بے راہرو شوہر، وفا شعار بیوی اور نوادرات کی محبت


دنیا کی مشہور کمپنیز اور افراد کی اولین بنائی گئی یا منفرد اشیاء کا ذخیرہ اس کے پاس تھا۔ پرانی و نئی گاڑیاں۔ ہیرے جواہرات، مصوری و خطاطی کے نادر نمونے، مجسمے، پستول۔ بندوقیں، تلواریں، خنجر، کتب، سگریٹ اور سگار کیسز۔ شرابیں، قلم، گھڑیاں، برتن، پرندے اور جانور۔ بہت بڑا ذاتی چڑیا گھر اپنے آبائی شہر میں بنایا۔ یورپ میں انواع و اقسام کے گھوڑے جمع کیے ہوئے تھے۔ امارات میں شاندار محل بنوایا اور جواہرات سے سجایا تھا۔ شاندار یاٹ خرید کر ثامرہ کو ساتھ لئے کئی دن کھلے سمندر میں گھومتا پھرا۔

شادی کے پانچ سال گزرنے کے باوجود وہ بے اولاد تھے لیکن تبریز کے مطابق خامی ثامرہ میں تھی۔ میں تو اکیس سال کی عمر میں باپ بن گیا تھا۔ کیھتی میری پہلی گرل فرینڈ حاملہ ہو گئی تھی۔ حالاں کہ ہم دونوں نے پہلی بار ہی سیکس کیا تھا، اور پھر تین دن تک ہم سیکس ہی کرتے رہے تھے۔ اس نے قہقہہ لگایا لیکن جب ایک مہینے بعد کیتھی نے کہا کہ میں حاملہ ہوں تو بہت مشکل سے اسقاط کا، انتظام ہوا تھا کیونکہ وہ صرف سترہ سال کی تھی، مہینے بھر کی ٹینشن جھیلی تھی، کیتھی نے بہت شور مچایا تھا کہ شادی کر لو، بہت مشکل سے جان چھڑائی تھی۔ اس کے بعد بھی ایک گرل فرینڈ مستقل ساتھ رہی اور دو بار اسقاط کروایا۔

جب ہماری شادی ہوئی تھی اس سے ایک ہفتہ پہلے ہی ایک گرل فرینڈ کا اسقاط کروایا تھا وہ تھی نہ تم اس کو جانتی تو ہو اس نے ملک کی ایک سپر ماڈل کا نام لیا، سالی پہلے تو نخرے کرتی تھی پھرحاملہ ہو کر بیوی بننا چاہ رہی تھی جب کہ مجھے اچھی طرح اندازہ تھا، کہ بچہ میرا نہیں میں نے بہت احتیاط کی تھی۔ بہت دھمکیاں دیں اس نے لیکن میں نے بھی گھر میں ہی ڈاکٹر بلوا کر معاملہ ختم کروایا اور اس کا منہ بند کیا۔ ناقص العقل ہوتی ہو تم عورتیں، محبوبہ بن کر رہنے کے بجائے بیوی بننا۔ ماں بننا پسند کرتی ہو، کیوں خیام اس نے ایک بار اسی موضوع پر بات کرتے کرتے خیام سے رائے لی۔ خیام بولا۔ یہ عورت کی فطرت ہے کہ وہ ماں بننا چاہتی ہے بیوی بننا چاہتی ہے آپ عورت سے یہ ودیعت کردہ فطرت نہیں چھین سکتے۔ اس کی اس بات پر ثامرہ نے اسے داد دی تھی جب کہ تبریز مسکرا کر چپ ہو گیا تھا۔

ساری شام ٹائیگر کے ساتھ مصروف رہنے کے بعد تبریز رات کا کھانا کھا کر بستر پر دراز ہو گیا، اور سگار سلگا لیا۔ ثامرہ منتظر تھی کہ وہ کچھ کہے گا لیکن خلاف معمول وہ چپ تھا، ثامرہ نے اس کی طرف دیکھا، اس کی گلابی ڈوروں والی آنکھیں گہری سوچ میں ڈوبی لگتی تھیں، ثامرہ نے اسے مخاطب نہ کیا، اور لیمپ بجھا کر آنکھیں موند لیں۔ تھوڑی دیر کے بعد تمباکو کی خوشبو اسے اپنے بے حد قریب محسوس ہوئی، ثامرہ نے کوئی گرم جوشی نہ دکھائی، تبریز نے اسے ہلکا سا جھٹکا دیا، اور سرگوشی کی سو گئی ہو۔ نہیں جاگ رہی ہوں، وہ آہستہ سے بولی، تبریز نے فرمائش کی کوئی کہانی سناؤ، جیسے پہلے سناتی تھیں، ثامرہ نے کچھ دیر سوچا لیکن کوئی کہانی ذہن میں نہ آئی، بلکہ اس کی آنکھیں بند ہو نے لگیں، کئی ماہ کے بعد تبریز کی بانہوں کے حصار نے اسے پرسکون کر دیا تھا۔

ان کے درمیان یہ دوری ثامرہ کی خود پیدا کردہ تھی۔ شادی کے پہلے سال وہ بہت خوش اور مطمئن تھی، اسے تبریز کی قربت بھاتی تھی۔ اپنے باپ کے بعد دوسرا مرد اس کی زندگی میں شامل ہوا تھا۔ باپ کی پدرانہ شفقت کے بعد خیام کا شوہرانہ استحقاق اسے پسند آتا تھا۔ وہ بہت وجیہہ۔ ٹھنڈے مزاج کا اور مہذب تھا۔ اس کا باپ کم گو تھا لیکن تبریز مسلسل گفتگو کا عادی تھا اور ثامرہ کو اس کا بولنا اور فقرے چست کرنا بھاتا تھا، خاص طور پر شرارتی جملے بازی کے وقت اس کی آنکھیں چمکنے لگتی تھیں۔

مشروب پینے کے بعد اس کی آنکھیں خمار آلود گلابی ہو جاتی تھیں۔ صرف اس کی آنکھوں کی خوبصورتی دیکھنے کے لئے وہ اس کا مشروب پینا برداشت کرتی تھی۔ وہ اس کی آنکھوں کو چومتی تھی جب وہ مدہوش ہوتا تھا، یا اس کو شرارت سے دیکھ کر مسکراتا تھا۔ لیکن جلد ہی اسے معلوم ہو گیا کہ یہ آنکھیں صرف اس کی ملکیت نہیں ہیں وہ کسی بھی عورت کو اس طرح دیکھ کر مسکرا سکتا ہے، جو عورت اسے پسند آ جائے اس کے ساتھ سو سکتا ہے، وہ صاحب کردار نہیں ہے۔

تعلقات میں پہلی دڑار اس وقت پڑی جب شادی کی پہلی سالگرہ پر ثامرہ کی ایک سہیلی نے سوال کیا، بے بی کا کیا پلان ہے، تم دونوں ہی اکلوتے ہو۔

ثامرہ نے ہنس کر بات ٹال دی لیکن خواب گاہ کی تنہائی میں تبریز نے اسے کہا، کہ تم ڈاکٹر سے چیک اپ کرواو، ثامرہ کے یہ کہنے پر کہ ہم دونوں ساتھ چلیں گے وہ قہقہہ لگا کر ہنسا، میری کئی گرل فرینڈز رہ چکی ہیں اور تین چار حاملہ بھی ہوئیں ہیں، جن کا اسقاط کروانا پڑا، تم اپنا چیک اپ کرواو، میں پرفیکٹ ہوں میری جان۔

ثامرہ سناٹے میں آ گئی، دوسرے دن ہی اس نے گائناکولوجسٹ سے وقت لیا، مکمل چیک اپ کے بعد گائناکولوجسٹ نے اسے نارمل قرار دیا۔ چند ٹیسٹ بھی کروائے جن کی رپورٹ کے بعد اسے تسلی دی کہ ابھی ایک سال تو ہوا ہے، بے فکر رہیں لیکن ثامرہ نے حقیقت پسندی کے ساتھ اپنی عمر بتا دی۔

جس پر گائناکولوجسٹ نے اسے چند دیسی ٹوٹکے اور وظائف بتا دیے، ان کے ملک کے ڈاکٹرز علاج کے ساتھ وظائف اور ٹوٹکے بتانے میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔ ثامرہ نے ان پر عمل کرنا شروع کر دیا۔ دوسرے سال تبریز نے ملک سے باہر آنا جانا شروع کر دیا۔ پہلے تو ثامرہ ساتھ جاتی رہی لیکن پھر اکتا گئی، اسے پوری دنیا اور سارے لوگ ایک جیسے لگنے لگے۔ تبریز نہ جانے کیسے ایک نئی گرل فرینڈ بنا لیتا تھا۔ ثامرہ کو حیرت ہوتی، اکثر وہ لوگ ساتھ کسی ریسٹورنٹ یا ہوٹل میں بیٹھے ہوتے، اور تبریز کے پاس اردگرد کی میز سے کوئی لڑکی آکر بے تکلف ہو جاتی، لڑکی بھی ایسی ویسی نہیں، اچھی خاصی والی۔ یا پھر وہ کسی ماڈل یا اداکارہ سے فلرٹ کرنا شروع ہو جاتا۔ ثامرہ اپنی حیرت میں رقابت کی جلن بھی بھول جاتی۔

ملک سے باہر تبریز کے چند رشتے دار تھے۔ ثامرہ نے ایک مرتبہ ایک رشتے دار خاتون سے ان کے شوہر اور تبریز کی شکایت کر دی۔ کیونکہ وہ دونوں کسی لڑکی پر شرط لگا بیٹھے تھے اور دو دن سے اس کو ہر جگہ فالو کر رہے تھے کہ دیکھیں وہ کس کے ساتھ راضی ہوتی ہے۔ خاتون نے لاپرواہی سے ہاتھ ہلایا اوربولی، ارے لگانے دو شرطیں، اصلی مردوں کا کام یہی ہے گرل فرینڈ بنانا اور ان کے نخرے اٹھانا یہ ہر ایک کی اوقات تھوڑی ہوتی ہے، صاحب دل و صاحب جیب ہوتے ہیں ایسے مرد۔ ثامرہ حیرت سے گنگ ہو گئی پوچھا، اصلی مرد کے نزدیک کیا شادی کے معاہدے کی کوئی اہمیت نہیں؟ وہ خاتون بولی، بالکل ہے، بی بی شکر کرو وہ وقت گزاری کرتا ہے۔ تمھارے سر پر سوتن لا کر نہیں بٹھا دی۔ وجیہہ و شکیل ہے پیسے والا ہے وہ یہ بھی کر سکتا ہے۔ خاتون نے اطمینان سے کہا۔

کاش وہ یہ کر لیتا، اس نے ایک بار پھر بار بار تبریز سے کہا، تم دوسری شادی کر لو لیکن تبریز کو ہر بار غصہ آ جاتا، تم کتنی بری عورت ہو، اپنے شوہر کو دوسری عورت کے حوالے کرنا چاہتی ہو۔ ثامرہ نے دانت پیستے ہوئے کہا، میرا شوہر میرا کب ہے، وہ ہر دوسری تیسری عورت کا ہو جاتا ہے۔ یہ تمھاری غلط فہمی ہے میں کسی کا نہیں ہوتا ہوں، صرف وقت گزاری ہے۔ تم میری بیوی ہو اور میں تمہارا ہوں، وہ تو استعمال کی اشیاء ہیں، تم تو سجانے اور پیار کرنے کے قابل ہو۔

وہ اسے منا لیتا لیکن ثامرہ بے زار ہو گئی تھی، جب وہ اسے چھوتا، پیار کرتا تو اسے یاد آ نے لگتا کہ اس نے دوسری عورت کو بھی اسی طرح چھوا ہو گا، یہ خیال اس کی طبعیت مکدر کر دیتا، اس کے جذبات برف ہو جاتے۔ تبریز نے یہ کہہ کر اس کا دل مزید خراب کر دیا، دیکھو میں تو صرف ہلکا سا اشارہ دیتا ہوں، تم عورتیں کتنی بری ہو، دوسری عورت کے شوہر کے بلاوے پر آ جاتی ہو، چاہے کہیں کی بھی عورت ہو، اکثر تو تم میرے ساتھ ہوتی ہو، پھر بھی وہ آ جاتی ہیں، شاید تم بھی کسی دن کسی دوسرے مرد کے پاس اسی طرح چلی جاؤ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments