباد بند کرنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر لیا جانا چاہیے تھا اور اگر فیصلہ لے بھی لیا گیا تھا، تو 20 اکتوبر کو شریف فیملی کو نوٹس جاری ہونے کے بعد فیصلے پر نظر ثانی ہو جانا چاہیے تھی۔

گزشتہ پانچ روز میں جہاں عوام میں حکومتی اداروں کے خلاف نفرت نے جنم لیا، وہیں پر سیاسی زعما کے چند بیانات نے خود پاکستان تحریک انصاف کو بھی نقصان پہنچایا، اس میں سب سے زیادہ قابل ذکر بلکہ قابل فکر پرویز خٹک کی تقریر کے دوران وہ آوازیں ہیں جو آزادی مانگ رہی تھیں اور پرویز خٹک کے پاس چپ رہنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا۔ عمران خان کو آج بھی مالی لحاظ سے شفاف قرار دیا جاتا ہے، مگر اب پارٹی کو اس سے آگے بڑھنا ہے، اسے ثابت کرنا ہے کہ یہ ملک کی باگ دوڑ سنبھالنے کے قابل ہے اور وقتی جذبات کے زیر اثر فیصلے نہیں کرتی۔ سیاسی کارکنان کو اگر ایک لمحے کو نظر انداز بھی کردیا جائے تو ان لوگوں کے کرب کا مداوا کون کرسکتا ہے کہ جو ان دنوں میں اپنوں کی خوشیوں اور غم میں شامل نہ ہوسکے۔ بات کسی کی سیاسی جیت یا ہار کی قطعاً نہیں مگر یہی فیصلہ اگر کارکن کی ہلاکت سے پہلے، عوام کو آنسو گیس سے لڑنے سے پہلے اور دو صوبوں میں دوریاں بڑھانے سے پہلے کیا جاتا، تو شاید اس فیصلے کو پاکستان تحریک انصاف کے سیاسی تابوت میں آخری کیل سے تشبیہ نہ دی جاتی۔ یوم تشکر آخر منایا کس بات کا جا رہا ہے، کارکن کی ہلاکت کا یا عوام کی لاک ڈاؤن میں عدم دل چسپی کا؟

جمہور کی قدر کرنا سیکھئے، ایک وقت میں تو یہ شعلہ بیان قائد کے ڈائس کے نیچے کھڑے ہوتے ہیں مگر ان میں یہی خاصیت ہے کہ یہ جب چاہیں اسی قائد کو روند ڈالیں۔

نا چیز کی رائے میں 2014ء کے دھرنے میں پاکستان تحریک انصاف کے حصے میں وہ ناکامی نہیں آئی تھی، جو آج عمران خان نے سمیٹ لی۔ عن قریب عدالت کی کارروائی خان صاحب کو مایوس بھی کرے گی، کیوں کہ عدالت نے جذبات سے کوسوں دور رہ کے سماعت کو آگے بڑھانا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments