مختلف مذاہب اور سائنس کی نظر میں روزہ


آج کل عیسائیوں کے مختلف فرقوں میں روزوں کے تعلق سے الگ الگ نظریات پائے جاتے ہیں۔ پروٹسٹنٹ فرقے میں اب روزے کو انسان کی مرضی پر چھوڑ دیا گیا ہے اور فرض کی حیثیت سے باقی نہیں رکھا گیا ہے۔ عیسائیوں میں سب سے بڑا فرقہ رومن کیتھولک ہے جس میں اب روزے کی سخت رسوم باقی نہیں بچی ہیں مگر تصور روزہ باقی ہے۔ کچھ ایساہی حال آرتھو ڈاکس فرقے کا بھی ہے۔ رومن کیتھولک عیسائیوں کے بیچ ’Good Friday‘ اور ’Ash Wednesday‘ کے موقعوں پر روزے رکھنے کا رجحان اب بھی پایا جاتا ہے۔

ہندو مذہب میں بھی روزے کا تصور پایا جاتا ہے۔

اہل علم کاماننا ہے کہ ہندوستان میں بھی انبیاء کی آمد ہوئی ہوگی اور یہاں بھی آسمانی مذاہب یقیناً اترے ہوں گے مگر حقائق وقت کی گرد کی دبیز دہوں میں دبے ہوئے ہیں۔ کسی کو نہیں معلوم کہ اس خطے میں کن انبیاء کی بعثت ہوئی اور کون سی آسمانی کتابیں نازل ہوئیں۔ بھارت میں پرانے زمانے سے ہی روزے کا تصور پایا جاتا ہے جسے عرف عام میں ”ورت“ کہا جاتا ہے۔ ”ورت“ کیوں رکھا جاتا ہے اور اس کے احکام کہاں سے آئے اس بارے میں ٹھیک ٹھیک کچھ نہیں کہاجاسکتا مگر مذہبی اور سماجی روایات چلی آرہی ہیں جن کی پابندی میں یہاں روزہ رکھا جاتا ہے۔

ہندوؤں میں ہر بکرمی مہینہ کی گیارہ بارہ تاریخوں کو ”اکادشی“ کا روزہ ہے۔ اس حساب سے سال میں چوبیس روزے ہوئے۔ ہندو جوگی اور ساھو سنتوں میں بھوکے رہنے کی روایت پرانے زمانے سے چلی آرہی ہے اور وہ تپسیا وگیان، دھیان کے دوران عموماً کھانے سے پرہیز کرتے ہیں۔ حالانکہ ہندوؤں کے ہاں روزے کی حالت میں پھل، سبزی اور دودھ وپانی وغیرہ کی ممانعت نہیں ہے، مگر بعض روزے ایسے بھی ہیں جن میں وہ ان چیزوں کا استعمال بھی نہیں کرسکتے ہیں۔ یہاں خواتین اپنے شوہروں کی درازی عمر کے لئے بھی ورت رکھتی ہیں۔ حالانکہ جین دھرم میں روزہ کی شرائط سخت ہیں، ان کے ہاں چالیس چالیس دن تک کا روزہ ہوتا ہے

بدھ مت مذہب جو کہ چھٹی صدی قبل از مسیح ہندوستان کے شمالی مشرقی حصے میں ہوئی۔ مہاتما بدھ ان کے روحانی پیشوا تھے۔ بدھ ازم میں روزے کو روح کی پاکیزگی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ گوتم بدھ کی برسی کے دن بھی روزہ رکھا جاتا ہے۔ یہ روزے ان کے بخشو (روحانی پیشوا) مکمل جبکہ عوام جزوی روزہ رکھتی یے۔ جزوی روزے میں بس گوشت کھانا منع ہوتا یے۔ عام لوگ ہر ماہ چار روزے رکھتے ہیں۔

جین مت میں بھی روزوں ک تصور ہے۔ اس مذہب کی شروعات آج سے تقریباً پچیس سو پچاس سال پہلے ہندوستان کے علاقے اُتر پردیش میں ہوئی۔ اس کے بانی مہاویر تھے۔ یہ لوگ اپنے مقدس مقامات کی زیارت کے دوران روزہ رکھتے ہیں۔ خاص تہواروں پر بھی روزہ رکھا جاتا ہے جو کہ مہاویر سے نسبت رکھتے ہیں مثلاً مہاویر کی پیدائش کے دن روزہ، جس دن مہاویر نے تیاگ کیا اس دن کا روزہ، جب مہاویر کو الہام حاصل ہو اس دن کا روزہ اور مہاویر کی وفات کے دن کا روزہ۔ ان دنوں میں یہ لوگ گناہوں کی معافی مانگتے ہیں۔

روزے کو اگر سائئنسی نظریات کہ تحت دیکھا جائے تو اس کی انفرادیت اور افادیت بے مثال ہے۔ جاپان کے بائیلوجسٹ Yoshinori Oshumi کو 2016 میں اپنی ریسرچ پہ نوبل پرائز ملا جو کہ Autophegy پر یے۔ Autophegy یونانی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب ایک اصطلاح کے مطابق self to eat ہے۔ اس ریسرچ کے مطابق جب انسان کچھ گھنٹے متواتر بھوکا رہتا ہے تو اس کے جسم کے مردہ سیل ریسائیکل ہو جاتے ہیں۔ یہ عمل باڈی ڈیٹاکس کا کام کرتا ہے۔ اس سے کینسر سیل پیدا نہیں ہوتے، بلڈ پریشر کنٹرول رہنے میں مدد ملتی یے، کولیسٹرول لیول نارمل رہتا ہے اور جسم کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی تقویت ملتی ہے۔

کینیڈا کے مشہور فزیشن ڈاکڑ پیٹر ایٹیا کے مطابق covid۔ 19 سے محفوظ رہنے میں فاسٹنگ کا عمل بہت کارگر ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ اس عمل سے جسم کے وائرس اور بیکٹریا ختم ہونے میں مدد ملتی ہے۔

ڈاکڑ جینسن فنگ نامور نیفروولوجسٹ نے اپنے پانچ ہزار مریضوں کا فاسٹنگ تھیراپی کے ذریعے ان کا کامیاب علاج کیا۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ عمل بہت سی بیماریوں سے نجات دیتا ہے جن میں بلڈ پریشر، شوگر، کولیسٹرول، موٹاپہ اور دیگر بیماریاں شامل ہیں۔

بی بی سی اُردو کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈاکڑ معروف کہتے ہیں کہ روزہ صحت کے لیے اچھا ہے کیونکہ اس سے ہمیں اس بات پہ غور کرنے کا موقع ملتا ہے کہ کیا کھانا کب کھانا ہے۔ اور اگر صیح طریقے سے روزہ رکھا جائے تو ہر روز جسم کی توانائی بحال ہو سکتی ہے۔ جس سے آپ کار آمد پٹھے گھلائے بغیر وزن بھی کم کر سکتے ہیں۔

رمضان کریم کی آمد ہے اور بحیثیت مسلمان میری دعا ہے کہ اللہ پاک یہ رمضان بھی ہر سال کی طرح خیر و برکت کا پیغام لائے اور نہ صرف مسلمان بلکہ تمام انسانوں کے لیے زندگی، صحت، امن و سلامتی کا باعث ہو۔ اور جس طرح ہم حالت روزہ میں گناہوں اور برائیوں سے دور رہتے ہیں پورا سال ان برائیوں سے دور رہنے کی توفیق ہو۔ کیونکہ روزے کا مقصد ہی تزکیہ نفس اور اپنی ذات کا محاسبہ کرنا ہے۔ اور اگر ہم روزہ کے ذریعے سیلف کنٹرول حاصل نہیں کرتے اور اپنی ذات کو جھوٹ، خیانت، نفرت، غصہ اور غیبت جیسی برائیوں سے پاک نہیں کرتے تو ہم نے روزہ رکھ تو لیا مگر اس کے مقصد کو نہ پہچان سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments