مودی حکومت کا آمرانہ اور غیر جمہوری اقدام


\"edit\"بھارتی حکومت نے ملک کے چند قابل اعتبار اداروں میں شامل این ڈی ٹی وی NDTV کی ہندی نشریات کو 9 سے 10 نومبر تک چوبیس گھنٹے کے لئے بند کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس مقصد کے لئے کسی عدالت یا میڈیا تنظیم کے ذریعے فیصلہ کروانے کی بجائے حکومت نے خود یہ فیصلہ کرکے اسے نافذ کرنے کا حکم دیا ہے۔ این ڈی ٹی وی کی انتظامیہ اس فیصلہ کے خلاف ہر قسم کے اقدامات پر غور کررہی ہے تاہم ملک کی اپوزیشن اور میڈیا تنظیموں نے نریندر مودی سرکار کے اس فیصلہ کو آمرانہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک کی جمہوری روایات کو تباہ کرنے کے مترادف ہے۔ بھارت کی نیوز براڈ کاسٹنگ ایسوسی ایشن اور ایڈیٹرز گلڈ نے بھی اس سرکاری حکم کو مسترد کرتے ہوئے اسے آزادی رائے اور آزادی صحافت کے خلاف قرار دیا ہے ۔ ان تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح حکومت عوام کو معلومات کے حق سے محروم کررہی ہے۔

بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرتا ہے لیکن اس کی طرف سے سیاسی بنیادوں پر ایک اہم اور خود مختار نیوز چینل کی نشریات کو ایک روز کے لئے بند کرنے کا فیصلہ اس کے غیر جمہوری اور جارحانہ طرز حکومت کی نشاندہی کرتا ہے۔ این ڈی ٹی وی کے خلاف یہ سرکاری حکم نامہ مقبوضہ کشمیر میں بھارت سیکورٹی فورسز کی غیر انسانی کارروائیوں اور پاکستان کے خلاف جنگ کی صورت حال کے تناظر میں سامنے آیا ہے۔ بھارتی حکومت قومی میڈیا کو پاکستان کے خلاف پروپیگنڈا کرنے کے لئے استعمال کرتی ہے اور ملک کا بیشتر الیکٹرانک میڈیا حکومت کی خواہش کے مطابق پاکستان کے خلاف جھوٹی اور نفرت انگیز خبریں نشر کرکے ہیجان اور قومی تعصب کو ہوا دینے کی کوشش کررہا ہے۔ ایسے ماحول میں الیکٹرانک میڈیا میں بہت کم ادارے خودمختارانہ طور سے متوازن رپورٹنگ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ این ڈی ٹی وی کا نام ان چند اداروں میں شامل ہے۔ اس ٹیلی ویژن چینل کو سزا دینے کے لئے نریندر مودی کی حکومت نے اس سال جنوری میں پٹھان کوٹ ائیر بیس پر دہشت گرد حملہ کے بعد سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران غیر ذمہ دارانہ لائیو کوریج کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے ایک روز کے لئے این ڈی ٹی وی کو اپنی نشریات بند کرنے کا حکم دیا ہے۔

حکومت کا مؤقف ہے کہ اس نیوز چینل نے دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کو لائیو ٹیلی کاسٹ کرکے قومی مفاد، خود مختاری، سالمیت اور سلامتی کے خلاف اقدام کیا تھا۔ بھارت کے بعض ممتاز قانون دانوں نے واضح کیا ہے کہ قانون کی جس شق کا حوالہ دے کر یہ پابندی لگائی گئی ہے ، اس کے تحت سیکورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران ان کی اجازت کے بغیر لائیو کوریج کی ممانعت ہے۔ لیکن این ڈی ٹی وی نے اس قانون کی خلاف ورزی نہیں کی، کیوں کہ چینل نے اس کارروائی کے دوران اپنے رپورٹروں کے ذریعے معلومات ناظرین تک پہنچائی تھیں اور سیکورٹی فورسز کی سرگرمیوں اور کارروائی کو اسکرین پر نہیں دکھایا گیا تھا۔ اس لئے اس قانون کا اطلاق کرنا ناجائز اور قانون کی منشا کے خلاف ہے۔

بھارت میں مقبوضہ کشمیر میں آزادی کی موجودہ تحریک شروع ہونے اور ستمبر میں اوڑی فوجی اڈے پر دہشت گرد حملہ کے بعد نئی دہلی حکومت نے بد حواس ہو کرپاکستان اور کشمیری عوام کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا مہم شروع کررکھی ہے۔ اس کی خواہش ہے کہ مین اسٹریم میڈیا اس منفی ، نفرت اور تعصب پر مبنی جھوٹے پروپیگنڈے میں اس کا ساتھ دے۔ بھارتی حکومت اس مقصد میں بڑی حد تک کامیاب بھی ہے ۔ اگرچہ بھارت کا متبادل میڈیا کسی حد تک متوازن بات کرنے اور نفرت کا ماحول ختم کرنے اور صورت حال کو بہتر بنانے کی بات کرتا ہے ۔ لیکن بھارت کے سارے اہم ٹیلی ویژن چینل اور اخبار حکومت کی خواہشات کے مطابق اس وقت سرکاری آلہ کار بن چکے ہیں۔ این ڈی ٹی وی ان نشریاتی اداروں میں شامل ہے جو کسی حد تک خود مختاری برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔ تاہم بھارت کو جھوٹ اور نفرت کی سرکاری مہم کے دوران کسی قسم کی خودمختاری اور صحافتی آزادی کا اظہار قبول نہیں ہے۔

بھارتی سرکار کی اس جارحانہ اور غیر جمہوری حکمت عملی اور این ڈی ٹی وی کی نشریات پر ایک روزہ پابندی کے خلاف ملک کے اہم اپوزیشن رہنماؤں نے بھی شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔ کانگرس پارٹی کے راہول گاندھی، ترینامول کانگرس پارٹی کی ممتا بینر جی اور عام آدمی پارٹی کے اروند کیجر وال نے مودی سرکار کے اقدام کو مسترد کرتے ہوئے اسے جمہوریت اور آزادی صحافت کے خلاف قرار دیا ہے۔ اروند کیجر وال جو نئی دہلی کے وزیر اعلیٰ بھی ہیں ، نے مشورہ دیا ہے کہ ملک کے تمام نشریاتی اداروں کو 9 نومبر کو این ڈی ٹی وی کے ساتھ اظہار یکجہتی اور حکومت کے جابرانہ اقدام کو مسترد کرنے کے لئے اپنی نشریات بند کرنی چاہئیں۔ اسی طرح اس روز ملک میں کوئی اخبار بھی شائع نہ کیا جائے تاکہ حکومت کے خلاف مؤثر احتجاج سامنے آسکے۔

بھارتی حکومت اور حکمران بی جے پی پارٹی کے رہنما سرکاری فیصلہ کی حمایت کررہے ہیں۔ وزیر اطلاعات و نشریات ونکیاہ نائیڈو نے کہا ہے کہ یہ کوئی نیا فیصلہ نہیں ہے ۔ ملک میں 2005 سے 2014 کے درمیان اکیس مرتبہ مختلف چینلز کی نشریات کو قانون کی خلاف ورزی کرنے پر ایک روز سے لے کر ساٹھ روز کے لئے بند کیا گیا تھا۔ لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ ان میں ذیادہ تر معاملات فحش فلمیں دکھانے سے متعلق تھے۔ بھارتی وزیر اطلاعات کا یہ بھی دعویٰ ہے کہ 2008 میں ممبئی حملوں کے بعد مختلف کمیٹیوں نے جو سفارشات مرتب کی تھیں ان میں بھی دہشت گردی کے خلاف فوجی ایکشن کی لائیو کوریج کو روکنے کی بات کی گئی ہے۔ لیکن ان کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں ہے کہ وہ کس طرح این ڈی ٹی وی کی نشریات کو لائیو قرار دینے پر مصر ہیں حالانکہ وہ صرف لائیو رپورٹنگ تھی۔ لیکن قومی مفاد ایک ایسا ہتھکنڈہ جس کی بنیاد پر بھارتی حکومت اس وقت اہم جمہوری اصولوں کو روندنے پر آمادہ دکھائی دیتی ہے۔

اس فیصلہ سے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہونے کا دعویٰ کرنے والے ملک کی انتہا پسند حکومت کا اصلی چہرہ دنیا کے سامنے عیاں ہؤا ہے۔ کسی حکومت کو صحافتی ذمہ داریاں ادا کرنے کے عمل میں مداخلت کرنے اور سرکار کی ہدایات نہ ماننے والے میڈیا کو سزا دینے کا اختیار نہیں دیا جا سکتا۔ اس موقع پر دنیا بھر کے صحافی اور آزادی و جمہوریت کی جد و جہد کرنے والے لوگ این ڈی ٹی وی کے خلاف بھارتی حکومت کے ناجائز اور جابرانہ اقدام کر مسترد کریں گے۔ اس جبر کا مقابلہ کرنے کے لئے بھارتی صحافتی تنظیمیں اور این ڈی ٹی وی کی انتظامیہ جو بھی اقدام کرے اسے عالمی حمایت اور ہمدردی حاصل ہونی چاہئے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2749 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments