چلو ایک ملی تنظیم کھولیں


\"malike-ashter\"

اردو اخبارات کے دفاتر میں کام کرنے والے افراد اس بات سے اچھی طرح واقف ہوں گے کہ تقریباً روزانہ ہی ان کے ای میل ان باکس اور فیکس میں موصول ہونے والی پریس ریلیزوں میں ایک بڑی تعداد ’ملی تنظیموں‘ کی طرف سے بھیجی ہوئی ہوتی ہے۔ ان پریس ریلیزوں کا مضمون عموماً تقریباً ایک جیسا ہی ہوتا ہے، یا تو ان میں اس ملی تنظیم کے‘ سرپرست‘ کی طرف سے کسی‘ یہودی سازش‘ اور‘ مغربی شورش‘ کی ’سخت الفاظ میں مذمت‘ ہوتی ہے یا پھر حکومت وقت سے کوئی ایسا ’مطالبہ‘ ہوتا ہے جس کے بارے میں وہ خود بھی جانتے ہیں کہ زمین آسمان ایک ہو جائیں مگر یہ مطالبہ پورا ہونا ممکن نہیں۔ ان پریس ریلیزوں کو کچھ اس ڈھب سے لکھا جاتا ہے کہ اگر وہ چھپ جائیں تو قاری کو اس ملی تنظیم کے سرپرست اپنے ’سب سے بڑے خیر خواہ اور مخلص‘ معلوم ہوں۔ پریس ریلیزوں میں اکثر ذاتی تشہیر کی کوشش اس حد تک ہوتی ہے کہ اوسط سمجھ رکھنے والا بھی سمجھ جائے کہ حقیقت حال کیا ہے۔

ان سے ذرا آگے جا کر کچھ ملی تنظیمیں ’اصلاح معاشرہ‘ کا جلسہ یا ’عظیم الشان کانفرنس‘ بھی کرا دیتی ہیں۔ ان پروگراموں میں ذاتی تشہیر اسی انہماک سے ہوتی ہے جیسی پریس ریلیزوں میں کی جاتی ہے۔ ان عظیم الشان پروگراموں میں مزے دار کیفیت اس وقت پیدا ہو جاتی ہے جب کوئی سیاسی لیڈر، حکومت کا دوسرے درجے کا وزیر یا ممبر پارلیمنٹ آ جاتا ہے، اس وقت پروگرام کی بانی ملی تنظیم کے ذمہ داروں کی خوشی قابل دیدنی ہوتی ہے۔ دراصل اس طرح ایوان اقتدار میں ’تھوڑی بہت پہنچ ’بنانے کی کوشش کامیاب ہوتی نظر آتی ہے اور اس وقت ملی تنظیم یہ بھی بھول جاتی ہے کہ دراصل یہ‘ عظیم الشان‘ پروگرام جس مقصد سے کیا گیا تھا وہ کب کا فوت ہو چکا ہے اور اب پورا پروگرام اس ’بااثر مہمان‘ کی ’تواضع اور خوشنودی ’کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔

ایسا بہت کم دیکھا گیا ہے کہ کسی ملی تنظیم نے علاقائی مسائل پر کوئی مذاکرہ منعقد کیا ہو۔ شہر میں پچیس دن سے بجلی نہ آئے، ہفتے بھر سے پانی کی سپلائی بند ہو، محلے میں میونسپلٹی کی نااہلی کے سبب زبردست گندگی ہو، مقامی کارپوریشن اس کول کی استانی بچوں کو پڑھانے کی بجائے سوئیٹر بننے میں زیادہ دلچسپی لیتی ہو، مقامی اسپتال میں دوائیاں ختم ہو گئی ہوں وغیرہ وغیرہ لیکن ملی تنظیمیں ان ’چھوٹے موٹے مسائل‘ پر وقت ضائع کرنے کی بجائے مشرق وسطیٰ کے حالات، ’امریکہ کی چالبازیوں‘ اور‘ اسرائیل کی مکاریوں‘ کو ’طشت از بام‘ کرنے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہیں۔

یہاں پر ایک بات کی وضاحت ضروری ہے اور وہ یہ کہ ایسا ہر گز نہیں ہے کہ سب کی سب ملی تنظیمیں خلوص کے جذبے سے عاری ہوں، یقیناً ایسی کئی تنظیمیں ہیں جو انتہائی نیک نیتی کے ساتھ کام کر رہی ہیں لیکن افسوس ان کی تعداد آٹے میں نمک سے بھی کم ہے۔

ایک اہم بات یہ بھی ہے کہ چونکہ ان ملی تنظیموں کو باقائدہ کہیں رجسٹرڈ نہیں کیا جاتا اس لئے ان کے آمد و خرچ کا بھی کوئی حساب کتاب نہیں ہوتا۔ عظیم الشان کانفرنس یا جلسہ منعقد کرنے کے لئے کس نے اور کیوں پیسے دیئے یہ نہ تو پوچھا جاتا ہے اور نہ بتایا جاتا ہے۔ چونکہ کوئی گوشوارہ نہیں ہوتا اس لئے آمد و خرچ میں کتنا فرق ہوا یا پھر ملی تنظیم کے سر پرست نے اس چندے میں سے کتنا حصہ حق المحنت کے طور پر رکھ لیا اس کا بھی پتہ نہیں چل پاتا۔

ملی تنظیموں کا وجود فی نفسہ غلط نہیں ہے ہاں جب یہ تنظیمیں محض ذاتی مفادات کے لئے استعمال ہونے لگتی ہیں تو انہیں ملی تنظیم کہتے ہوئے بہت تکلیف ہوتی ہے۔

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مالک اشتر ، دہلی، ہندوستان

مالک اشتر،آبائی تعلق نوگانواں سادات اترپردیش، جامعہ ملیہ اسلامیہ سے ترسیل عامہ اور صحافت میں ماسٹرس، اخبارات اور رسائل میں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے لکھنا، ریڈیو تہران، سحر ٹی وی، ایف ایم گیان وانی، ایف ایم جامعہ اور کئی روزناموں میں کام کرنے کا تجربہ، کئی برس سے بھارت کے سرکاری ٹی وی نیوز چینل دوردرشن نیوز میں نیوز ایڈیٹر، لکھنے کا شوق

malik-ashter has 117 posts and counting.See all posts by malik-ashter

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments