خلافت ، جمہوریت ، مذہب اور سیکولر ازم (2)


\"farnood01\"بات کو اسی خلافت راشدہ کے تناظر میں آگے بڑھا لیتے ہیں، جس کا نام لے لے کر جمہوریت پر تبریٰ کیا جاتا ہے۔ بس یونہی دل چاہا کہ گفتگو کا آغاز حضرت عمرؓ کے اس جملے سے کیا جائے جو ایک مقدمے کے دوران انہوں نے مصر کے گورنر سے کہا تھا۔ گرج کر کہا، ”انسان کو اس کی ماں نے آزاد جنا ہے تم لوگ کب سے اسے غلام رکھنے لگے ہو؟“

یہی جملہ پھر روسو نے نئی دنیا کے فرسودہ ذہن کا ماتم کرتے ہوئے کہا۔ روسو کی کتاب ”سوشل کنٹریکٹ“ کو جمہوریت کی بائبل کہا جاتا ہے۔ کتاب کا آغاز ہی اس جملے سے کرتے ہیں

”انسان آزاد پیدا ہوا تھا مگر جہاں دیکھو غلامی کی زنجیروں میں ہے“

یہ اتنی بھی حیران کن بات نہیں ۔ مفکر اسی کو کہتے ہیں جو بدلتے حالات میں جینے کے لئے معا شرت کے نئے زاوئیوں پہ غور کرے۔ اسی لئے  حالات وواقعات کے فرق کے ساتھ ہر دور کے مفکر کی فکر کا محور انسانیت ہی ہوتا ہے۔ حضرت عمرؓ اور روسو کو چھوڑیئے آپ اٹھارویں صدی قبل مسیح میں قدیم بابل کے تخت پہ بیٹھے ایک مدبر حکمران حمورابی کا آئین اٹھا کر دیکھ لیجیئے یا پھر پانچویں صدی قبلِ مسیح کے عظیم مفکر کنفیوشس کی تعلیمات اٹھا کر دیکھ لیجیئے، آپ کو یہ سب عمرانیات کے باب میں ایک ہی انداز وادا کے ساتھ سوچتے ہوئے نظر آئیں گے۔ قدیم زمانوں سے کہا جاتا ہے کہ ’ عظیم انسان ہمیشہ ایک ہی طرح سوچتے ہیں‘

حضرت عمرؓ کو خدشہ تھا کہ میرے بعد سربراہ مملکت کے چنائو میں غیر معمولی تنازع پیدا ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے حضرت عمرؓ جب کبھی فکر مند ہوتے تو کہتے

”حضرت ابو عبیدہؓ اور حضرت سالمؓ ہی دو ایسے نام ہیں جن پر اکثریت کا اتفاق ممکن تھا مگر کیا کیجئے کہ وہ بھی گزر گئے ہیں“۔

 حضرت عمرؓ کا بجا طور پہ یہ خیال تھا کہ لوگوں کے بیچ اگر تنازع پیدا ہوا تو وہ حضرت علی، ؓ حضرت عثمانؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ ، حضرت طلحہؓ ، حضرت زبیر ِ ؓاور حضرت سعد ابن ابی وقاص ؓکے معاملے میں ہوگا۔ کیونکہ ووٹرز کی رائے انہی چھ رہنمائوں کے گرد گھومتی ہے۔ ووٹرز کی رائے انہی چھ کے گرد گھو منے کا ایک سبب تو یہ تھا کہ قریش کے اقتدار کو اکثریت تسلیم کرتی تھی اور دوسرا یہ کہ یہ چھ نام عشرہ مبشرہ میں شامل تھے۔ تنازعے کا امکان ختم کرنے کے لئے حضرت عمرؓ نے چھ کے چھ رہنمائوں کو اگلے انتخاب کے لئے نامزد کرکے بال انہی کے کورٹ میں پھینک دی۔ حکم دیا کہ

’آپ چھ افراد ایک شخص پر اتفاق کر کے اٹھیں گے‘

برسبیل تذکرہ بتاتا چلوں کہ حضرت سعید بن زیدؓ بھی عشرہ مبشرہ میں شامل تھے مگر چونکہ وہ حضرت عمرؓکے بہنوئی تھے اس لئے  انہیں مقابلے سے باہر رکھا۔ چھ افراد کی کمیٹی میں مبصر کے طور پر ایک ساتویں شخصیت کو بھی رکھا گیا تھا۔ یہ شخصیت عبداللہ ابن عمر تھی، جنہیں ووٹ دینے کا حق نہیں تھا۔

 نامزد ہونے والے چھ رہنمائوں میں سے ایک عبدالرحمن ابن عوفؓ ہی ایسی شخصیت ہیں جو صلح جوئی معاملہ فہمی اور غیر جانبداری میں شہرت رکھتی ہے۔ نامزد ارکان کا اجلاس شروع ہوا تو کسی بھی رکن کو کچھ سجھائی نہیں دیا کہ معاملے کا آغاز کہاں سے اور کس طرح سے کیا جائے۔ صورت حال کو بھانپتے ہوئے عبدالرحمن ابن عوفؓ نے کہا کہ کیا میں آسانی کے لئے ایک تجویز پیش کروں؟ سب نے فورا حامی بھری تو آپ نے کہا کہ ’ہم چھ امیدوار ہیں۔ بہتر یہ ہوگا کہ پہلے ہم میں سے تین امیدوار باقی کے تین امیدواروں کے حق میں بیٹھ جائیں۔ امیدواروں کے کم ہوجانے سے بقیہ تین کے بیچ فیصلہ آسان ہوجائے گا‘

یہ تجویز پسند کی گئی چنانچہ حضرت علیؓ ، حضرت عثمانؓ اور حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ کے حق میں بقیہ تین امیدواروں نے کاغذات نامزدگی واپس لے لئے ۔ حضرت عبدالرحمن بن عوفؓ نے کہا

”انتخاب کے اس معاملے کو مزید آسان کرنے کے لئے میں حضرت علیؓ اور حضرت عثمانؓ کے حق میں دستبردار ہوتا ہوں“

معاملہ تو جناب آسان ہوگیا، مگر اب آگے کیا کیا جائے؟ حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ نے کہا کہ کیا میں ایک تجویز اور دوں؟ معاملے کو حل کی طرف جاتا دیکھ کر کون تجویز دینے سے روک سکتا تھا۔ سب ہمہ تن گوش ہوئے تو ابن عوفؓ نے کہا

’آپ تمام صاحبان اگر مناسب جانیں تو مجھے رہ جانے والے دو امیدواروں کے بیچ فیصلے کے لئے ثالث مان لیں‘

پانچ کے پانچ ارکان نے ابنِ عوفؓ کو ثالث قبول کرلیا۔ اب عبدالرحمن ابن عوفؓ دونوں امیدواروں کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا

’آپ دونوں حضرات مجھے وقت اور اجازت دیجئے کہ میں لوگوں میں جائوں اور آپ دونوں کے بارے میں ان کی رائے جان کر کوئی فیصلہ کرسکوں‘

 دونوں امیدواروں نے عبدالرحمن ابن عوفؓ کو چیف الیکشن کمشنر کے طور پہ قبول کر لیا۔ ابنِ عوفؓ نے دستبردار ہونے والے راہنمائوں اور مبصر کے طور پہ موجود عبداللہ ابن عمرؓ کو پریزائڈنگ آفیسرز کے طور پہ ساتھ لیا اور لوگوں میں نکل گئے۔ مختلف قبائلی عمائدین اور راہنماو ¿ں سے مل کر دونوں امیدواروں کے متعلق رائے طلب کی۔ اس بات سے ہر کس و ناکس واقف ہے کہ حضرت عبدالرحمن ابن عوفؓ نے حج سے واپس آتے ہوئے قافلوں کا باقاعدہ انتظار کیا۔ قافلے آتے گئے اور آپ ان کی رائے جانتے گئے۔ عبدا لرحمن ابن عوف نے اکثریت کی رائے لے کر فیصلہ اپنے پاس محفوظ کرلیا۔ باقی رہنمائوں سے مشاورت کر کے کچھ ہی دن بعد صبح کی نماز میں دستیاب رہنمائوں کو گواہی کے لئے طلب کر لیا۔ بعد نمازفجر عبادلرحمن ابن عوفؓ نے نتائج کے اعلان کے لئے ایک مختصر خطبہ دیا۔ اس خطبے میں حضرت علیؓ کو باقاعدہ مخاطب کر کے کہا

”علی۔! میں لوگوں میں گیا ہوں ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے، میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اکثریت کی رائے حضرت عثمانؓ کے ساتھ ہے۔ میں التجا کرتا ہوں کہ میرے حوالے سے کسی بدگمانی کو دل میں جگہ مت دیجئے گا“

اتنی بات سن کر حضرت علیؓ آگے بڑھے اور حضرت عثمانؓ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ فورا ہی ابن عوفؓ نے بھی بیعت کر لی اور انتخابات کا معاملہ بحسن خوبی مرحلہ وار انجام کو پہنچا۔

 یہاں میں تاریخ کے تناظر میں ایک تجزیہ کرنا چاہتا ہوںجو میں غلطی کے احتمال کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔ مجھے اس پر اصرار نہیں، کوئی بھی اسے اپنے فہم کی بنیاد پر مسترد کرسکتا ہے۔

حضرت عثمانؓ کی نسبت حضرت علیؓ کی افتاد طبع زیادہ سیاسی تھی۔ اسی لئے  حضرت علیؓ کو خود پر اعتماد تھا کہ ریاست کا نظم چلانے کے لئے وہ ایک بہتر انتخاب ہوسکتے ہیں۔ یہ اعتماد حضرت علیؓ کو اس لئے  زیب دیتا تھا کہ وہی اس وقت ایک بڑے مفکر عظیم دانشور سلیقہ مند منتظم مدبر سالار اور مسلّم ماہر سماجیات تھے۔ یہ خوبیاں جس شخص میں موجود ہوں گیں وہ شخص خود کو سیاسی سر گرمیوں میں غیر وابستہ نہیں رکھ سکتا۔ کسی بھی طور یہ شخص دیانت داری کے ساتھ اپنی صلاحیتیں سماج کی بہبود کے لئے پیش کرے گا۔ اکثریت نے اپنا ووٹ حضرت عثمانؓ کے حق میں دیا جس کی بنیاد حضرت عثمانؓ کی بے مثال سماجی خدمات اوران کی شرافت تھی۔ اگر آپ دونوں شخصیات کے اوصاف و کمالات اور مزاج و مذاق جانتے ہیں تو یقینا آپ کا ووٹ نظمِ ریاست کے لئے حضرت علیؓ کے حق میں ہوگا۔ حضرت عثمانؓ کی شرافت و سخاوت پہ کوئی کلام ممکن نہیں مگر نظم ریاست کے لئے اس سے ہٹ کر بھی کچھ انتظامی صلاحیتیں اور سیاسی تدبر درکار ہے، جو نسبتاً حضرت علیؓ میں زیادہ تھیں۔ ان ساری حقیقتوں کے باوجود کے باوجود حضرت علیؓ نے فیصلے کو قبول کرلیا۔ کیوں؟ اس لئے یہ اکثریت کا فیصلہ تھا۔ حضرت علیؓ کے ووٹرز کو اگر چہ اس فیصلے پہ تحفظات رہے مگر اکثریتی رائے کے احترام نے انہیں نظم اجتماعی کے ساتھ چلنے پہ مجبور کئے رکھا۔

آج بھی یہی صورت حال ہے اور جب تک اس دنیا میں انسان موجود ہیں یہی صورت حال رہے گی۔ ایسی کسی بھی صورت حال پہ اگر کوئی چیز قابو پا سکتی ہے، تو وہ عوام کا فیصلہ ہے۔ عوام کو اگر فیصلے کا حق میسر نہ ہو تو نظم اجتماعی قائم کیا تو جا سکتا ہے، قائم رکھا نہیں جا سکتا۔ ہمارے اس عہد کو چھوڑ دیجئے، خود ابتدائی عہد کی خانہ جنگیاں اس کی روشن ترین مثالیں ہیں۔ ان مثالوں کو کسی دوسرے وقت تک کے لئے اٹھا رکھتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments