تیرا مکہ رہے آباد مولا


\"husnain

جب تبادلہ لاہور ہوا تو نجف کی امی سے ملنے گیا، بہت روکتی رہیں، سمجھایا کہ بیٹا لاہور جائے گا تو پھنس جائے گا، بڑا شہر ہے، اونچی عمارتیں ہیں، کھلے باغ ہیں، طویل فاصلے ہیں اور نہ ختم ہونے والے خرچے ہیں۔ کہتی تھیں ہم چھوٹے شہر کے لوگ کہیں اور نہیں بس سکتے۔ ہم زندگیاں گھروں میں گزارنے کے عادی ہوتی ہیں، سڑکوں پر زندگی گزارنا ہم تمام عمر نہیں سیکھ پاتے۔ کہنے لگیں تجھے لاہور پسند آئے گا، بہت پسند آئے گا، سب کو آتا ہے، لیکن پوتر، سیانے آکھ گئے ہیں، لاہور تے لیا ہور، لاہور میں کمائے گا اور خرچ کرے گا، ہاتھ پلے کچھ نہیں آنا، واپس ایسے ہی آئے گا۔ جا۔ کھا، پی، عیش کر، واپس ادھر ہی آنا ہے اپنے وطن، واپس ہی آنا ہے تو جلدی آنا بس۔

انسان بڑی عجیب چیز ہے۔ جب وہ کہیں نئی جگہ جاتا ہے تو پرانی جگہ کو یاد کر کے آہیں بھرتا ہے۔ وہاں سے وابستہ ایک ایک چیز کو سوچتا ہے، پہروں سوچتا ہے، گھنٹوں آنسو بہاتا ہے لیکن، ساتھ ساتھ وہ اپنے نئے ماحول میں ایڈجسٹ ہو رہا ہوتا ہے۔ اسے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ جو نئی جگہ ہے یہ بھی اس کے اندر آہستہ آہستہ اپنی جگہ بنا رہی ہوتی ہے۔ لیکن یہ عمل بہت سست روی سے ہوتا ہے۔ ایسے سمجھیے کہ آپ نے ایک پودا لگایا اور وہ نیچے زمین میں پھیلنا شروع ہو گیا۔ دو تین ماہ بعد نکالیں گے تو بہت آرام سے نکل آئے گا۔ ننھی ننھی سفید جڑیں ہو گی اور ایک ایبسٹریکٹ سا جال بنایا ہوا ہو گا۔ وہی پودا آپ دس برس بعد نکالنے کی کوشش کریں گے تو یہ ایک لاحاصل کوشش ہو گی۔ پھر وہ کٹ جائے گا پر نکلنا مشکل ہو گا۔ نکل گیا تو دوبارہ ہرابھرا ہونا اس سے زیادہ ناممکن عمل ہو گا۔ تو یہی عمل ہمارے اندر چل رہا ہوتا ہے۔ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ ننھی سفید جڑیں کس وقت باقاعدہ سخت لکڑی کی جڑوں میں بدل گئیں اور وہ کون سا لمحہ تھا جب انہوں نے زمین میں دائیں بائیں پھیلنا شروع کیا اور کوسوں دور تک پھیل گئیں۔

لاہور فقیر کے لیے پہلے صرف عارف جان روڈ کا نام تھا۔ یہ کینٹ کی ایک سڑک ہے۔ اس پر عابدہ امی رہتی تھیں، لاہور جانے کا مطلب امی کے گھر جانا ہوتا اور امی کے گھر جانے کا مطلب عارف جان روڈ پر رہنا ہوتا۔ باقی جتنا بھی لاہور تھا وہ عارف جان روڈ کا مضافات تھا۔ اور اس مضافات میں ایک چیز بہت اچھی ہوتی تھی، یہاں ملتان جیسی مٹی نہیں اڑتی تھی، صاف ستھرا شہر تھا۔ کوئی بہت ضروری چیز درکار ہوتی تو پی اے ایف مارکیٹ سے ملتی یا دوسرے کونے پر آر اے بازار تھا۔ گرمیوں سے زیادہ وہاں سردیوں میں جانے کا مزا آتا تھا۔ اس وقت سردی ایسے نہیں لگتی تھی جیسے اب لگتی ہے۔ تو ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ آر اے بازار سے کچھ لانا تھا۔ تقریباً ایک کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔ سگریٹ سلگائی اور خراماں خراماں واک شروع ہو گئی۔ دھند مناسب سی تھی، دوپہر کا وقت تھا۔ اگر آپ نے شدید دھند کے موسم میں سگریٹ پی ہو تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ دھند کی خوشبو اور سگریٹ کی خوشبو آپس میں مل جاتے ہیں اور وہ جو ہر کش پر سگریٹ سلگتے ہوئے آواز نکالتی ہے، وہ کیا مزہ دیتی ہے۔ تو اس آواز اور اس خوشبو کے ساتھ سفر جاری تھا کہ ایک بزرگ دھند میں سے نمودار ہوئے اور نہایت تمیز دار لہجے میں کہا کہ ایک منٹ کی بات کرنی ہے اگر ممکن ہو۔ بزرگ اور وہ بھی دھند میں سے نمودار ہوں تو بندہ ویسے ہی پراسراریت میں مبتلا ہو جاتا ہے، واک ختم کر دی گئی۔ کہنے لگے، یار یہ میرے ہاتھ دیکھو، یہ دو انگلیاں اور انگوٹھا نظر آ رہا ہے؟ کہا جی دیکھتا ہوں۔ یہ براؤن سے دھبے بھی دکھتے ہیں؟ جی دکھتے ہیں۔

یار میں ایک عمر سے سگریٹ پی رہا ہوں، میں نے یہ سیکھا کہ چلتے ہوئے مت پیا کرو، نقصان زیادہ ہوتا ہے۔ بیٹھ کر پیو گے تو زیادہ عرصہ اچھا نکال لو گے۔ اب یہ دھند کا اثر تھا، ان کے لہجے کا یا اپنی فرماں برداری کہ چلتے ہوئے پھر سگریٹ کبھی پی ہی نہیں گئی، دیکھیے اب کتنے دن مزید جمع ہوتے ہیں زندگی میں۔ تو وہ بزرگ، وہ واک، وہ سردی، وہ کہر، وہ اس کی خوشبو، وہ سگریٹ کے چٹاخے، وہ سب لاہور ہیں۔ تب کا لاہور ہیں جب یہاں رہنا شروع نہیں کیا تھا۔

پھر لاہور رہنا شروع کر دیا۔ پہلا گھر کینٹ ہی میں لیا۔ اب ایک نیا مسئلہ تھا۔ لاہور کے راستے یاد کرنے کا۔ اس زمانے میں ایک کولیگ افتخار ہوتے تھے، اپنے گروپ کے تھے، انہیں ساتھ بٹھا لیتا اور فیلڈ کا پورا کام انہیں کی مدد سے ہوتا۔ وہ جو بھی راستہ بتاتے اس میں نہر ضرور ہوتی۔ کبھی کبھی تو یہ باقاعدہ ایک سازش نظر آتی۔ یہ بہت بڑی پریشانی تھی کہ نہر پر کہاں سے داخل ہوا جائے اور نکلنا کہاں سے ہو۔ دو تین برس نہر کے انڈر پاس یاد کرنے میں گذر گئے تو نہر کو انجوائے کرنا شروع کیا۔ اس وقت یہ بدصورت جنگلے نہیں ہوتے تھے، درخت بھی زیادہ تھے گاڑیاں بھی ایسے پھنستی نہیں تھیں تو لاہور کی نہر دوسری دلربا ٹھہری۔ عادت سی ہو گئی کہ جہاں بھی جانا ہے نہر کے ساتھ ساتھ جانا ہے۔ پھر نہر والی سڑک چوڑی ہونا شروع ہوئی تو یہ معاشقہ دبلا ہوتا گیا، اب نہر کی سڑک چوڑی ہے پر نہر اتنی رومانوی نہیں رہی۔

ماڈل ٹاؤن میں دفتر ہوتا تھا۔ کام سے فارغ ہو کر یا لائبریری کا رخ کیا جاتا یا واک کرنے کے لیے ماڈل ٹاؤن پارک جا کر سواری کھڑی کر دی جاتی۔ یہ دونوں جگہیں ایک گول گھومتی ہوئی سڑک پر ہیں، کچھ اور کرنے کا موڈ نہ ہوتا تو اسی گول سڑک کی ذیلی سڑکوں سے ماڈل ٹاؤن کے اندر کی سیر شروع ہو جاتی۔ پرانی عمارتوں سے عشق ہے تو چن چن کر جی بلاک، آئی بلاک اور ڈی بلاک کی پرانی عمارتوں کو دیکھا جاتا، ان میں لگے پودوں کا جائزہ لیا جاتا یا اور کچھ نہیں تو وہ نرسریاں جو ایک قطار میں ہیں، وہاں کسی بھی نرسری میں جا کر سیر شروع ہو جاتی۔ ایک وقت آیا کہ سب نرسری والے چہرہ پہچاننے لگے، کچھ تو نام بھی جانتے تھے، یہ بھی جانتے تھے کہ یہ باؤ خریدتا کم ہی ہے بس گھومتا رہتا ہے، دیکھتا رہتا ہے، دل پشوری کر کے چپ چاپ نکل جاتا ہے۔ ماڈل ٹاؤن تیسرا عشق تھا۔ پودا اپنی جڑیں پکڑ کر درخت بن چکا تھا۔

شالامار باغ کا چکر تب سے لگانا چھوڑ دیا جب سے وہاں سڑکیں بننا شروع ہوئیں، پھر اورنج ٹرین آئی تو بنی سڑکیں اکھڑ گئیں اور جانے والوں کے دل بھی اکھیڑے گئے۔ چوبرجی جہاں آتے جاتے گاڑی کھڑی کر کے زیارت کی جاتی تھی، اب لاحول پڑھتے ہوئے تیزی سے گزاری جاتی ہے کہ سامنے والا اپنی گاڑی نہ لے آئے، ملتان روڈ دو سال کھدی رہی، ایک برس بنی اور اگلے برس پھر اس کے ساتھ دلی والا کام ہوا، اب دیکھیے وہ کب آباد ہو۔ شوکت خانم والے چوک سے آگے رائے ونڈ کی طرف جانے والی سڑک ایک برس سے بن رہی ہے۔ دو سال رائے ونڈ روڈ بنتی رہی۔ ٹھوکر نیاز بیگ آج بھی خانماں برباد ہے۔ دھول مٹی اب اتنی ہے کہ ملتان میں کیا ہو گی۔ یہ سب گروغبار جمع ہوتا گیا، ان سڑکوں پر پھنسنے والی گاڑیوں کا دھواں جمع ہوتا گیا، یہاں سے جو درخت کاٹے گئے تو دھواں نگلنے کے لیے بھی اب کوئی نہ تھا، وہ دھواں جمع ہوتے ہوتے پھر ہم سب پر برسنا شروع ہو گیا۔

اب رہائش رائے ونڈ میں ہے، عابدہ امی والے بھی وہیں ہیں، روزانہ پورے لاہور کا طواف ہوتا ہے، کام کی نوعیت ہی کچھ ایسی ہے۔ لیکن اب لاہور جو یادوں میں ہے، وہ بس وہیں رہ گیا ہے۔ اب دھند میں سگریٹ پیتے ہوئے خوف محسوس ہو رہا ہے کہ ساتھ اور نہ جانے کیا کیا کچھ اندر جائے گا۔ اب واک کرنے ماڈل ٹاؤن جائیں تو آنکھیں جلیں گی۔ اب نہر پر سے کہیں جانے کا موڈ ہو تو واپسی پر ناک نئی لگوانے کی ضرورت پیش آئے گی۔ اب چوبرجی کا رخ کریں گے تو واپسی پر پہچانے نہیں جائیں گے۔ ایک جوگی ہو گا، راکھ کے بجائے مٹی میں نہایا ہوا۔ اب شالامار جائیں گے تو گاڑی کے سسپنشن کی لاش واپسی پر ساتھ آئے گی۔ ٹھیک ہے، وقت لگے گا، لاہور پیرس بن جائے گا۔ اگلے الیکشن تک تو بن ہی جائے گا، لیکن تب تک ان خاک نشینوں کو بتایا جائے کہ یہ عذاب کیسے بھگتیں؟ یہ سموگ کیسے بھگتیں؟

میرے لاہور پر بھی اک نظر ہو
تیرا مکہ رہے آباد مولا

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments