ہم اور ڈاکٹر عبدالسلام


\"tahirایک پرانے واقعے کی باز آفرینی سے بات شروع کرتے ہیں۔ بہت برس پہلے لندن کی ایک تقریب میں فیض احمد فیض کی ملاقات ایک برطانوی پروفیسر سے ہوئی۔ پروفیسر صاحب کو جب معلوم ہوا کہ فیض صاحب جلا وطنی کی ابتلا سے گزر رہے ہیں تو اس نے پوچھا کہ میں آپ کے ہم وطن ڈاکٹر عبدالسلام کو جانتا ہوں ۔ وہ تو اس لئے جلاوطن ہیں کہ ان کے آبائی وطن میں ان کے مذہبی عقائد کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ آپ کی جلاوطنی کی تقریب کیا ہے؟ فیض صاحب نے بے ساختگی سے کہا ، ’اور میرے سیاسی عقائد کو غلط سمجھا جاتا ہے‘۔ دیکھئے وطن عزیز پر بہت سے موسم گزرے ہیں اور ان کے شدائد کا رنگ بھلے باہم مختلف رہا ہو، ابنائے وطن نے ہمیشہ یہی سمجھا کہ ’جاتے جاتے یونہی دم بھر کو خزاں ٹھہری ہے ‘۔
اس برس پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام مرحوم کے یوم پیدائش کی نسبت سے اخباری مضامین، ٹی وی پروگرامز میں تذکرے اور سوشل میڈیا پر کچھ ہلچل سی دیکھنے میں آ رہی ہے۔ ڈاکٹر عبدالسلام کے بارے میں اچھی، بری ، معقول یا کم معقول تحریریں گذشتہ بیس برس سے نظر سے گزر رہی ہیں۔ اس ضمن میں کچھ مشاہدات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں۔
ڈاکٹر عبدالسلام پر مثالی مضمون یا ٹاک شو وہ ہے جس میں ان کی شخصیت سے قربت اور تعلق خاطر کا اظہار نہ ہونے پائے۔
دوسری بات یہ کہ ان کے احمدی عقائد اور قرآن کریم سے کیفیاتی کسب فیض کرنے جیسے حوالوں سے پہلو بچا کے گزر جانا ضروری ہے۔ نہ خود رکیں اور نہ قاری یا سامع کے لئے ایسا موقع پیدا ہونے دیں۔ گویا تذکرہ اگر ناگزیر ہو بھی تو تفہیم کا کوئی راستہ نہ نکلنے پائے۔
تیسرا یہ امر بھی ملحوظ رہے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پر مستند تحریر و تقریر کا معیار یہ ہے کہ یہ کام کسی احمدی عقیدے کے فرد سے سرزد نہیں ہونا چاہئے۔ مفروضہ یہ ہے کہ ان کی بات تو جانبدار اور خالی از حقیقت ہو گی اور اس میں وہ اپنا عقیدہ گھسیڑ دیں گے۔ اور صاحب…. اس طرح بات علمی اور غیر جانبدار نہیں رہتی۔
چوتھا یہ اہتمام کہ اس ذکر خیر کا تاثر یہ رہنا چاہئے کہ ڈاکٹر عبدالسلام پر اس مہربانی اور احسان کا بار شہریوں اور نجی اداروں کی طرف سے ہے، کوئی جذبات کی رو میں اس کو پاکستان کی قومی ذمہ داری نہ قرار دے بیٹھے۔ قومی سطح کی ستائش کے لئے آئینی سند رکھنے والے ریاست کے نا مزد کردہ مشاہیر موجود ہیں۔ عبدالسلام کی تحسین کے وفور میں ان سرکاری مشاہیر کے حفظ مراتب میں کوئی کوتاہی واقع نہ ہو جائے۔
پانچواں اہم نکتہ یہ حرز جان رہے کہ سہواًبھی ان خدمات کا ذکر نہ آئے جن کا عالم اسلام، خدمت قرآن، تفہیم احادیث یا مسلم معاشرے کی فکری تعمیر نو سے تعلق ہو۔
تو جناب یہ وہ’پانچ بنیادی خصوصیات ‘ ہیں جن سے آپ کی تحریروں کا متصف ہونا ضروری ہے ورنہ ڈاکٹر عبدالسلام پر آپکی نگارشات پایہ اعتبار سے ساقط قرار پائیں گی۔
عاجز کو اعتراف ہے کہ راقم کی تحریر میں یہ پانچوں نقائص پائے جاتے ہیں اور ایک اضافی ’کج خلقی‘ اس پر مستزاد !
\"exclusive20inside\"عام طور پر مذکورہ بالا معیارات پر پورا اترنے والے لکھاری ڈاکٹر سلام کو جھنگ سے کیمبرج اور وہاں سے واپس جھنگ مگھیانہ کی گومگو میں رکھ کر خود کو صاف بچا لے جاتے ہیں۔ مگر میرے علم میں خوب مستحضر ہے کہ پاکستان کا ان کا کوئی سفر ربوہ کے قیام اور اپنی جماعت سے بھرپور رابطے کے بغیر مکمل نہیں ہوا اور نہ ہی وہ اس پہ سمجھوتہ کرتے تھے۔ حتی کہ ضیاالحق کی دعوت پہ بھی پاکستان آئے تو ربوہ کا دورہ اس میں شامل تھا۔
اسی لئے راقم کو جب موقع ملا تو ایسا ہی اظہار کر کے مجلس کی برہمی اور تلخ کامی کی یادوں کا تجربہ ہے۔
ڈاکٹر صاحب کی وفات کے ذرا بعد کی بات ہے کہ لاہور میں ایک کانفرنس پرل کانٹی نینٹل ہوٹل میں تھی۔ اسلام آباد سے پرویز ہود بھائی اور اٹلی سے ڈاکٹر فہیم حسین آئے ہوئے تھے۔ وفاقی وزیر سائنس سیدہ عابدہ حسین مہمان خصوصی اور صدارت تھی جسٹس جاوید اقبال صاحب مرحوم کی۔ کانفرنس کے آخر پر شرکاسے ووٹ طلب کیا گیا کہ قائد اعظم یونیورسٹی کے ایک بلاک کا نام ڈاکٹر سلام کے نام پہ رکھا جائے۔ خاکسار نے صدر مجلس سے اجازت لے کر عرض کی کہ نئے نام رکھنے کا تکلف اور تردد نہ کریں۔اور اگر اس تجویز میں سنجیدہ ہیں کہ ڈاکٹر سلام کو خراج تحسین پیش کرنا ہے تو جس شہر میں ڈاکٹر سلام نے ہمیشہ کے لئے مدفون ہونے کا فیصلہ کیا ہے اگر حقیقی جرات اور نیک نیتی ہے تو اس شہر کا نام ہی تبدیل نہ کریں جس کو پنجاب اسمبلی قرار داد پاس کر کے بدلنے پر تلی ہوئی ہے،حالانکہ اس کے باشندوں کی رائے تو نام بدلنے کے حق میں نہیں۔ اس پہ ان احباب اور صحافیوں نے تو شرمندگی محسوس کی لیکن اہل اختیار نے مجسٹریٹ کے ذریعے مرحوم کی روح کو آرام پہنچانے کے لئے قبر کے کتبے پر آئین اور اسلام کا نفاذ کر دیا ۔
اس بے وقعتی کے احساس کے باوجود بولتے رہنا زندگی کی علامت بھی ہے اور ضرورت بھی!
دوسرا واقعہ ڈاکٹر صاحب کی بیماری کے آخری دنوں کا ہے۔ اور ان کے ایک بھائی اس کے راوی ہیں۔ اس سے جو بے ساختہ پاکستانیت جھلکتی ہے اس کا احساس تعصب سے مملو اذہان کو کیسے ہو سکتا ہے۔
لندن کے ایک سینئیر نیورولوجسٹ نے اعصاب اور جسمانی معائنے کے بعد حاضر دماغی کا جائزہ لینے کے لئے پوچھا کہ۔\” آج کل وزیر اعظم کون ہے؟\”
ڈاکٹر صاحب نے کہا ، نواز شریف۔
ڈاکٹر پریشان ہو گیا کہ واقعی دماغ پہ اثر ہے۔
ڈاکٹر صاحب کے بھائی نے وضاحت کی کہ دراصل یہ ہمارے ملک پاکستان کے وزیر اعظم کا نام بتا رہے ہیں۔
تیسرے واقعے میں ایک کی بجائے دو سخن گسترانہ نام اکٹھے ہو گئے ہیں۔
لندن میں ڈاکٹر عبدالسلام اور سر ظفراللہ خان کی باقاعدگی سے ملاقات رہتی تھی۔ چوہدری صاحب بیمار تھے اور ڈاکٹر صاحب عیادت کے لئے گئے۔ دوران گفتگو ڈاکٹر سلام نے کہا کہ میں نے حال ہی میں شمائل ترمذی پڑھی ہے اور شدت سے خواہش ہے کہ اس کا ترجمہ انگریزی میں کروں تا کہ یہاں پروان چڑھنے والی نسلیں محروم نہ رہیں۔ اگلی دفعہ جب چوہدری صاحب سے ملنے گئے تو چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے ترجمہ شدہ مسودہ دے کر کہا کہ میں فارغ تھا اس لئے تمہاری خواہش پوری کر دی ہے کہ شاید تمہیں وقت نہ ملے۔ اب اس کو چھپوا دیں۔ میں نے جب یہ واقعہ پڑھا تو متاثر ہو کے اسی شام آبپارہ کے ایک بک سٹور سے شمائل ترمذی خریدی اور اس سے مستفیض ہوا۔
\’ہم سب\’ کی فضا ذرا سازگار سی لگتی ہے تو بقول اطہر نفیس؛
ہوائے کوئے جاناں ملتفت ہے
سو اپنے رنج کہنے آ گیا ہوں۔
اور وہ رنج کیا ہیں ؟ انہیں ایک اور شعر کی صورت سن لیجئے ۔
دامن بنے تورنگ ہوا دسترس سے دور
موج ہوا ہوئے تو ہے خوشبو گریز پا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments