نیشنل ایکشن پلان توجہ کا طلب گار


(محمد عدنان)


\"adnan\" کو ئٹہ ایک با ر پھر دہشت گردی کا نشانہ بنا۔ یہ حملہ اس سال کا سب سے خوفناک حملہ تھا کیونکہ اس میں ہمارے تقریباً 61 سکیورٹی اہلکار شہید اور 165 اہلکار زخمی ہوئے۔ یہ امر اس لیے بھی قابل ذکر ہے کہ اسی پولیس ٹریننگ کالج میں 2006 اور 2008 میں بھی حملے کیے گئے تھے جن میں کئی کیڈٹس جاں بحق ہوئے تھے۔ اگست 2016 میں بھی کوئٹہ بھیانک دہشت گردی کا شکار ہوا۔ جس میں 73 افراد جاں بحق ہوئے جن میں اکثریت وکلاء کی تھی۔ اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک دارالاحرار نے قبول کی۔ ملک میں بالخصوص بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں بھارتی ایجنسی را ملوث ہے۔ بھارت پاکستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے ساتھ ساتھ علیحدگی پسند تحریک کو ہوا دے رہا ہے۔ جس کا مقصد پاک چین اقتصادی راہداری کو نقصان پہنچانا ہے۔ تاکہ پاکستان کو معاشی طور پر کمزور کیا جا سکے۔ گزشتہ کئی سالوں میں بہت سے دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ جن میں سے اکثریت بھارتی تنظیم را اور افغانستان کی تنظیم این۔ ڈی۔ ایس سے رابطے میں تھے۔ اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غیر ملکی انٹیلی جنس ایجنسیوں اور پاکستان کے دشمنوں سے پاکستان کو بہت سے خطرات لا حق ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تمام ثبوتوں کے باوجود حکومت پاکستان کی طرف سے عالمی اداروں اور بین الاقوامی سطح پر بھارت کا گھناؤنا چہرہ دنیا کے سامنے صحیح انداز میں پیش نہیں کیا جا رہا یا پیش کرنے میں ناکا م رہا ہے۔ رواں سال بلوچستان سے بھارتی بحریہ کا سابق افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کیا گیا۔ اور کلبھوشن اس بات کا اعتراف تفتیش کے دوران کرچکا ہے کہ وہ بھارتی ایجنسی را کے لیے جاسوسی کرتا تھا۔ پاکستان کی پالیسی پاکستانی عوام کی سمجھ سے بالاتر ہے۔ ایک جانب بھارت ہے جو بغیر ثبوت بڑی دلیری سے پٹھانکوٹ، اُڑی حملے کا الزام پاکستان پر لگا چکا ہے۔ ایک ہماری حکومت ہے جو تمام ثبوتوں کے با وجود خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہے۔ وزیراعظم کا جنرل اسمبلی میں کشمیری موقف کو بھرپور انداز میں پیش کرنا قابل ستا ئش تھا۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ کلبھوشن یادیو کو بھی عالمی رہنماؤں کے سامنے متعارف کرواتے اور اس کے مقاصد کا پردہ چا ک کیا جاتا۔

ایک اور اہم بات یہ ہے کہ دسمبر 2014 میں آرمی پبلک سکول پر دہشت گردی کے حملے کے بعد تمام سیاسی جماعتوں اور عسکری قیادت کے اتفاق رائے سے 20 نکاتی نیشنل ایکشن پلان تشکیل دیا گیا۔ لیکن اس پر عدم دلچسپی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ NAP کی تشکیل کے 19 ماہ بعد سول ملٹری قیادت کا اجلاس طلب کیا گیا۔ قومی نیشنل ایکشن پلان میں دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متعدد اقدامات کا اعلان کیا گیا تھا۔ جس میں نیکٹا کو فعال کرنا۔ دہشت گردتنظیموں کی فنڈنگ روکنا۔ کالعدم تنظیموں کو نئے ناموں سے کام کی اجازت نہ دینا۔ ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانا۔ مدارس کی رجسٹریشن جیسے متعدد اقدامات موجود تھے۔ ان پر عمل درآمد کرانے کے لیے مختلف کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ ان کمیٹیوں کی عدم دلچسپی کی وجہ سے دہشت گردانہ کارروائیوں کی کمی میں کوئی خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ وفاقی حکومت، صوبائی حکومتوں اور اس کے ساتھ ساتھ سرکاری اداروں کو مل کر دہشت گردی کے خلاف کا م کرنا اور نیشنل ایکشن پلا ن پر مکمل طور پر عمل درآمد کروانا ہے۔ تا کہ دہشت گردوں کو جڑ سے اکھاڑ پھینکا جائے۔ ورنہ کئی سانحہ کوئٹہ جیسے واقعات ہمارا مقدر بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments