لاہور میں سموگ، گلوبل وارمنگ کا چیلنج


حسین جاوید افروز

\"hussain-javed\"ہالی ووڈ کے شہرہ آفاق اداکار ’’لییناڈو ڈی کیپریو ‘‘ سے کون واقف نہیں۔ لیکن یہ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ اداکاری کے ساتھ ان کا ایک تعارف اور بھی ہے کہ وہ ماحولیاتی آلودگی کے خلاف خاصے سرگرم رہے ہیں اور انہیں اسی حوالے سے اقوام متحدہ کا سفیر بھی مقرر کیا گیا ہے۔ Blood diamond, Inception, Shutter Island, The Revenant, Titanic, Gangs of New York جیسی فلموں سے شہرت پانے والے اس باکمال اداکار نے حال ہی میں گلوبل وارمنگ کے چیلنجز سے نمٹنے کے لئے ایک دستاویزی فلم ’’Before the flood ‘‘ میں کام کیا ہے۔ جس میں انہوں نے دو سال کے عرصے کے دوران دنیا کے مختلف خطوں کا دورہ کیا، اعلیٰ ترین شخصیات سے ملاقاتیں کیں اور تحفظ ماحولیات کے لئے اپنی تجاویز دیں۔ آئیے لیینارڈو ڈی کیپریو کے اس سفر کا جائزہ لیں۔

موجودہ صنعتی دور میں فضائی، آبی اور زمینی آلودگی کی بدولت فضا میں بعض گیسوں مثلاََ کاربن ڈائی آکسائیڈ، میتھین، کلورو فلورو کاربن کا تناسب بہت بڑھ چکا ہے۔ ہوا میں ان گیسوں کی موجودگی گرین ہاؤس اثرات پیدا کرتی ہے۔ اسی گرین ہاؤس کے اثرات کی وجہ سے کرہ ارض کے درجہ حرارت میں گوناگوں اضافہ ہو رہا ہے۔ اسے ’’عالمی حدت یعنی گلوبل وارمنگ ‘‘ کہتے ہیں۔ عالمی حدت ہمارے لئے اس وقت سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ اس کی بدولت عالمی سطح پر آب و ہوا میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں جو کہ ہرگز مثبت نہیں۔ ہواؤں اور موسموں کے رخ بدل رہے ہیں۔ کچھ خطوں میں معمول سے زیادہ بارشیں ہوتی ہیں اور بعض خطے خشک سالی سے دوچار ہیں۔ یوں ہر گزرتے دن کے ساتھ زمین پر حالات انسان اور دوسرے جانداروں کے لئے ناموافق ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر اس عالمی حدت کی شدت کے آگے بند نہ باندھا گیا تو آنے والے دور میں تباہ کن سیلاب آئیں گے، برف کے پگھلنے سے سطح سمندر بلند ہوگی اور کئی مخلوقات ناپید ہو جائیں گی۔ سب سے پہلے لیینارڈو ڈی کیپریو دنیا میں ہونے والی بلکہ تیزی سے پھیلنے والی صنعتی ترقی پر کئی ماہرین سے تبادلہ خیال کرتے ہیں۔ ان کے مطابق عالمی حدت کی ایک بڑی وجہ Fossil fuel پر انحصار ہے جو کہ قدرتی گیس، تیل اور کوئلے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ چونکہ یہ سب سے سستا اور آسان وسیلہ ہے اسی لئے اس پر بڑھتا انحصار ہمیں تیزی سے تباہی کی جانب لا رہا ہے۔ اس تیز رفتار دور میں ذرائع آمدورفت کی ترقی، بجلی کی پیداوار، زراعت اور صنعت کی ضروریات پوری کرنے کے لئے درکار توانائی اسی Fossil fuel  سے حاصل ہوتی ہے۔ یوں اس نے ماحول پر مہیب اثرات مرتب کئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ تیزی سے پھیل رہی ہے۔ یہ کاربن ڈائی آکسائیڈ ہماری زمین کے لئے سب سے بڑا خطرہ بن کر ابھری ہے۔ فوسل فیول کے جلنے سے بہت سی گیسیں اور دھواں پیدا ہوتا ہے۔ یوں ماحول میں آلودگی پھیلتی ہے۔ علاوہ ازیں کوئلے اور تیل کی کھدائی کے دوران بہت سی زمین، جنگلات اور جانداروں کی قدرتی آماجگاہیں ضائع ہوجاتی ہیں۔ اس کے بعد لیینارڈو ڈی کیپریو نے دنیا کے مختلف خطوں کا دورہ کیا تاکہ تیزی سے رونماء ہوتی موسمیاتی تبدیلیوں اور عالمی حدت کا مشاہدہ کرسکے۔

سب سے پہلی منزل کینیڈا کے بافن آئی لینڈ تھے جہاں حد نگاہ تک برف زار تھے۔ اور یہاں کے مکینوں کے مطابق برف اب اتنی نہیں پڑ رہی جتنی پہلے وقتوں میں پڑتی تھی۔ اور وہ وقت دور نہیں جب یہاں کا منجمند سمندر بحری ٹریفک کے لئے سود مند ہوجائے گا۔ اگلی منزل گرین لینڈ تھا جو کہ کینیڈا اور یورپ کے درمیان ایک منجمند سرزمین کے طور پر جانا جاتا ہے۔ یہاں بھی گلیشیرز تیزی سے پگھلتے دیکھے گئے اور ان سے تیزی سے پانی سمندر میں گر رہا ہے جس سے مستقبل میں سطح سمندر بلند ہونے کا خدشہ پایا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر گرین لینڈ کا موجودہ درجہ حرارت ہی برقرار رہے جو کہ دس سال سے ایک جگہ پر کھڑا ہے تو گرین لینڈ میں برف ایک بھولی بسری یاد بن کر رہ جائے گی۔ امریکی ریاست فلوریڈا کی داستان غم بھی سن لیں جہاں جنوبی حصے میں اچانک سمندر کی سطح بلند ہوتی ہے اور ریاست کی سڑکیں زیر آب آ جاتی ہیں۔ یاد رہے فلوریڈا کا شمار ان امریکی ریاستوں میں ہوتا ہے جو مستقبل میں سمندر میں غرق ہوسکتی ہیں۔ اب عوامی جمہوریہ چین کی بات ہوجائے جس کو ایک معاشی دیو کی حیثیت حاصل ہے۔ یہاں پچھلی کچھ دہائیوں میں بے مثال صنعتی ترقی ہوئی ہے۔ پچھلے 35 سال سے چین میں اربنائزیشن اور صنعتکاری بڑھی ہے۔ چین دنیا بھر میں کوئلہ جلانے میں نمبر ون ہے اسے دنیا کی فیکٹری بھی کہا جاتا ہے لیکن اس ترقی کی قیمت اب چین کو خطرناک فضائی آلودگی کی صورت میں چکانا پڑ رہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ صرف شین ڈانگ اور بیجنگ کی کوئلہ کھپت سارے امریکہ کی کوئلہ کھپت کے مساوی ہے۔ فضا سموگ سے بھری ہوئی ہے۔ ہر وقت چینی عوام ماسک پہنے خود کو بچانے میں جٹی ہوئی ہے۔ یہی آلودہ ماحول کینسر کا سبب بن رہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق چین کی 9000 سے زائد فیکٹریاں صحت کے معیار پر پوری نہیں اترتی۔ لیکن چینی حکومت نے اب انرجی کے متبادل ذرائع پر بھی کام شروع کیا ہے اور وہاں اب ونڈ اور سولر انرجی پر جنگی بنیادوں پر کام جاری ہے۔

اب کچھ بھارت کی بات ہوجائے جو کہ چین کے بعد دنیا کی ایک بڑی معاشی قوت کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ بھارت بھی عالمی حدت سے متاثر ہوا ہے۔ پنجاب سے دلّی اور اتر پردیش تک فضا نہایت آلودہ اور زہریلی ہوچکی ہے۔ آج بھی بھارت میں غریب گھرانے اپلوں کو ایندھن کے طور پر استعمال کرنے پر مجبور ہیں 30 فیصد بھارتی عوام بجلی تک رسائی نہیں رکھتے۔ بھارتی ماہرین کے مطابق ابھی تو اپلوں کے ذریعے گزارا کیا جاتا ہے۔ سوچیں یہی آبادی اگر فوسل فیول کو استعمال کرنے لگے تو تصور کریں یہ بحران کہاں تک جائے گا ؟ بھارت میں ہریانہ کی ریاست میں کئی ایسے زرعی علاقے ہیں جہاں پانچ گھنٹے میں سارے سال کی بارش ہوجاتی ہے اور باقی سال کسان بارش کے انتظار میں گزارتا ہے۔

یہ سارا قصور امریکہ کا ہے جو عالمی طور پر متبادل انرجی کا حامی ہے مگر عملاََ کچھ کرنے کو تیار نہیں۔ امریکہ اب لیکچر نہ دے خود مثال بنے۔ ایک امریکی شہری 61 افریقی، 34 بھارتی، اور 10 چینیوں کے برابر بجلی استعمال کرتا ہے۔ چین متبادل ذرائع توانائی استعمال کرنے میں امریکی سے عملی طور پر بہت آگے نکل چکا ہے۔ امریکہ بذات خود دنیا میں سب سے زیادہ فوسل فیول استعمال کرتا ہے۔ ہمیں سمجھنا ہوگا کہ ماحولیاتی آلودگی ایک تلخ حقیقت ہے اور یہی سچائی ہے۔ اسے اب خیال یا تصور سمجھنا ایک فاش غلطی ہوگا۔ کری باٹی، بحر الکاہل کا ایک چھوٹا سا جزیرہ ہے جو گزرتے دن کے ساتھ سمندری طوفان کے غضب کا شکار ہوتا رہتا ہے اب حالت یہ ہے کہ اس کے کئی ساحل غیر آباد ہوچکے ہیں۔ آبی حیات بھی شدید خطرات سے دوچار ہیں۔ کئی مچھلیوں کی نسل معدوم ہوتی جارہی ہے اور سمندری نباتات جن میں coral نمایاں ہے تیزی سے ختم ہوتا جا رہا ہے۔

آخر میں انڈونیشیا میں سماٹرا کے رین فارسٹ کی سن لیں جہاں حکومت کمپنیوں کو پام آئل کی کاشت کے لئے دھڑا دھڑ پرمٹ دے رہی ہے اور جنگل کے جنگل کاٹے جارہے ہیں۔ یہ وہ قدرتی ماحول تھا جہاں آج بھی ایک ہی جگہ ہاتھی، گینڈے اور ٹائیگر پائے جاتے ہیں لیکن اس قدرتی ماحول کو پام آئل کے ذریعے پیسے کمانے کے چکر میں جبراََ قصہ پارینہ بنایا جا رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں خطرناک حد تک یہاں کاربن کا اخراج ماحول کو خاکستر کر رہا ہے۔ اس سب کے بعد اب ہم کہاں کھڑے ہیں اور عالمی ضمیر کب تک سویا رہے گا۔ لیینارڈو ڈی کیپریو کے مطابق ہمیں کاربن ٹیکس کی جانب جانا ہوگا۔ بھلے اس بارے امریکی سیاست میں تقسیم موجود ہے۔ ہمیں سگریٹ مہنگے کرنے ہوں گے۔ ساتھ ساتھ ہمیں اور خصوصاََ امریکہ کو توانائی کے متبادل ذرائع کی جانب پیش قدمی کرنا ہوگی۔ اس وقت ڈنمارک 100 فیصد بجلی ونڈ انرجی سے حاصل کرتا ہے۔ جرمنی میں 30 فیصد بجلی سولر سے لی جا رہی ہے۔ متبادل ذرائع توانائی سستا ترین ذریعہ ہے جو کہ ماحول دوست بھی ہے۔ سویڈن کو ہی دیکھ لیں جو کہ جلد اعلان کرنے والا ہے کہ ہم دنیا کے پہلے fossil fuel free  ملک ہوں گے۔ ماحولیات سے متعلق کوئی معاہدہ اس وقت تک کامیاب نہیں ہوگا جب تک کاربن ٹیکس کا نفاذ نہیں ہوتا اور جنگی بنیادوں پر توانائی کے متبادل ذرائع پر منتقلی نہ کی جائے۔ امریکی ریاستوں اوکلوہاما، کیلیفورنیا، براعظم افریقہ کے بیشتر ممالک سے مشرق وسطیٰ اور یہاں سے بھارت تک کے کئی علاقے مستقبل میں شدید قحط کا شکار ہوسکتے ہیں۔ لیینارڈو ڈی کیپریو کی بات کچھ یوں ختم ہوتی ہے کہ میں نے اسی دنیا کو جنت کی نظر سے دیکھا جو اب ہماری ہی کرتوتوں کے باعث جہنم بننے جا رہی ہے۔ اس زمین نے ہمیں کیا کچھ نہیں دیا اور ایک ہم ہیں جو اس زمین کو تباہ کرنے پرتلے ہوئے ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں ہم پاکستانیوں کے لئے بھی کئی سبق پوشیدہ ہیں۔ ہمارا ہمالیہ بھی گرم ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری ساحلی علاقوں پر آباد مینگروز کے جنگلات بھی ہماری عدم توجہی کے سبب غائب ہوتے جا رہے ہیں۔ ہماری ٹھٹھہ کی زمین تیزی سے سمندر برد ہوتی جا رہی ہے۔ آج کل لاہور شہر اور پنجاب کے بیشتر علاقے شدید دھند نما ’’سموگ‘‘ کے نشانے پر ہیں جس کی وجہ ٹریفک جام، صنعت کاری اور بھارتی فصلوں کو نذر آتش کرنا بتائی جا رہی ہے۔ لیکن ایسے میں ہماری وزارت ماحولیات کی پالیسی کیسی ہے، کچھ ہے بھی یا نہیں؟ اس سوال کا جواب کوئی دے تو بات بنے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments