میری بیوی پھر سے جہنمی کیسے ٹھہری؟


پھر ایک دن عجیب بات ہوئی۔ لز نے مجھے بتایا کہ وہ مسلمان ہونے کو تیار ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ وہ کچھ دنوں سے اسلام کی دعوت کے بارے میں مختلف ویب سائٹ پر جا کرمعلومات حاصل کرتی رہی تھی اس نے دعوت اسلامی سے متعلق کچھ فلمیں بھی دیکھی تھیں اور مجھے بتائے بغیر تین ماہ قبل جب آفس کے کام سے اسے واشنگٹن جانا پڑا تھا تو وہاں کی مسجد کے اسلامی مرکز میں جا کر کچھ مسلمان عالموں سے ملی تھی جنہوں نے اس کے کئی سوالوں کا بہت مناسب جواب دیا تھا جس کے بعد اس نے اپنے چرچ کے راہب سے بات کی تھی جس سے اس کا کافی پرانا تعلق تھا، عیسائیوں کے درمیان اس پر اس کی گفتگو بھی ہوئی تھی اوراس کا خیال تھا کہ اسے مسلمان ہوجانا چاہیے۔

اس نے بتایا کہ اس کے والدین اس کے فیصلے سے خوش تو نہیں ہوئے تھے لیکن اس کی والدہ اوروالد دونوں نے کہا تھا کہ انہیں اس کی خوشی مقدم ہے اگر وہ مذہب اسلام اپنا کر خوش رہتی ہے تو انہیں کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اس نے مجھے یہ بھی بتایا کہ اس نے اپنے گھر والوں کو میرے بارے میں بھی بتایا ہے ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ مذہب میری وجہ سے نہیں بلکہ سوچ سمجھ کر بدلنا چاہتی ہے۔

میں حیران ہوگیا تھا اورمجھ سے زیادہ میرے والدین میرے خاندان کے لوگ رشتہ دار اور میرے والد کے دوست حیران ہوئے۔ کچھ نے بڑی خوشی کا اظہار کیا اور کچھ لوگوں نے بالواسطہ یہ کہہ بھی دیا کہ میرے جیسے خوبصورت اسمارٹ لڑکے سے شادی کرنے کے لیے جس کا مستقبل محفوظ ہے امریکی لڑکی تو مذہب بدل ہی لے گی پھر امریکنوں کا کیا ہے ان کا کیا مذہب اوران کے کیا اصول یہ تو دنیا کی ننگی ترین قوم ہے۔ نہ شرم، نہ حیا، سور کا گوشت کھا کھا کر بے غیرت ہوجاتے ہیں اور شراب پی کر اتنے مدہوش کے نہ انہیں اپنا خیال ہوتا ہے نہ ہی کسی اور کا۔

مذہب بدلنے کے باوجود ماں باپ بھائی بہنوں کو شادی کے لیے آمادہ کرنا آسان ثابت نہیں ہوا تھا۔ شاید میرے والد اور والدہ آخر میں اس بات سے مطمئن ہوگئے تھے کہ لز کے اسلام قبول کرنے سے کئی پشتیں جنت میں چلی جائیں گی۔ اس سے بڑی بات کیا ہوسکتی تھی۔ یہ بات انہیں ابا کے مسجد کے پیش امام صاحب نے سمجھائی تھی۔

پھر ہماری شادی ہوگئی۔ گھر میں دعوتیں ہوئیں، سب نے لز کو خاندان میں شامل کرلیا۔ دونوں بڑے بھائی لز سے مل کر خوش ہوئے اور امی نے بھی لز کو بہت پسند کیا، وہ اس کی خوبصورتی سے زبردست طریقے سے متاثر ہوگئی تھیں۔ گورا رنگ تو بہرحال پاکستانیوں کی کمزوری ہے، لز نہ صرف یہ کہ گوری تھی ساتھ ہی اس کے اطوار بہت سلیقے کے تھے۔ لز کے والدین نے ایک دفعہ ہمارے پورے خاندان کو گھر بھی بلایا اوراس بات کا پورا اہتمام کیا کہ گوشت حلال ہی پکے۔ شراب سے وابستہ لوازمات ہر جگہ سے ہٹادیئے گئے تھے ان کی سمجھداری اور وضعداری سے میں خود بھی حیران رہ گیا تھا۔

ہم دونوں اپنے گھر میں خوش تھے اورمجھے لگا تھا کہ میں دنیا کا خوش قسمت ترین انسان ہوں۔ میرے لیے اس سے اچھا کیا ہوسکتا تھا کہ ایک خوبصورت، گوری امریکن لڑکی مسلمان ہوکر میری شریک حیات بن گئی تھی۔ دو سال کے اندر اندر لز ایک خوبصورت بیٹے کی ماں بن گئی جس کا نام اس نے خود ہی عمر رکھا تھا۔ وہ بڑے شوق سے اسلامی تاریخ پڑھ رہی تھی اوراس نے مجھے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمرؓ کے بارے میں بڑی دلچسپ باتیں بتائی تھیں جن سے میں آگاہ نہیں تھا اور ان سے ہی متاثر ہوکر اس نے یہ نام چنا تھا جس پر مجھے کوئی اعتراض نہیں تھا۔

ایک دلچسپ بات اس نے یہ بتائی تھی کہ حضرت عمرؓ نے پردے کے قانون کا اغاز کیا تھا مگرجس قسم کا پردہ زیادہ تر اسلامی ملکوں میں ہوتا ہے اس پردے کا تصور اسلام میں نہیں ہے۔ میری معلومات اس معاملے میں صفر تھیں۔ میری بھابھیاں حجاب پہنتی تھی جو مجھے اچھا نہیں لگتا تھا لیکن میں سمجھتا یہی تھا کہ اسلام میں حجاب کا حکم ہے۔ لز نے مجھے انٹرنیٹ پر بہت سے پڑھے لکھے پاکستانی، بھارتی اور مصری علماء کے مضامین دکھائے جن میں خواتین کو باوقار کپڑے پہننے کی تاکید کی گئی تھی، اس نے مجھ میں بھی اسلام سے دلچسپی پیدا کردی تھی۔

میں پانچ وقت نماز کا پابند نہیں تھا بس کبھی کبھار جمعہ کو نماز پڑھ لیتا تھا، سچی بات تو یہ تھی کہ لز سے شادی اوراس کے مسلمان ہونے کے باوجود میں ایک روایتی قسم کا مسلمان نہیں بن سکا تھا۔ میں خدا پر یقین ر کھتا تھا، روایتی طور پر رمضان میں روزے بھی رکھ لیتا تھا اور عیدبقرعید خاندان کے ساتھ منالیتا تھا۔ لز کا رویہ میانہ روی کا تھا، وہ شادی سے پہلے بھی ویجیٹیرین تھی اورشادی کے بعد بھی سبزی خور ہی رہی اس نے بقرعید کی قربانی کے بارے میں کسی خاص گرمجوشی کا اظہار نہیں کیا تھا۔ وہ اپنے وقت، لحاظ اورکام کے حساب سے نماز بھی پڑھتی اور رمضان کے روزے بھی رکھتی تھی اور یہ سمجھتی تھی کہ یہ اس کے اوراس کے اللہ کے درمیان کا معاملہ ہے۔ اس سلسلے میں وہ کسی سے نہ بحث کرتی اور نہ ہی کسی کو سمجھانے کی کوشش کرتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ تمہارا مذہب، تمہارا خدا اور میرا مذہب میرا خدا۔

شادی کے شروع کے مہینوں میں اسے میری بھابھیوں اور خاندان کے دوسرے لوگوں نے اپنے گھر میں منعقد ہونے والے درس اور میلاد کی تقریبات میں مدعو کیا تھا۔ شروع میں تو وہ کئی دفعہ ان مذہبی اجتماعات میں گئی لیکن جلد ہی اس نے شرکت کرنا چھوڑدیا۔ اس کا خیال تھا کہ ان تقریبات میں روحانیت اوراللہ سے لگاؤ کے اظہار کے علاوہ سب کچھ تھا۔ امارت و دولت کی نمائش شکوے شکایتیں اور بہت سی ایسی باتیں تھیں جو اس کے اسلام میں نہیں تھیں۔

وہ بہت محنتی کارکن تھی، آفس میں اس کی بہت عزت تھی، اس کے کام اورذہانت کی وجہ سے وہ مسلسل ترقی کررہی تھی، میں تیزی سے اس کا ہم خیال بن گیا تھا کہ ان محفلوں میں وقت ضائع ہوتا ہے اور نفرتوں کو ہوا دی جاتی ہے میں دل ہی دل میں شکر گزار ہوتا تھا کہ وہ تھوڑی بہت ہی اردو بول اورسمجھ پاتی ہے اسے اندازہ نہیں تھا کہ مردانے میں مسلمان مرد کس قسم کی گفتگو کررہے ہوتے ہیں اور کس طرح سے مذہبی بحث و مباحثہ میں آپے سے باہر ہوجاتے ہیں اور فتوے جاری کرنا شروع کردیتے ہیں۔ اچھے خاصے پڑھے لکھے لوگ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتے ہیں۔

عمر کی پیدائش کے بعد ابو کی فرمائش پر میں لز کو لے کر عمرہ کرنے کے لیے سعودی عرب چلا گیا تھا۔ میں خود بھی سعودی عرب پہلی دفعہ گیا تھا۔ شہر مکہ اور مدینہ کی مذہبی اہمیت اپنی جگہ پر مگر وہاں دولت کی فراوانی اور ضیاع کے ساتھ عربوں کی عیاشی کی داستانیں سن کر میں حیران ہوا۔ سعودی عرب کا سفر لز کے توقعات کے برخلاف ثابت ہوا تھا۔ اسلامی تاریخ ابتدا کے زمانوں کا مکہ مدینہ اور اسلام کے ابتدائی دورکے قصے اور مسلمانوں کی جن کہانیوں کو اُس نے پڑھا تھا وہ سب کچھ سعودی عرب کے حالات سے متصادم تھا۔ وہ حیران بھی ہوئی اور پریشان بھی، سعودی عرب سے واپس آنے کے بعدوہ نومسلم امریکی عورتوں کی ایک تنظیم سے انٹرنیٹ پر وابستہ ہوگئی تھی جہاں اس قسم کی باتوں پر تبادلہ خیال ہوتا جو وہ مجھے کبھی کبھی بھیج دیتی تھی ان کے کچھ سوالوں کے جواب میرے پاس نہیں ہوتے تھے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments