چل کر تو دیکھو، رانجھا کیا کہتا ہے


رانجھا اپنے باپ کا لاڈلہ بیٹا تھا۔ باپ نہ رہا تو زندگی بھی اس کی پہلے جیسی نہ رہی۔ بھائیوں نے اس کو بوجھ سمجھ کر الگ کر دیا۔ اس کو اپنے حصے میں جو زمین ملی وہ بھی بنجر تھی۔ کاشتکاری اسے آتی بھی نہ تھی، اس سے یہ ہونی بھی مشکل تھی کہ باپ کے ہوتے کبھی کام کیا ہی نہ تھا۔ باپ موجود تھا تو شہزادوں کی زندگی گزارتا تھا۔ اٹھتی جوانی تھی مستی تھی خوشحالی تھی۔ اس کی زندگی خوابوں جیسی تھی۔ ایسی جیسا جوانی کا گیت ہوتا ہے۔

باپ کا آسرا تھا، خوشحالی تھی، حسینوں کا مرکز نگاہ بن گیا تھا رانجھا۔ جب خوار ہوا تو دنیا نے طعنے دیے۔ شاید سہہ لیتا لیکن جب گھر سے بھی دشنام ملی تو اس کی بس ہو گئی۔ فصل ہوتی نہ تھی جو لوگ باپ کی وجہ سے پہلے اس کی شرارتوں کو نظر انداز کرتے تھے، اب اس کی شکائتیں لگانے لگے۔ گھر والے تنگ ہوئے تو طعنے ملنے لگے گھر سے ہی۔ اسے اس کی بھابھیوں نے کہا کہ بڑا محبوب بنا رہتا تھا حسن والوں کا۔ اپنے سر پڑی تو تارے دکھائی دینے لگے۔ اب تگڑا ہو کچھ کر کے دکھا، اب تمھیں کوئی یہاں منہ نہیں لگاتا تب لگتا تھا کہ ہیر بیاہ کر لائے گا۔

اس کہانی میں پتہ نہیں کتنا سچ ہے کیا جھوٹ ہے۔ لیکن یہ ایسی سی ہی ہے۔ رانجھے نے طعنے سنے تو اپنا علاقہ تخت ہزارہ چھوڑا جھنگ چلا آیا۔ یاد رہے ان دونوں جگہوں کا فاصلہ ہر گز کوئی زیادہ نہیں ہے۔ را نجھا جھنگ آیا تو محبت کی وہ داستان پروان چڑھی جو یادگار ہے اور ہمیشہ یادگار رہے گی۔

رانجھا جھنگ آیا تو ہیر کے باپ نے اسے اپنی بھینسوں کی رکھوالی پر رکھ لیا۔ اس کا کام نگرانی تھا مویشیوں کو لے کر دریا کنارے جنگل بیلے گھومتا رہتا۔ اپنا دل بانسری بجا کر بہلاتا تھا۔ اپنا کام اس محنت لگن سے کیا کہ ہیر سے پہلے اس کے گھر والے رانجھا رانجھا کرنے لگے۔ بارہ سال اس نے چاکری کی اس دوران ہی کہیں ہیر رانجھا کا تعلق بنا جو آگے چل کر محبت کی مثال بنا۔

ہیر رانجھا کی داستان کئی بار لکھی گئی۔ کئی شاعروں نے لکھی۔ رانجھے کا جنگلوں میں مویشی چرانا، اس کا جوگی ہونا اس کو ہیر کی لگن لگنا، یہ شاعر پہلے ہی بتا چکے تھے۔ سب نے اپنے اپنے رنگ میں یہ کہانی سنائی۔ پر ہیر رانجھا کی داستان امر تب ہی ہوئی جب اسے وارث شاہ نے لکھا۔ کہتے ہیں وارث شاہ خود بھاگ بھری کا عاشق تھا۔ اپنے عشق نے مجبور کیا تو اسے شاید حوصلہ ہیر رانجھے کی کہانی سے ملا۔

انسان خود تکلیف سے گذرے درد بھگتے تو پرایا درد محسوس کرتا ہے، وارث شاہ نے ہیر رانجھا کے شروع کے بند میں لکھا۔ جب یاروں نے آ کر پوچھا تو اس نے چاہا کہ ہیر کی کہانی نئے سرے بناؤں پیار سے اس کو لکھوں۔

وارث شاہ خود عاشق تھا۔ ہیر رانجھا لکھی تو اسے اپنے ساتھی بیتی عشق کی واردات یاد رہی۔ اس نے اپنے سماج کو جانا تھا ان مشکلات کو جن سے وہ خود گذرا تھا۔ یہ مشکلات جب اس نے ہیر رانجھا کے دور میں تصور کیں تو کمال کر گیا۔ اس نے بہت ڈوب کر اپنے معاشرے کو اس میں ان کرداروں کو جانا انہیں پیش کیا۔ وارث شاہ لکھ ہیر رانجھا کی پیار کہانی رہا تھا ذکر وہ اپنے سماج کا کر رہا تھا۔

اس نے صدیوں پہلے معاشرتی تقسیم کو جان لیا۔ وہ جان ہی نہیں گیا تھا اس نے ذکر بھی کر دیا تھا کہ ہند اور پنجاب تقسیم ہوں گے۔

کئی صدیوں بعد یہ تقسیم ہوئی پاکستان بنا۔ پنجاب میں قتل عام ہوا لوگ اجڑ کر رہ گئے۔ امرتا پریتم نے تب وارث شاہ کو یوں پکارا، ”اج آکھاں وارث شاہ نوں، کتھوں قبراں وچوں بول، تے اج کتابِ عشق دا کوئی اگلا ورقہ پَھول“۔ امرتا پریتم نے اسے یوں ہی نہیں پکارا تھا۔ وارث شاہ نے کتنی گہرائی میں جا کر اپنے لوگوں کو جانا تھا کہ صدیوں پہلے تقسیم کی پیش گوئی کر دی تھی۔ امرتا پریتم کی پکار اک بے بسی تھی اک گلہ تھا اس عہد کے لکھنے والوں سے کہ وہ سب کوئی حل دینے میں بات سلجھانے میں حقیقت جاننے میں ناکام رہے۔ یہ سب جاننے کے لئے امرتا کو وارث شاہ ہی کو پکارنا پڑا۔

امرتا خود ایک بڑا نام تھی۔ وہ خاتون ہو کر وارث شاہ کی ایک اور حوالے سے بھی مداح تھی۔ وارث شاہ نے ہیر کے کردار کو لکھا تو اس کے ساتھ انصاف کیا۔ وارث شاہ کی ہیر رانجھا میں کہیں بھی ہیر کا کردار کمزور نہیں پڑا۔ اس قصے میں کہیں اس نے صرف مرد کی ہی بڑائی بیان نہیں کی۔ ہیر کا کردار اتنا زوردار طریقے سے بیان کیا کہ آج عورت کی اپنے حق کے لئے اپنی مرضی اپنی پسند کے لئے اسے سب سے موثر پہلی آواز مانا جاتا ہے کم از کم اس خطے میں جہاں سے اس کہانی کا تعلق تھا۔

امرتا پریتم کی اپنی ایک نظم ہے رانجھن کے نام سے۔ یہ نظم پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے۔ جس میں اس نے بتایا ہے کہ جب آج بھی کوئی لڑکی پیار کرتی ہے تو اپنے محبوب کا نام رانجھن رکھ دیتی ہے۔ یہ نظم بتاتی ہے کہ رانجھے کو رانجھن کا نام سب سے پہلے تو رانجھے کی ماں نے ہی پکارا ہو گا پھر سارے جہان نے اسے رانجھن بولا پر اگر ہیر نہ اسے رانجھن کہتی نہ مانتی تو پھر رانجھے کو کون رانجھا کہتا یا مانتا۔

یہ کہانی زندہ ہے۔ ہماری بعد میں آنے والی نسلیں بھی اسے پڑھیں گی اسے جانیں گی۔ ہیر رانجھا ایک عجیب داستان ہے۔ یہ زندگی کی کہانی ہے۔ یہ مشکلات سے بھرپور ہے۔ اس میں چیلنج ہیں۔ اس میں دکھ ہیں اس میں خوشیاں ہیں۔ اس میں ہمت ہے کوشش ہے ناکامی بھی ہے۔

پر اس کا ایک سبق بھی ہے۔ یہی زندگی کا سبق بھی ہے۔ چیلنج جیسا بھی ہو مشکل جیسی بھی ہو اس سے مت گھبراؤ آگے بڑھ کر اسے قبول کرو۔ کامیابی کی ناکامی کی بھی پروا مت کرو۔ نتیجہ کچھ بھی ہو آپ کا کردار کتنا عام ہی کیوں نہ ہو۔ وہ مویشی چارنے جیسا ہی کیوں نہ ہو۔ آپ کا علاقہ تخت ہزارے یا جھنگ جیسا پسماندہ ہی کیوں نہ ہو کہ یہ لوگ ایسی غربت میں رہ کر بھی امر ہونا اور کرنا جانتے ہیں۔ یہ آپ کا کام آپ کا کردار ہی ہو گا جو یادگار بنے گا۔

بات ختم کرتے ہیں پنجابی کے ایک اور شاعر جسے کم جانا جاتا ہے جنہوں نے ایک شعر میں سب کچھ سمیٹ دیا۔ رانجھا تخت ہزاریوں ٹرے تا سئی، پیراں ہیٹھ سیالاں دا جھنگ آندا۔ رانجھا اپنے تخت ہزارے سے چل کر تو دیکھے دو قدم پر زندگی اسے نام مقام دینے کو تیار کھڑی ہے۔

Nov 4, 2016

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 407 posts and counting.See all posts by wisi

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments