دوغلی – جیک لندن کی کہانی


”شامن تقریب شروع کرنے والا تھا۔ اس نے تمباکو کا ایک بیڑا سلگایا اور قبیلے کے اجداد کی روحوں کو آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر شرکت کی دعوت دی۔ بچوں کی ایک ٹولی نے ڈھول کی تال پر رقص کرنا شروع کیا۔ بعد میں مرد اور عورتیں بھی رقص میں شامل ہو گئے۔“

”میں نے کمبل کا ایک کونا اٹھا کر اپنا چہرہ ٹلکی کو دکھایا۔ اس نے حیرت کا بالکل اظہار نہ کیا۔ ایسے دیکھا جیسے کہ رہی ہو کہ مجھے بھروسا تھا ٹامی، تو ضرور آئے گا“ ۔

میں نے پھر سے اپنا چہرہ ڈھانپ کر سرگوشی میں اس سے پوچھا کیا تم تیار ہو؟ اس نے آنکھوں کے اشارے سے سوال کیا، کہاں، کب؟ ”

”برف کے ٹیلے کے پیچھے۔“

” کیمپ میں درجنوں کی تعداد میں سلیج کھینچنے والے ہسکی کتے تھے۔ ایک ہسکی بالکل میرے موکیشن کے ساتھ لگا بیٹھا تھا۔ دوسرا بھی میری ٹانگ کے قریب تھا۔ میں نے اپنے پارکے سے چاقو نکالا اور ساتھ والے ہسکی کی پسلیوں میں گھونپ دیا۔ جیسے ہی وہ چیخا، دوسرا کتا منہ پھاڑے میری طرف لپکا۔ لیکن میں نے جلدی سے زخمی کتے کو اس کے منہ پر دے مارا۔ ان دونوں ہسکیوں نے ایک دوسرے کو بھنبوڑنا شروع کر دیا۔ باقی کتے بھی لڑائی میں شامل ہو گئے۔ اب ایسی دھما چوکڑی مچی کہ کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا۔ میں نے کن اکھیوں سے صرف اتنا دیکھا کہ ٹلکی تیزی سے برف کے ٹیلے کی طرف بھاگ رہی تھی لیکن کتوں کی لڑائی کی افراتفری میں کسی نے اس پر توجہ نہیں دی۔“

”میں نے ایک جھٹکے سے کمبل کو چہرے سے ہٹا یا۔ قبیلے کے اکثر لوگ مجھے جانتے تھے اور حیران ہو رہے تھے کہ میں اچانک کہاں سے ٹپک پڑا۔ میں سیدھا چیف جارج کی طرف بڑھا اورپوچھا، یہ کیا ہنگامہ ہے چیف؟“

” چیف کی بجائے روحانی پیشوا شامن نے جواب دیا،“
” آج ٹلکی کی شادی چیف جارج سے ہو رہی ہے۔“
”لیکن اس کی تو پہلے ہی تین بیویاں ہیں۔“
میں نے کہا۔
” اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔“

”لیکن مجھے تو آسمانی روحوں نے بتایا ہے کہ وہ ٹلکی کو چیف کی باندی نہیں بننے دیں گی۔ میں نے شامن کے ذہن میں وہم کا بیج بو دیا تھا۔ چیف کا ہاتھ پیٹی میں بندھے خنجر کی طرف بڑھا لیکن شامن نے اشارے سے اسے منع کر دیا۔“

”جیسے ہی میں نے بلند آواز میں آسمانی روحوں کا ذکر کیا، مجموعے پر ایک سناٹا چھا گیا۔ رچرڈ، تم تو جانتے ہو یہ قبائلی کس قدر وہمی ہوتے ہیں۔ ان کے خیال میں گورے لوگوں میں شیطان کا خون ہوتا ہے اور ان کے قابو میں شیطانی قوتیں ہوتی ہیں جن سے وہ جو چاہے کام لے سکتے ہیں۔“

” میں نے اپنا پائپ سلگایا اور اس کا دھواں اڑاتے ہوئے ایسے دیکھا جیسے آسمان پر مجھے کوئی شبیہ نظر آ رہی ہے۔ میرے دونوں ہاتھ بادلوں کی طرف تھے اور میں ٹلکی کو ایسے پکار رہا تھا جیسے وہ پرندہ بن کر بادلوں کے پار میری آواز سن رہی ہو۔ ٹلکی ی ی۔ میں نے جنگلی جانوروں کی طرح چنگھاڑتے ہوئے آواز دی، ٹلکی ی ی ی ی ی۔ اب ماؤں نے ڈر سے بچوں کو گودوں میں چمٹا لیا تھا۔ سب خوف زدہ ہو کر انتظار کر رہے تھے کہ کیا ہونے والا ہے۔“

”میں اسی طرح دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھائے، آنکھیں نیم بند کیے آہستہ آہستہ ٹیلے کی طرف چلنے لگا۔ چیف جارج نے دوبارہ خنجر نکال کر مجھ پر حملہ کرنا چاہا لیکن شامن نے پھر اسے منع کر دیا۔ خوف سے کوئی اپنی جگہ سے نہیں ہلا“

”برف کے ٹیلے کے پیچھے ٹلکی میری منتظر تھی۔ ہم کشتی کی طرف بھاگے۔ ٹلکی نے کشتی پر مردوں سے زیادہ محنت سے کام کیا۔ جیونو پہنچ کر میں پھر سونے کی تلاش میں مصروف ہو گیا۔ وہاں ہم نے سات سال اکٹھے گزارے۔ نہایت غربت کے سات سال۔ لیکن اس کے ہونٹوں سے کبھی شکایت کا ایک لفظ بھی نہیں نکلا۔ اور پھر سات سال کے بعد پہلی زچگی میں وہ جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔“

”آخری سانس تک اس نے میرا ہاتھ اپنے ٹھنڈے برفیلے ہاتھ میں تھامے رکھا تھا۔ اس رات بھی بہت سی راتوں کی طرح برف کا ایک شدید طوفان آیا تھا۔ خیمے کے پٹ مسلسل پھڑ پھڑا رہے تھے۔ فرش پر برف کی ڈھیریاں بن گئی تھیں۔ جب ہوا کا شور کم ہوتا ایک خوفناک سی خاموشی چھا جاتی جس میں بھیڑیوں کے ہوکنے کی آواز دل کو دہلا دیتی“

”جب اس کا سانس اکھڑنے لگا تو اس نے کچھ کہنا چاہا۔ میں کان اس کے ہونٹوں کے قریب لایا تو وہ بہت کمزور آواز میں بولی،

”ٹامی میں تیری وفادار رہی ہوں۔ میں نے تجھے اتنا چاہا کہ کوئی عورت کسی مرد کو نہیں چاہ سکتی۔ میں تجھ سے بس ایک بات منوانا چاہتی ہوں۔ تو جب بھی شادی کرے تو سفید فام عورت سے کرنا۔ میری وجہ سے تجھے بھی لوگوں نے دوغلا کہنا شروع کر دیا ہے۔ سب تجھے حقارت سے اس لئے دیکھتے ہیں کہ تو ایک سواش، دوغلی اور کم نسل عورت کا میاں ہے۔ آج میں تجھے اس عذاب سے آزاد کر رہی ہوں۔ وعدہ کر تو جب بھی شادی کرے گا تو سفید عورت ہی سے کرے گا۔ کر نا وعدہ۔ اس سے پہلے کہ میں چلی جاؤں۔“

”میری آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے۔ میری ہچکیاں بندھی ہوئی تھیں۔ منہ سے الفاظ ادا نہیں ہو رہے تھے۔ روتے روتے میں نے ہاں میں سر ہلایا۔“

” ٹامی میرے ہونٹوں پر پیار کر کے اس وعدے کو پکا کر دے تاکہ میں سکون سے اپنے ماں باپ کی دنیا میں چلی جاؤں۔ جیسے ہی میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں سے لگے اس نے آخری سانس لی اور اس کا ہاتھ میرے ہاتھ سے ڈھلک کر گر پڑا۔“

”تو رچرڈ، مجھے بھی تھوڑا بہت عورتوں کے بارے میں پتہ ہے۔“

رچرڈ پر ایک سکتہ طاری تھا۔ اس نے سوچ میں گم اپنے پائپ کو دوبارہ سلگایا۔ ٹامی نے چائے ٹین کے مگ میں ڈال کر میگی کے لئے پچھلے چولھے پر رکھ دی۔

خیمے کے پٹ ایک جھٹکے سے کھلے۔ میگی سر پر کپڑوں کا ایک بڑا سا گٹھر اٹھائے اندر داخل ہوئی اور نڈھال ہو کرفرش پر گر گئی۔ اس کے بالوں اور کوٹ پر برف کی تہیں جمی ہوئی تھیں۔ رچرڈ نے ایک مگ میں بوتل سے وسکی انڈیل کر میگی کو دی۔ جب وسکی نے اثر دکھایا تو رچرڈ نے ٹامی کو باہر آنے کا اشارہ کیا اور میگی سے کہا کہ ٹامی نے تمھارے کپڑے سکھا دیے ہیں۔ جب بدل لو ہمیں آواز دے دینا۔ ہم اتنی دیر باہر خیمے کی مضبوطی کے لئے ایک اور کھونٹا لگا رہے ہیں۔ ”باہر نکل کر ٹامی نے کہا۔

”رچرڈ اب باقی سفر کے لئے میگی کی سب دلیری نکل جائے گی۔“

”نہیں ٹامی ہماری عورتوں کی یہی دلیری تو ہے جس نے ہمیں یہ سب کچھ کرنے کی ہمت دی۔ میگی کی خود سری اسی دلیری کی علامت ہے۔ ایسی ہی عورتیں اگلی نسلوں کو ہمت اور مردانگی دیتی ہیں۔ اس دلیری، اس خود سری کی قدر کر ٹامی۔ عورت کی قدر کر“ ۔

جب وہ خیمے میں داخل ہوئے تو میگی کپڑے تبدیل کرچکی تھی۔ اب وہ ہاتھوں میں گرم چائے کا مگ لئے چولھے کے پاس بیٹھی مسکرا رہی تھی اس کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی اور وہ ٹامی کو نئی معنی خیز نظروں سے دیکھ رہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments