ہمارا اپنا عشق شکن بے ہدایت مولوی کزن


پہلی بار اس کو تب دیکھا جب چھٹیوں میں پشاور سے گاؤں جانا ہوا تھا۔ وہ میرے کزن کے ساتھ بیٹھا نقل تیار کر رہا تھا۔ تھا تو ہمارا کزن ہی لیکن فیصل آباد رہتا تھا۔ فیصل آباد کے سکول میں وہ بار بار فیل ہوتا رہا تو اس کے ابا جی نے اسے پنڈ ہی بھیج دیا۔ پنڈ میں ابھی تعلیم سائنس کے اصول پر ہی دی جاتی تھی۔ اصول سادہ سا ہی تھا کہ ہڈیاں گھر والوں کی اور بوٹیاں استاد محترم کی۔ استاد کا مولابخش بندے کی بوٹیاں تو اڑاتا ہی تھا مگر ہڈیاں بھی اکثر استاد ہی توڑا کرتا تھا۔

مولوی پنڈ آ گیا اپنے دادا کے پاس البتہ گروپ سٹڈی کرنے وہ ہمارے گھر آیا کرتا تھا۔ وہ میرے تایازاد کا ہم جماعت بھی تھا۔  چار پانچ لڑکے پڑھنے کے بہانے ہمارے گھر اکٹھے ہوتے تھے۔ باقی پھر بھی پڑھتے تھے لیکن مولوی صرف نقل ہی تیار کرتا۔ سب اس کو کہتے یار تم کو اتنی مار پڑتی ہے پھر بھی تم پڑھتے نہیں ہو۔

پنڈ پہنچ کر ہمارا کام امرود کے باغ میں پہنچنا ہوتا تھا۔ امرود کے درخت کی شاخیں زمین کے قریب ہوتی ہیں۔ شاخ پر بیٹھ کے امرود کھاتے تو پیر زمین سے ہی لگ رہے ہوتے۔ میرا امرودوں کے باغ کی طرف جانا ہوا تو مولوی سے پھر تصیلی ملاقات ہوئی۔ وہیں ان کی بھی آبائی زمین تھی جو ہمارے باغ کے ساتھ لگتی تھی۔

مولوی کو دیکھا تو وہ دو لیلوں کی دم پکڑ کر ان کو دوڑا رہا تھا۔ اکیلا مولوی دو لیلوں کو ڈرائیو کر رہا تھا۔ لیلوں کی دم کو ہی بطور سٹیرنگ بریک اور ریس استعمال کر رہا تھا۔ پتہ نہیں بکری کے ان بچوں سے وہ کس جنم کا بدلا لے رہا تھا۔ یہ ایک اچھا نظارہ تھا لیکن اس کے دادا نے دیکھ لیا اسے، دادا نے غصے میں آواز دی تو وہ افراتفری میں دونوں لیلوں کے ساتھ ایک کھالے میں جا گرا۔

مولوی کے دادا پاکستان بننے سے بھی کہیں پہلے پشاور رہ کر گئے تھے۔ ان سے ملنا ایک امتحان ہوتا تھا وہ پرانے پشاور کی باتیں سنایا کرتے جو اچھی لگتی تھیں، البتہ جب وہ ہماری پشتو کا امتحان لیتے تو مشکل پیش آتی۔ وہ جو لفظ بولتے تھے وہ اکثر ہم نے سنے نہیں ہوتے تھے اور ہماری پشتو انہیں غلط لگتی تھی۔

مولوی کے دادا سے ملاقات ہوئی تو وہ بڑے خوش ہوئے۔ ہمیں بٹھا کر انہوں پشاور کہانی شروع کر دی۔ مولوی کو بھی موقعہ مناسب لگا اور اس نے پہنچ کر اپنے دادا کی ٹانگیں دبانا شروع کر دیں۔ پشاور کہانیاں جاری تھیں کہ دادا کو اس کا خیال آ گیا، دادا نے مولوی کو ہدایت دینی شروع کر دی کہ یار توں بندہ بن جا، پٹھے کام نہ کیا کر، اس نے اچھا دادا جی کہہ کر تابعداری ظاہر کر دی۔

اگلے ہی دن سکول میں اپنے ڈیسک فیلو کو کو اپنا بہت ہی ذاتی اسلحہ دکھاتے ہوئے پکڑا گیا۔ مولوی نے اس بات پر پھر سارا دن سکول میں مار کھائی۔ ابھی پنڈ میں اس کے اسی کارنامے پر بحث جاری تھی کہ اس نے نیا کٹا کھول دیا۔ لوگ توبہ توبہ کرنے لگے کہ مولوی کہیں سے بہت ہی گہری  نیلی فوٹو اٹھا لایا ہے۔ باقی کسی بات کا علم نہ ہوا۔ ہم سب پر پابندی لگ گئی کہ اس سے میل ملاقات نہ رکھی جائے۔ کٹ اس کو حسب معمول پھر لگنی تھی، ٹکا کر لگی۔

میں امرود کے باغ جاتا رہا لیکن مولوی دکھائی نہ دیا۔ تین چار دن بعد ہی وہ باغ میں دکھائی دیا۔ اس سے ملتے ہی پوچھا کہ فوٹو کہاں سے لائے تھے۔ اس نے کہا یار عام سی فوٹو ہیں، انہوں نے بہت مارا۔ مار تو چلو ٹھیک ہے پھر رات سونے بھی نہیں دیا۔ سونے کیوں نہیں دیا یار یہ تو بڑی زیادتی ہے، تو اس نے بتایا کہ روکا کسی نے نہیں بس پنڈ کے سارے وڈے بزرگ وہی فوٹو دیکھنے ساری رات میرے پاس آتے رہے کہ اگر کوئی بچی کھچی فوٹو میرے پاس رہ گئی ہے تو ان کو دکھا کر ان کےجذبے جوان کروں۔

اپنے بزرگوں کے نیک ہونے پر ہمارا ایمان ڈانواڈول ہو گیا یہ سن کر۔ اس سے پوچھا کے کون کون آیا تھا فوٹو دیکھنے تو اس نے بتایا کہ دونوں مسجدوں کے مولوی آئے تھے۔ نمبردار بھی آیا تھا اور بالکل کھڑکے ہوئے بابوں کے نام بھی لئے کہ وہ آ آ کر اٹھاتے رہے کہ پتر تیرے کول فوٹو نے سانوں وی دکھا دے (بیٹے تیرے پاس فوٹو ہیں تو ہمیں بھی دکھا)، بہت حیرت ہوئی کہ اچھا بڑے بزرگ ایسا بھی کرتے ہیں۔

وقت گذرا اس نے کسی نہ کسی طرح میٹرک کر لیا اور واپس فیصل آباد اپنے گھر چلا گیا۔ پھر جو خبریں ملیں ان سے پتہ چلا کہ مولوی ہو گیا ہے اور حفظ کر رہا ہے۔ مسجد میں ہی سوتا ہے۔ اس کے بھائی کی شادی تھی تو ان کے ہاں جانے کا اتفاق ہوا۔ اس نے کہا یار گھر میں تنگ ہو گا تو میرے ساتھ مسجد ہی میں چل کر سو۔ اس کے پاس ادھر مسجد چلا گیا پھر اس نے مولویوں کے قصے سنائے رات مجھ کو سیر کروائی گلیوں میں لیکر پھرتا رہا آٹھ بازاروں کی۔

شادی میں گاؤں سے کافی لوگ آئے تھے جو ملے وہ اس سے پوچھے کہ تم نے داڑھی رکھ لی کاکا مولوی ہو گئے ہو۔ ایک بزرگ نے اپنی گھر والی کے سامنے پوچھا کہ کیوں رکھی داڑھی پتر؟ اس نے بہت تفصیل سے بتایا کہ رات کو اک خوفناک خواب دیکھتا ہوں ۔ سویرے اٹھ کر نہانا پڑتا ہے ۔ شرم آتی ہے پنڈ کی بزرگ مائیوں کو خواب میں دیکھ کر ۔ منت مان کر مولوی ہو گیا داڑھی بھی رکھ لی ۔ بزرگ کا سن کر رنگ اڑ گیا۔ مائی نے بہت دلچسپی سے ساری کہانی سنی ۔ کہانی ختم ہوئی تو اٹھ کر مولوی کے سر پر ہاتھ پھیر کر پیار کیا ، اسے کہا کہ پتر  کہ اب جب پنڈ آئے تو ختم کراؤنگی ۔ ختم پڑھنے کا سن کر ہم دونوں کو ایسا لگا جیسے مائی بزرگوں کے اندر کچھ ختم ہونے کا اعلان کر رہی ہو۔

مولوی نے اپنا مولویانا سفر جاری رکھا، جھنگ سے اٹھی ایک مذہبی تنظیم کا رکن بھی بن گیا۔ بانی امیر کی تقاریر سنتے سناتے ایک بار فساد میں مرتے مرتے بھی بڑی مشکل سے بچا۔ اس کے باوجود اسے فرقہ وارانہ بحث کا مزہ آتا تھا۔ جب دل کرتا فرقہ وارانہ بحث چھیڑ کر ماحول خراب کر دیتا اور سننے والے لڑنے مرنے کو تیار ہو جاتے جبکہ وہ درمیان سے ہنستے ہوئے اٹھ جاتا۔

ایک بار پھر اس کے ایک اور بھائی کی شادی تھی اور دوبارہ اس کے گھر جانے کا اتفاق ہوا۔ وہ تب بھی مسجد میں رہتا تھا اس کی گپ سننے کا مزہ آتا تھا۔ اسے خود کہا کہ میں نے تمھارے ساتھ مسجد میں ہی رہنا ہے تو وہ بڑا خوش ہوا۔ مجھے تو اس نے آنکھ ہی ماری لیکن سب سے اونچی آواز میں بولا کہ یہ بہت نیک ہو چکا ہے اس کی قدر کیا کرو۔

مسجد جا کر سونے سے پہلے ہم بازاروں میں پھرتے رہے ۔ کافی دیر سے سوئے ذرا ہی دیر گزری ہو گی کہ بھگدڑ مچ گئی۔ کچھ سمجھ نہ آئے کیا ہو رہا ہے اندھیرا بھی تھا۔ ڈھونڈ کر بتی جلائی دیکھا تو ہمارا مولوی کٹ کھا رہا تھا۔ مارنے والا بھی ہمارا ہی ایک بڑا کزن تھا، صورتحال دیکھ کر دنگے میں چھلانگ لگائی بڑی مشکل سے مولوی کو چھڑوایا۔ چھڑوانے کے بعد اندازہ ہوا کہ وہاں اور کزن دوست وغیرہ بھی بیٹھے ہیں لیکن کسی نے مولوی کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔

مارنے والا بھی ہمارا عزیز ہی تھا۔  لیکن ہم سب سے کافی سینیئر تھا۔ اس کو بھی گھر میں زیادہ مہمان دیکھ کر شاید مسجد بھیج دیا گیا تھا۔ اس نے مولوی کی شکل دیکھی اور اس پر چھلانگ مار دی تھی۔ ہم سب لوگ حیران تھے کہ ماجرا کیا ہے مارنے والا سخت خفا ہے گالیاں دے رہا  اور مار کھانے والا ہنس رہا ہے۔ پوچھا کہ چکر کیا ہے یہ سن کر مارنے والے نے دوبارہ مولوی پر حملہ کرنے کی کوشش کی۔

میں مولوی کو لے کر دوسرے کمرے میں چلا گیا۔ وہاں پہنچ کر مولوی سے پوچھا کیا ہوا اس نے کہا کچھ نہیں یار کئی سال پہلے میں پنڈ گیا تھا۔ تو ان بھائی صاب نے مجھ کو فلانی کے نام پیغام دیا کہ جمعرات کو آؤں گا اور امرود کے باغ میں رات ملیں گے۔ میں بہت اچھی نیت کے ساتھ پنڈ پہنچا تھا۔ وہاں پہنچ کر بہت ایمانداری کے ساتھ پیغام دینے فلانی کے پاس چلا گیا تھا۔

فلانی بہت انگریز قسم کی نہ صرف گوری ہے بلکہ اس کی آنکھیں نیلی ہیں۔ اس فلانی کو میں نے بھی دیکھ رکھا تھا کہ ہمارے گھر قاعدہ پڑھنے آیا کرتی تھی، یاد آئی توجذباتی ہو کر پوچھا کہ پھر کیا ہوا؟

 مولوی صاب نے پیغام دینے کے لئے اس کو سرسوں کے کھیت کی جانب بلایا۔ یہ کھیت فلانی کے گھر کے ساتھ ہی تھا۔ فلانی کو پیغام بھیجنے والے نے پہلے ہی بتا رکھا تھا کہ مولوی صاحب ڈاکیہ ڈیوٹی بھی دیا کریں گے۔ فلانی بھی پیغام سننے دوڑی آئی تھی۔ اس کے پوچھنے پر کہ کیا پیغام دیا ہے اس کے نام ہمارے نامراد عاشق بھائی نے۔ مولوی نے کہا کہ عاشق نے تلقین کی تھی کہ پیغام دینے سے پہلے حامل رقعہ یعنی مولوی کو گھٹ کے ایک جپھی ڈالنی ہے۔

فلانی نے کہا اوئے کنجرا تینوں شرم نہیں آندی تو مولوی نے فرمایا کہ مینوں وی لگدا کہ بندہ میں بگیرت ہی ہوں ۔ پیغام لینا ہے تو اسی طریقہ کار کے تحت ملے گا ورنہ جا اپنا کام کر حسینہ۔ فلانی سوچ وچار ہی کر رہی تھی ، تقریبا تیار تھی کہ پیغام لے ہی لے ، ہمارا بے شرم بھی اپنی جپھی تیز کرتا تیار کھڑا تھا کہ وہاں سے بقول مولوی ہمارے تایا اور اس کے دادا اکٹھے گذرے۔ جنہیں دیکھ کر مولوی صاب وہاں سے تتر ہوئے یعنی بھاگ گئے۔ پیغام درمیاں میں ہی رہ گیا، جس کا مولوی کو اب بھی افسوس تھا ۔

مولوی کے جپھی والے پروگرام بھی دھرے رہ گئے۔ کہانی میں دکھ بھرا ٹویسٹ تب آیا جب پیغام دینے والے بھائی جان ملاقات کرنے جائے واردات پر پہنچے۔ ان کا خیال تھا کہ مولوی نے پیغام پہنچا دیا ہو گا۔ وہاں فلانی کو موجود نہ پایا تو شدت جذبات سے ایسے ملغوب ہوئے کہ دیوانہ وار فلانی کے ڈیرے پر ہی جا پہنچے۔

وہاں فلانی کی چارپائی ڈھونڈتے اس کی امی یا ابا کی چارپائی پر جا گرے۔ اس کے بعد کہانی مختصر ہمارے پنڈ والے بہت دل توڑ عشق شکن واقعہ ہوئے ہیں۔ بنگال مرحوم سے ایک حسینہ کو لیکر پنڈ پہنچنے والے عاشق صادق کا دل بھی ایسے ٹوٹے کیا کہ اس بنگالی حسینہ کی شادی اس کے چھوٹے بھائی سے کر دی تھی۔ عاشق ساری عمر کنوارا رہ کر پنڈ والوں کو بددعائیں دیا کرتا تھا۔

مولوی نے جو ان بھائی صاحب سے کی تھی۔ اس کا تقاضہ تھا کہ وہ جب جب مولوی کو دیکھیں اس پر چھلانگ مارا کریں۔ بس مولوی کی اسی پیغام رسانی کے صدقے وہ مولوی ہونے کے بعد بھی مسجد کے اندر ہم سب کے سامنے پٹا۔

مولوی بھی کتنے ظالم کتنے عشق شکن ہوتے ہیں ہمارے پنڈ والوں کی طرح۔ عاشق لوگ بھی کسی ایک مولوی کے ہاتھوں انجام کو پہنچ کر پھر کل عالم کے مولویوں کے بارے میں طرح طرح کی شاعری کیا کرتے ہیں، قسمے ٹھیک ہی تو کرتے ہیں ۔

Nov 3, 2016 

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments