بلاول بھٹو اور اکرام اللہ نیازی کے بیچ گم گشتہ اصل کہانی


\"hashir\"اخلاقی اقدار کے محافظ وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں اجتماعی دانش کا امین سمجھا جاتا ہے۔ ایک زوال پزیر معاشرے کی ایک اہم نشانی یہ ہے کہ اقدار ایک آفاقی اصول سے ہٹ کر مشروط بیانیے میں ڈھلنا شروع کر دیتی ہیں۔ جرم کے جواز تراشے جاتے ہیں۔ غلط کاریوں کو خوشنما لبادے پہنائے جاتے ہیں۔ قانون کی بھول بھلیوں کے موڑ تاریک ہوتے چلے جاتے ہیں جن میں انصاف کے متلاشی سرگرداں بھٹکتے رہتے ہیں۔ دلیل کی جگہ طنز اور شہادت کی جگہ قیاس کو ملتی ہے اور قبولیت عام کی سند بھی پاتی ہے۔ اس سب کے بیچ دانشور اپنی نیا کو لہروں کے مخالف کھیتا ہے کہ کہیں سب نشیب کی جانب بہتے پانی کی نذر نہ ہو جائیں۔

پر کیا کہیں اس آشوب کو جس میں دانش کی آنکھوں پر بھی پٹی بندھ جائے۔ چپو چھوڑ کر بادبان چڑھا دیے جائیں کہ جس سمت ہوا لے چلے سو چلے۔ ساحل کی طرف پیٹھ کر لی جائے اور کھارے پانی کو آب حیات سمجھ لیا جائے۔

کل سے نو وارد کوچہ سیاست، عالی حضرت، ظل اللہ فی الارض، پسر شہنشاہ، اقلیم ولایت پاکستان براہ نسب جناب بلاول بھٹو زرداری کا ایک پھڑکتا بیان زینت کوچہ صحافت ہے۔ یار دوست اوندھے ہوئے جاتے ہیں۔ کوئی طنز کی کاٹ کا کشتہ بنا پھر رہا ہے کوئی فقرے کی گہرائی ناپتا پھر رہا ہے۔ ادھر ایک تالیاں پیٹ رہا ہے ادھر ایک دف بجا رہا ہے۔ کسی کو لگتا ہے کہ رن تو اب کانپا ہے کوئی دن میں وہ تارے چمکا رہا ہے جو حریفوں کو نظر آئے ہیں۔ کوئی سیاست کے اسلوب میں شہزادہ عالی مقام کی گریجویشن کی ٹوپی اچھالتا پھر رہا ہے۔

جناب طاہر القادری نے اناللہ پڑھا تھا، ہمارا لاحول ولا قوۃ کے ورد کا دل ہے۔ بیان بازوں کو چھوڑیں کہ برسوں سے وہ اسی طرز کے اسیر ہیں پر ساکنان کوچہ دانش پہ کیا گزری۔ شہر مدفون پر وقت گزرے تو پہچاننے میں نہیں آتا۔ یہ کس راکھ میں دفن ہیں کہ صدائے بوم کو نغمہ بلبل گردانتے ہیں۔

جناب عمران خان کی لاف زنی کی کون کمبخت تعریف کر سکتا ہے۔ ان کی زبان ان کی سب سے بڑی دشمن ہے۔ وہ بولتے پہلے ہیں اور تولتے بعد میں بھی نہیں ہیں۔ مخالفین پر کوڑے برساتے وہ بھول جاتے ہیں کہ اگر مشق بہم نہ ہو تو کوڑے اچٹ بھی جاتے ہیں اور اپنا ہی چہرہ پر نور ںشان زد ہو جاتا ہے۔ میاں صاحبان اور جناب زرداری ان کے سیاسی حریف ہونے کے ناتے ان کے نشانے پر رہے ہیں۔ بدعنوانی اور لا قانونیت کی داستانیں کنٹینروں پر سے بیان ہوتی رہیں تاہم ان کی حیثیت کبھی بھی ایسے سیاسی بیان سے زیادہ نہیں تھی جس کی شاید واقعاتی شہادت بھی مہیا کرنا ناممکن ہوتا ہے۔ پر یہی کوئے سیاست کا چلن ہے۔ ہم ہوئے تم ہوئے کہ میر ہوئے۔

بلاول میاں اس کھیل میں اپنے زور پر نہیں اترے۔ ایک اٹھائیس سالہ جوان کو شاید کوئی سیدھے منہ پوچھتا بھی نہ اگر نام کے ساتھ کچھ زور زبردستی کے لاحقے نہ ہوتے۔ کچھ نسبی عصبیت پلے نہ ہوتی اور پچھلی نسلوں کے خون میں رنگی چادر کندھے پر نہ ہوتی۔ جب دوسروں کے کندھوں پر چڑھ کر ہجوم سے قد الگ ہوتا ہے تو سوال کندھوں پر بھی اٹھتا ہے۔ ان کے والد محض ان کے والد نہیں ان کے سیاسی اور انتظامی شریک بھی ہیں اور ان کی سیاسی میراث کے کئی برس کل وقتی نگران بھی رہے۔ اسی سیاسی میراث کے سر پر وہ کل ملک کے حکمران تھے اور آج بھی کم ازکم ایک صوبے کی ڈگڈگی ان کے ہاتھوں میں پہلو بدلتی ہے۔ ان کے بارے میں بات بھی اسی حوالے سے ہو گی، سوال بھی اسی حوالے سے اٹھیں گے اور احتساب کا سوال بھی اسی حوالے سے ہو گا۔ اگر آصف زرداری محض بے نظیر بھٹو مرحومہ کے شوہر ہوتے تو کون ان پر بات کرتا۔ کیا کوئی صنم بھٹو کے بارے میں بات کرتا ہے؟ اور اگر کوئی کرتا ہے تو غلط کرتا ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کون لکھتا ہے، معلوم نہیں پر ایسی تقریریں انہیں اسی بند گلی میں دھکیل دیں گی جہاں عمران خان نے اپنا آشیانہ تعمیر کر رکھا ہے۔ میں اس بات کا قائل ہوں کہ سیاست دان کی ذاتی زندگی بڑی حد تک عوامی تنقید اور احتساب سے آزاد نہیں ہوتی اور یہاں تک نہیں بلکہ ان کے قرب وجوار کے وہ تمام لوگ جو کسی بہانے ان کی سیاست کے ثمرات سمیٹتے ہیں وہ بھی سوال سے مبرا نہیں ہو سکتے۔ پر ہر سیاست دان رشتوں، قرابت داریوں اور دوستیوں کی زنجیر سے جڑا ایک انسان بھی ہے اور زنجیر کی کڑیوں میں بہت سی ایسی ہیں جو اس کی عوامی اور سیاسی زندگی سے الگ ہیں۔ اگر سب کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کی روایت پھر زندہ کر دی گئی تو گردش ایام اسی تعفن زدہ جوہڑ میں غرق ہو جائے گی جس کے برگ و بار ہم نوے کی دہائی میں دیکھ چکے ہیں۔ جب ہیلی کاپٹروں سے فحش تصاویر برستی تھیں۔ نسب اور ولدیت کی جگت اعلیٰ ترین قیادت کی نوک زبان پر دھری رہتی تھی۔ بازار میں روز نیا سکینڈل بکتا تھا۔ اور آخر دم پہاڑ زمین ہو گیا پر چوہا پھر بھی نہ نکلا۔ ہاں، صحافت کے صفحے زرد ہو گئے، سفلہ ذہنوں کو سیاہ سرگوشیاں مل گئیں اور عزتیں منڈی کے فٹ پاتھ پر ارزاں فروخت ہونے لگ گئیں۔

اکرام اللہ نیازی کون ہیں، کیا ہیں اور کیا کرتے رہے۔ یہ بات قابل بحث ٹھہرتی اگر تحریک انصاف سے ان کا کوئی واسطہ متعین ہو جاتا۔ اگر خان صاحب کی سیاست سے ان کے مفاد کی کوئی داستان جڑی ہوتی۔ اگر وہ فیصلہ سازی کی کسی مجلس کے میر نہ سہی، سامع ہی ہوتے۔ پر اگر ایسا کچھ نہیں ہے تو پھر یہ پرانے شہر کی پڑوسنوں سے کوسنے چہ معنی۔

اچھا چلیں مان لیا کہ دال دو رنگی ہے۔ چلیں مان لیا کہ ان کے نام کے ساتھ کوئی خفیہ داستانیں جڑی ہیں۔ چلیں یہ بھی مان لیا کہ وہ اسی قبیل سے ہیں جس سے اشرافیہ کی اکثریت کا تعلق ہے۔ یہ بھی مان لیا کہ ان پر الزام سنگین بھی تھے اور چشم کشا بھی۔۔۔

اب آگے چلیے۔ کیا یہ اخلاق اجتماعی کا جنازہ نہیں جہاں تہمت کا جواب تہمت ہے۔ سوال کا جواب سوال ہے۔ الزام کا دفاع الزام ہے۔ جہاں اصرار اس پر نہیں کہ میں معصوم ہوں بلکہ اس پر ہے کہ تم زیادہ بڑے گنہگار ہو۔ یہ کون سی اقدار ہیں جہاں پانامہ پر آواز اٹھانے والے کو یہ کہہ کر چپ کرایا جائے کہ ابے اپنا سرے محل بھول گئے۔ اوئے تیری آف شور کمپنی بھی تو ہے۔ جہاں ہر غلط کاری کا جواز دوسرے کی غلط کاری میں ڈھونڈا جائے۔ جب بلاول اکرام اللہ نیازی پر انگلی اٹھاتے ہیں تو بالواسطہ وہ اس بات کے معترف ہوتے ہیں کہ اگر کہانی ان کے والد کے بارے میں ہے تو کہانی معترض کے والد کے بارے میں بھی ہے۔ اب اس سے ثابت ہوا کہ اعتراض صحت الزام پر نہیں ہے بلکہ اس پر ہے کہ تم خود گناہ گار ہو کر ہم پر پتھر کیوں اچھالتے ہو۔ ایک ہی حمام میں ستر پوشی کا مطالبہ کیوں کرتے ہو۔

یہ کیسا جنگل ہے جہاں کو کسی کو بھی دعویٰ پارسائی نہیں ہے۔ لڑائی بس اس بات پر چھڑتی ہے اور زور بیان بس اس پر صرف ہوتا ہے کہ ہمارے گناہ کا عذر تمہارے گناہ کے ذکر سے پاک ہو جاتا ہے۔ اور قوم کی دانش کے امین اخلاقی اقدار کے جنازے کے آگے بھنگڑے اور لڈیاں ڈالتے ہیں کہ دیکھا کیسا دیا!

حضور، سوال کو یوں اپنی موت نہ مرنے دیں۔ پانامہ پر سوال الگ ہے۔ اس کا جواب نیازی سروسز لمیٹڈ اور سرے محل سے برآمد نہیں ہو گا۔ محترمہ فریال تالپور اور اویس ٹپی کے اختیارات کے استعمال کو مریم نواز کی آف شور کمپنی کے ملبے تلے دفن نہیں کر سکتے۔ شوکت خانم کے حسابات کا کُھرا کوٹیکنا کے گوشواروں میں نہیں ڈھونڈا جائے گا۔

شکوہ الزام اور عذر لنگ تراشنے والوں سے نہیں کہ ان کے پاس شاید کوئی اور راستہ نہیں۔ اصل شکوہ تو ان سے ہے جو اخلاق، اقدار اور دیانت کا علم اٹھائے رکھنے اور سچ، حق اور جستجو کا چراغ جلائے رکھنے کے سزاوار تھے۔ ان کی تو وہ جانیں پر ہم اب کس زبان سے شکوہ ظلمت شب کریں اور کس سے کریں۔ اس سب کے بیچ بہت کچھ ایسا کھو گیا ہے جو بہت قیمتی تھا۔

حاشر ابن ارشاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حاشر ابن ارشاد

حاشر ابن ارشاد کو سوچنے کا مرض ہے۔ تاہم عمل سے پرہیز برتتے ہیں۔ کتاب، موسیقی، فلم اور بحث کے شوقین ہیں اور اس میں کسی خاص معیار کا لحاظ نہیں رکھتے۔ ان کا من پسند مشغلہ اس بات کی کھوج کرنا ہے کہ زندگی ان سے اور زندگی سے وہ آخر چاہتے کیا ہیں۔ تادم تحریر کھوج جاری ہے۔

hashir-irshad has 183 posts and counting.See all posts by hashir-irshad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments