سونی کلائیاں اور شوہر کی بیماری کا بوجھ


”باہر کیا ہوا ہے سب خیریت ہے یہ آوازیں کہاں سے آ رہی ہیں“
”کچھ نہیں تم جا کر اپنے پیپر کی تیاری کرو ان لوگوں کی عادت ہے نہ دن دیکھتے ہیں نہ رات جب دل کرتا ہے لڑنا شروع کر دیتے ہیں“۔

میں اماں کا اشارہ سمجھ گئی وہ میراں خالہ کے گھر کی بات کر رہی ہیں۔ کافی دیر تک جھگڑے کی آوازیں آتی رہیں پھر تھک ہار کر سب خاموش ہو گئے۔

نازی باجی کو آئے کافی دن ہو گئے تھے اب وہ ہماری طرف بھی کوئی کام کرنے نہ آتیں اور نہ ہی شام ہوتے روٹیاں پکاتی نظر آتیں۔ ان کی جگہ اب چھوٹی بہن سارا کام کرتی۔ ماں کی وہی پرانی گھومنے پھرنے کی عادت جوں کی توں برقرار تھی۔ گھر سے بے فکر اور باہر کی فکر میں ہلکان رہنے والی۔ ہر گھر ہر رشتے دار کی خبر سب سے پہلے خالہ کے پاس ہوتی۔ جو کسی بات سے لاعلم ہوتا اس کے گھر جا کر یا پھر رستہ روک کر معلومات فراہم کرتیں۔

نازی باجی کو دیکھ کر یوں لگتا جیسے وہ بہت نخرے والے ہو گئی ہیں۔ جو کسی سے بات کرنا پسند نہیں کرتی اور نہ کسی کام کو ہاتھ لگانا پسند کرتی ہیں۔ سارا دن چارپائی پر لیٹی آسمان کو گھورتی رہتیں جیسے بھرے بازار میں گم ہوئی چیز کو ڈھونڈ رہی ہوں جو ملنے کو دے نہیں رہی۔ جس طرح مسکراہٹ ان سے روٹھ گئی تھی یوں ہی وہ ہم سے روٹھی لگتیں۔ ہمارا بہت دل کرتا ان سے باتیں کرنے کا، حال احوال پوچھنے کا لیکن وہ ہماری طرف کیا کسی کی طرف بھی نہ دیکھتیں۔ ان کی سونی کلائیاں دیکھ کر ہمیں نجانے کیوں دکھ ہوتا وہ ہمیشہ بھری رنگ برنگی چوڑیوں سے سجی بانہیں اپنی ویرانی کی داستان سناتیں۔ لیکن ان کی ماں بیٹی کو ناشکری کا طعنہ دیتے نہ تھکتی اور ناراضی میں اس سے بات کرنا ترک کر دی۔

نازی باجی بھی صبر کے گھونٹ پیتی یہیں ڈیرا لگائے بیٹھی تھیں۔ اس امید کے سہارے کہ اپنوں میں سے کوئی ایک اپنا بن کر ساتھ کھڑا ہو گا۔ وہ آس بھری نگاہوں سے آتے جاتے ماں باپ اور چھوٹے بہن بھائیوں کو دیکھتی لیکن ماں باپ مجبور تھے اور ساتھ بہت غریب بھی۔ بہن بھائی چھوٹے تھے اپنا بوجھ اٹھانے کے قابل نہیں تھے بہن کا ساتھ کیا دیتے۔

نازی باجی کو یقین تھا کہ باپ ان کا ساتھ دے گا لیکن وہ غلط سمجھیں ان کا خیال تھا کہ خالہ کی طرف رشتے سے باپ خوش نہیں تھا وہ اب میرے فیصلے میں ضرور ساتھ دے گا لیکن وہ یہ بات بھول گئی تھیں کہ وقت اور حالات پہلے جیسے نہیں رہے اب وہ بیاہی بیٹی ہیں۔ باپ اب بیوی کے کسی فیصلے سے انکار نہیں کرے گا بلکہ ساتھ دے گا۔ پہلے بھی وہ بھائی اور بھتیجے کی محبت میں بیوی سے لڑ جھگڑ کر اپنی بات منوانا چاہتا تھا۔ بیٹی کی محبت اور خواہش کے لیے ہرگز نہیں۔

کافی دن یوں ہی گزر گئے نازی باجی کو آئے دو ماہ ہونے کو تھے لیکن کوئی ان کی بات ماننے کو تیار نہیں تھا۔ سارا دن وہ آنسو پوچھنتی ادھر ادھر چلتی دکھائی دیتیں۔ پہلے سے زیادہ دبلی بھی ہو گئی تھیں۔ آنکھوں کے گرد حلقے بھی گہرے ہونے لگے۔ یوں لگتا وہ زندہ تو ہیں لیکن کب کی مر چکی ہیں۔

دو دن سے بارش ہو رہی تھی آج موسم بہت خوشگوار تھا بارش کے بعد ہر چیز نکھر گئی تھی۔ رنگ برنگے پھولوں کی خوشبو ہر سو پھیلی تھی۔ ہم امرود کے درختوں سے پکے امرود ڈھونڈ رہے تھے۔ خالہ میراں وہیں گھاس پر دھاگہ لیے بیٹھی گلاب پرونے میں مصروف تھیں۔ چند منٹ میں وہ ایک خوب صورت سا گجرا بنا کر بیٹی کے پاس بیٹھ کر اس کی کلائی میں گجرا پہناتے کہنے لگیں۔

”چل اٹھ میرا بچہ شاباش تیری خالہ رستے میں ہے تجھے لینے آ رہی ہے اب جانے سے انکار نہ کرنا“۔ بیٹی کو پیار سے پچکارتے ان کے لہجے میں منت سماجت بھی تھی۔

”اماں میں اس گھر میں کبھی نہیں جاؤں گی۔ سب کچھ جانتے ہوئے بھی میرے ساتھ یہ زیادتی نہ کر“۔ نازی باجی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔

خالہ بیٹی کو روتے دیکھ چپ ہو گئیں پھر ہاتھ جوڑ کر بیٹی کو واسطے دینے لگیں۔
”تو کیسی ماں ہے جو بیٹی کا درد نہیں سمجھتی، میں لوگوں کے طعنے سن سن کر تھک گئی ہوں، جب میں تندرست ہوں تو پھر کسی اور کی بیماری کا بوجھ میں کیوں اٹھاؤں“۔ نازی باجی ماں کے ہاتھ پکڑتے آس بھری نظروں سے دیکھنے لگی۔

”نہ میرا بچہ اپنے مرد کے عیب یوں نہیں بتاتے۔ نیک بیویاں اپنے مردوں کے عیب پر پردہ ڈالتی ہیں رب کی رضا اسی میں ہے، ضد نہیں کرتے، صبر کر شاباش“۔ میراں خالہ اٹھ کر بیٹی کو اپنے گھر بھیجنے کی تیاری کرنے لگیں۔ نازی باجی کے آنسو بھی رک گئے اور وہ اپنی سونی کلائیوں سمیت ان عورتوں کے نقش قدم پر چلنے کی ہمت پیدا کرنے لگی جو سماج کے ڈر اور اپنوں کے مفاد کی خاطر اپنی زندگی کے حسین پل قربان کر دیتی ہیں۔ جس کا ثواب ان کو اتنا سا ملتا ہے کہ وہ صابرہ شاکرہ کے نام سے جانی پہچانی جاتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments