آدمی کوئی ہمارا دم تحریر بھی تھا


\"zulfiqar-haider\"شکسپئیر کی تمثیل میژر فار میژر میں ویانا کا ڈیوک کچھ عرصے کے لئے شہر کا انتظام ایک سخت گیر جج، اینجلو، کے حوالے کر کے شہر سے چلا جاتا ہے۔ اینجلو شہر کے سب قحبہ خانے بند کرنے کا حکم دے دیتا ہے اور کلاڈیو نامی ایک غیر شادی نوجوان کو ایک خاتون سے جنسی اختلاط کے جرم میں سزائے موت کا حکم بھی جاری کر دیتا ہے۔ کلاڈیو کی بہن، ازابیلا، جو راہبہ بننے کی تربیت پا رہی ہے، جب اینجلو سے اپنے بھائی کے لئے رحم کی درخواست کرتی ہے تو اینجلو اس کے عوض ازابیلا سے ہم بستری کا مطالبہ کرتا ہے۔ ڈیوک شہر سے گیا نہیں ہوتا بلکہ فقیر کا بھیس بھرے شہر میں \’تماشائے اہل کرم\’ دیکھ رہا ہے اور اینجلو کی منافقت کے بارے جان لیتا ہے۔ تمثیل کے اختتام پر جب ڈیوک خود کو ظاہر کرتا ہے تو وہ اینجلو کو اسی کے طے کردہ اصولوں کے مطابق سزا سناتا ہے مگر ازابیلا اس کے لئے معافی کی درخواست کرتی ہے۔ اس تمثیل کا عنوان اور بنیادی موضوع اس بات کا اشارہ دیتے ہیں کہ جن اصولوں پر آپ دوسروں کا کردار پرکھیں گے، انہی اصولوں پر آپ کا کردار بھی پرکھا جائے گا۔

وطن عزیز میں مگر چلن ذرا نرالا ہے۔ یہاں جرم وہ ہے جو میرے دشمن یا حریف اور اس کے دوستوں نے کیا اور جو میں اور میرے ہمنوا کرتے ہیں وہ جرم ہو ہی نہیں سکتا۔ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت اور حمایتی مینارہ اخلاق کی انہی بلندیوں سے معاشرے، موجودہ نظام اور سیاستدانوں کو جانچتے ہیں۔ بنی گالہ کی گول میز کے نائٹس خود کو آرتھرین داستانوں کے کردار سمجھ کر آلودہ ملکی سیاست کی تطہیر کا بیڑہ اٹھائے ہوئے ہیں۔ اور بد عنوانی سے پاک نیا پاکستان، مبرا من الخطا قیادت اور لوٹی ہوئی دولت واپس لانے والے بیانیے کے خمار میں ایک بد مست ہاتھی کی مانند اسی نظام کو روندنے پر کمربستہ ہیں جس کی درستگی کے لئے ہاہاکار ہر تھوڑے عرصے بعد مچ جاتی ہے۔

اور جب ان نائٹس کی معاشی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی جائے تو یکایک پینترا بدل لیا جاتا ہے۔ \’اب فرشتے تو نہیں لائے جا سکتے۔\’ یقیناً مگر آپ کے لہجے کی رعونت آپ کو فرشتے سے بھی ارفع مقام پر فائز کئے ہوئے ہے۔ آپ پارلیمان، عدلیہ اور اٹھارہ کروڑ عوام سے افضل۔ ان سب کی تحقیر اور تذلیل آپ کا استحقاق۔ یہ تو وہی نقطہ نظر ہے جو غیر سیاسی اور غیر ریاستی عناصر کا ہے۔ آپ کہاں کھڑے ہیں؟ جب اٹھارہ کروڑ لوگ، ان کے منتخب نمائندے، عدلیہ، پارلیمان اور جمہوری ادارے طعن و تشنیع اور ٹھٹھے بازی کے لائق تو پھر آپ کو کیسے \’راہنما کرے کوئی۔\’ جب ہم میں سے کوئی بھی فرشتہ نہیں تو حد بشریت میں رہنے میں تامل کیوں اور منکر نکیر بننے پر اصرار کیوں؟ یہ ماننے میں کیا مضائقہ کہ انسانی معاشروں کا نظم ونسق انسانیت کے صدیوں کے حاصل کردہ تجربات کی روشنی میں ہی ہوتا ہے، سستی جذباتیت سے نہیں؟ کیا آپ اور آپ کے ساتھیوں کی بدعنوانیوں کا جواب مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے سیاستدانوں کے گناہوں کا شمار ہے؟ سر تسلیم خم۔ لیکن صاحب اگر آپ کا دفاع یہی موازنہ ہے تو کچھ انکسار قطعاً مضر صحت نہ ہوگا۔ کل جب آپ کسی ایسے منصب پر فائز ہوں گے جو سیاسی نظام کا مرہون منت ہوگا توآپ کے کردار کو بھی اسی فیتے سے ماپا جائے گا جس سے آپ باقی سب کے کردار کو ناپ کر بد دیانتی، لوٹ اور ڈاکہ زنی کی اسناد عنایت فرماتے ہیں۔ اور اگر تمام تردد اس نظام کو دشنام دینے اور ناکام ثابت کرنے کے لئے ہے تو اس وقت دائیں بائیں اگر نظر ڈالیں گے تو شاید کوئی نوحہ خواں بھی نہ بچا ہو۔

تاریخ نے یہ سکھایا ہے کہ پارلیمان ہی عوام کی امنگوں کی ترجمان ہے اور یہیں سے تمام مسائل کا حل ڈھونڈا جانا چاہئے۔ 2 نومبر کو جو ہوا اس میں سیاستدان اور سیاسی نظام ہی کے خلاف دلائل کا مواد فراہم ہوا۔ صاحب، \’نہ ستیزہ گاہ جہاں نئی، نہ حریف پنجہ فگن نئے۔\’ جب جب پارلیمان کو نیچا دکھانا مقصود ہوا، سیاسی نظام پر کیچڑ اچھالنے کی ضرورت پیش آئی، یہی راگ الاپے گئے۔ مگر یہ سمجھنے اور سمجھانے کے لئے جس مقام پر ہونا لازم ٹھہرا، وہاں ہم جیسے عاصیوں حتی کہ گول میز کے نایٹس کی اڑان بھی کجا، فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments