ڈاکٹر حسن آزاد ….دشت میں قیس رہے، کوہ میں فرہاد رہے


\"muhammad کلاسیکل موسیقی کو بادشاہوں، مہاراجوں اور نوابوں نے پروان چڑھایا اور ان کے زوال کے ساتھ یہ فن بھی زوال پذیر ہو گیا۔ ہم چند ایسی شخصیات کو جانتے ہیں جو بنا کسی جاگیر یا ریاست کے مہاراجاﺅں سا رکھ رکھاﺅ اور وضع داری رکھتے ہیں اور اپنی بساط کے مطابق اس فن کی خدمت کر رہے ہیں۔ ہمارے 28 برس پرانے دوست ڈاکٹر حسن آزاد ایک ایسی ہی دلچسپ شخصیت ہیں۔ بہت ہی کم گو، سادہ اور عاجز انسان ہیں۔ عمر میں ہم سے 20 برس بڑے ہیں۔ ریاضی میں پی ایچ ڈی ہیں۔ دنیا بھر کی مشہور درسگاہوں میں ان کے کام کا ڈنکہ بجتا ہے۔ ستار بجاتے ہیں مگر صرف اپنے لئے۔ اگر ریاض باقاعدگی سے کریں تو پروفیشنل لیول کا بھی بجا سکتے ہیں مگر ریاضی جان نہیں چھوڑتی! ستار کی تعلیم استاد شریف خان صاحب پونچھ والے سے لی۔ دنیا میں صرف چار ہی منفرد انگ ملیں گے ستار نوازی میں۔ ان میں سے ایک شریف خاں صاحب کا ہے۔۔بین کا باج! گت کوگاڑھی ہوئی لے میں بجانے کا انگ۔ ایسا خطرناک کہ طبلے والے کو لے میں رکھنا قیامت کا امتحان  ہو۔

کوئی ارب پتی نہیں، شروع میں قائدِ اعظم یونیورسٹی میں پروفیسر تھے۔ جو کماتے گھر کے اخراجات پورے کرنے کے بعد موسیقی کی نذر کر دیتے۔ ہم اسے فضول خرچی مانتے تھے۔ انہیں سمجھاتے تھے کہ ایسا نہ کریں۔ یہ پیسہ اپنے مستقبل کیلئے سنبھال کر رکھیں۔ موسیقی کیسٹوں میں یا سرکاری کنسرٹس میں سنا کریں مگر یہ نہ مانتے ۔ ان کی بدولت ہم نے زندگی کا بہترین میوزک روبرو اور ریکارڈنگ میں سنا۔ دریا دل ایسے کہ ایک دفعہ ہم نے استاد شاہد پرویز کا باگیشری کا ٹکڑا انٹرنیٹ پر سنا۔ اسوقت یو ٹیوب ایجاد نہیں ہوئی تھی۔ یہ لائیو تھا ملبورن میں۔ طبلے پر تھے آنندو چتر جی۔ ایسا دھواں دھارستار اور طبلہ کہ ہمارے تو ہوش ہی اڑ گئے۔ یہ ان دنوں جرمنی میں تھے۔ ای میل پر ذکر کیا۔ چند روز بعد ڈی ایچ ایل کے ذریعے ڈی وی ڈی میل کر دی! ایسے دوست کہاں ملتے ہیں! جب قائداعظم یونیورسٹی چھوڑی اور ایک غیر ملکی درسگاہ سے منسلک ہوئے تو مالی حالات مزید بہتر ہوئے اور موسیقی کی سرپرستی بھی کئی گنا بڑھ گئی۔

\"dsc01783\" استاد شاہد پرویز اس وقت ایک ایسے ستار نواز ہیں جن کے برابر کا اور کوئی نہیں۔ ستار میں وہ کچھ کر چکے ہیں جو ولایت خان صاحب سے بھی نہ ہو سکا ( اب ایسی بات کرنے والا کافر مگر ہے تو سچ کوئی برا مانے تو مانے ہماری بلا سے!) شاہد بھائی کو پاکستان لانے والے حسن ہی ہیں۔ پہلی بار 2004میں کراچی لائے۔ ہم اسلام آباد میں تھے۔ ہمارے دوست سید رفیق احمد دہلی میں پولیٹیکل قونصلر تھے۔ ان کی وجہ شاہد بھائی کو منٹوں میں ویزہ مل گیا۔ حسن کا اصرار تھا ہم کراچی آئیں مگر ہم نہ جا سکے۔ حسن نے بہت محبت سے ہمیں ہوائی جہاز کا ٹکٹ بھی آفر کیا۔ مگر ہماری بدنصیبی ۔ لیکن شاہد بھائی کی تمام ریکارڈنگ سنیں کراچی والی ۔ عام سامعین تو کیا گھرانے دار بھی ہکا بکا رہ گئے ۔ گھرانے داراور موسیقی کے دو نمبر ادارے چلانے والے لوگ حسن سے حسد کرنے لگے اور تاویل یہ کہ بھارت کو پروموٹ کر رہے ہیں۔ بھئی حسن ہیں اپنی ذات میں ایک مہاراجہ ۔ اور راجے مہاراجے صرف اپنی پسند کا ہی میوزک اور موسیقار پروموٹ کرتے ہیں! ہر ٹٹ پونجیا ان کی ذمہ داری نہیں۔

2006میں حسن نے پھر شاہد بھائی کو بلایا۔ کوئی بارہ دن ہم شاہد بھائی کے ساتھ سائے کی طرح رہے۔ اسلام آباد، کراچی  اور لاہور میں ان کے کنسرٹ سنے۔ نہ پوچھیں کیا کیفیت تھی! حسن کا بڑا پن دیکھیں کہ تمام کنسرٹ کسی نہ کسی ادارے کی وساطت سے منعقد کرائے تا کہ زیادہ سے زیادہ لوگ سن سکیں اور اخراجات اپنے پلے سے ادا کئے۔

حسن آزاد نے موسیقی پر اربوں نہیں تو کروڑوں تو خرچ کر ہی دیے ہوں گے۔ ان کے پسندیدہ خاں صاحبوں میں نامی گرامی شخصیات ہیں۔ ان میں سے چند ایسے بھی تھے جو کام مندا ہونے کے سبب حسن کو فون کر دیتے اور اگلے ہی لمحے ان کے اکاﺅنٹ میں پچاس ساٹھ ہزار روپے ٹرانسفر ہو جاتے۔ اس دریا دلی سے ناجائز فائدہ بھی اٹھایا گیا۔ ہم متنبہ کرتے رہتے تھے مگر ان کا خیال تھا کہ اس طرح فنکاروں کی مدد کر کے اور محفلیں سجا کر وہ دوسروں کو موسیقی کی خدمت کرنے پرراغب کر لیں گے۔ ہم سمجھاتے رہے کہ ہم بحیثیت قوم خوبصورتی کی قدر نہیں کر سکتے۔ جہالت ہماری گھٹی میں پڑی ہے۔ ایسی خدمت کرنے کے بجائے انسان اپنا ریاض کرے۔ لیکن حسن پروموٹ اور ہم مخالفت کرتے رہے۔ مگر اس مخالفت کے باوجود ہمارا دوستی برقرار رہی۔

بھارت کے مشہور’سارے گا ما‘ پروگرام سے 1994 میں محمد وکیل نامی نوجوان مشہور ہوا۔ اس کی حوصلہ افزائی کے لئے حسن نے ایک خطیر رقم بھارت بھیجی۔ وکیل\"taking-lessons-from-ustad-shahid-parvez\" ہماری نظر میں تو کوئی خاص نہیں گاتا تھا اور اب حسن بھی یہ مانتے ہیں (بیکار میں وقت اور پیسہ ضائع ہوا!) اسی طرح انٹرنیٹ سے کوئی لڑکی…. مومیتا مترا کلکتے کی…. ڈھونڈی اور اسے پاکستان بلا لیا۔ انتہائی عامیانہ سا گانا تھا اس کا۔ آواز میں کوئی رس و سوز نہ تھا ۔ کلکتے میں ایسے لاکھوں جوتے چٹخار تے پھرتے ہیں مگر حسن اسے پاکستان لے آئے ۔ کراچی اور لاہور میں پروگرام کروایا۔ لاہور میں پروگرام کے بعد اس کا دماغ خراب ہو گیا۔ بولی استاد امجد علی خان بے سرا سرود بجاتے ہیں۔ اس بیوقوف لڑکی کا استاد انجان موجم ڈار بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانا شروع ہو گیا۔ ہمیں اور ہمارے بھائی کو تو بے حد غصہ آیا اگر حسن نے نہ بلایا ہوتا تو اسی وقت طبعیت صاف کر دیتے مگر چپ ہو گئے۔ ہمارے بھائی شیراز احمد اسد قزلباش سے سرود سیکھتے ہیں اور اسد شاگرد ہیں استاد امجد علی خان کے۔ یہ بات اس جاہل کو معلوم بھی تھی اور اس کے باوجود ایسا کہنے کا مطلب ہمیں اشتعال دلانے کے اور کچھ نہ تھا۔ خیر اس لڑکی کو پہلے بھی کوئی نہیں پوچھتا تھا اور اب بھی یہ ہی حال ہے۔ بتانے کا مطلب یہ ہے کہ مزاج کے بادشاہ ہیں حسن جس پر دل آجائے اسے نواز دیتے ہیں! اور ہم ہوتے ان کی جگہ تو ایسا ہی کرتے ۔ اس میں کوئی برائی نہیں۔ آپ کا پیسہ ہے آپ جس مرضی پر خرچ کریں۔

حسن ایک عظیم انسان ہیں۔ ایسے موسیقار وں کی بھی مالی مدد کرتے ہیں جن کے فن سے یہ ہرگز متاثر نہیں ۔ اپنے استاد کی انہوں نے بہت خدمت کی ہے۔ خان صاحب کا بیٹا اشرف شریف خاں جسے پیار سے سب ٹونی کہتے ہیں آج جو کچھ بھی ہے اسمیں دو آدمیوں کا بہت عمل دخل ہے۔ ایک حسن اور دوسرے رضا کاظم۔ دونوں نے ٹونی کو بہت سپورٹ کیا اور ہر لحاظ سے۔ اور ٹونی بھی مراد مند انسان ہے۔ دونوں کی بہت عزت کرتا ہے۔ ٹونی ہماری عمر کا ہے ۔۔47 سال اور اس سال اسے ستار کا پرائڈ آف پرفارمنس ملا ہے۔ ہم نے ٹونی کو درجنوں بار روبرو سنا اور یہ تمام کنسرٹ حسن نے ہی منعقد کروائے۔

حسن لاہور میوزک فورم کے بانیوں میں سے ہیں۔ اس فورم کا مقصد یہ ہے کہ موسیقار اپنی موسیقی میں سیلقہ طریقہ لے کر آئیں۔ سکون کا گانا گائیں اور گانے کے جمالیاتی حسن کو اجاگر کریں۔ مگر یہ فورم اپنی اس کاوش میں مکمل ناکام ہو چکا ہے۔ گھرانے دار کسی کے قابو میں نہیں آتے۔ انہوں نے اپنی ہی کرنی ہوتی ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر ہر گھرانے دار نے فورم کے سٹیج پر اس کے نصب العین کی دھجیاں اڑائیں۔ ایسی ایسی چنگھاڑتی ہوئی تانیں ماریں کہ مردہ قبر سے ہڑ بڑا کر اٹھ جائے اور ہاتھ جوڑ کر عرض کرے کہ مہاراج بس کریں بس! فورم کی یہ ریکارڈنگ سن کر انتہائی مایوسی ہوئی:

اسے 12:55 سے دیکھیں کیسے صابر تانپورے والا سٹیج پر بیٹھے بیٹھے پرفارمنس کے دوران فون سن رہا ہے۔ اب اگر صابرجیسا جاہل اگر لاہور میوزک فورم کے آرگنائزرز میں سے ایک ہو گا یا اس فورم پر فنکاروں کے ساتھ پرفارمنس کے دوران موبائل فون سنے گا تو اس تنطیم کو کوئی بھی سنجیدگی سے نہیں لے گا۔ دوسروں کوموسیقی کے آداب پر بھاشن دینے سے پہلے میوزک فورم والوں کوسب سے پہلے اپنے لوگوں کی تربیت کرنی چاہیے۔ دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا کہ سٹیج پرفنکار پرفارم کر رہا ہو اور تانپورے والے اپنا ساز چھوڑ کر فون پر باتیں کرنا شروع کر دے۔ مسخرے پن کی انتہا ہے!

 اس کے علاوہ اس لنک میں طبلے والے کی سنگت دیکھیں۔ یہ شبیر حسین جھاری ہے ۔۔پرائڈ آف پرفارمنس۔ ہمارا انتہائی بے تکلف دوست ہے۔ اور بے حد پیارا انسان ہے۔ مگریہ سنگت کر رہا ہے یا ہتھوڑے برسا رہا ہے؟ آج سے 25 برس پہلے جھاری بہت میٹھا طبلہ بجایا کرتا تھا۔ اس وقت اسے پرائڈ آف پرفارمنس نہیں ملا تھا۔ یہ پرائڈ آف پرفارمنس کی ’برکات‘ ہیں جو اب اس قسم کا طبلہ بج رہا ہے۔ جس قسم کی بیہودہ سنگت جھاری نے کی ہے اسے سن کر اس کے استاد شوکت صاحب کی روح قبر میں کانپ اٹھی ہو گی اور وہ یقینا بچھتا رہے ہوں گے کہ کیوں اسے شاگرد کیا!

جھاری نے کوئی کسر نہیں چھوڑی آرٹسٹ کا کام خراب کرنے میں۔ اس سے ہزار درجے بہتر سنگت کل کے بچے کر لیتے ہیں۔

حسن آزاد نے اپنے والد کے نام پر ایک میوزک فاﺅنڈیشن بھی قائم کی ہوئی ہے ۔۔ روف انصاری فاﺅنڈیشن جس نے بڑے بڑے آرٹسٹوں کو امریکہ سے بلوا کر پروگرام \"with-prof-shahbaz-ali\"منعقد کئے۔ استاد رئیس خان بھی اس فورم پر پرفارم کر چکے ہیں۔ انصاری صاحب کا شمار آل پاکستان میوزک کانفرنس کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ ز ندگی نے وفا نہ کی۔ جلد چلے گئے اور مرحوم حیات احمد خان صاحب نے اکیلے میوزک کانفرنس کو زندہ رکھا۔ آج آل پاکستان میوزک کانفرنس کاذکر کئے بغیر پاکستان کی موسیقی کی تاریخ مکمل نہیں ہو تی۔

حسن کا جنم ایک بڑے خاندان میں ہوا۔ ان کے تمام بھائی ہر قسم کی موسیقی گرامو فون پر سنا کرتے تھے۔ والد ریڈیو پر سائیں مرنا کا اکتارہ، روشن آرا بیگم وغیرہ سنا کرتے تھے اور موسیقی کی محفلیں گھر میں باقاعدگی سے منعقد کرواتے تھے۔ انہیں مغربی موسیقی سے بھی عشق تھا۔ \’Strauss Last Four Songs\’ by Lisa Della Cassaانہیں بیحد پسند تھا۔

 حسن کی پرورش ایسے ہی متنوع قسم کے ماحول میں ہوئی۔ سر محمد شفیع کی بیٹی۔۔مشہور سیاستدان اور مسلم لیگ کی سرگرم رکن بیگم جہاں آرا شاہ نواز ان کی دوست تھیں اور ہندوستان کے مشہور کمپوزر خیام صاحب کے بھائی عبدالحق قریشی سے ستار سیکھتی تھیں۔ حسن صرف کلاس میں موجود ہوتے تھے سیکھتے نہیں تھے۔ قریشی صاحب شریف خان صاحب کے ہی شاگرد تھے۔ حسن ستارکی دلچسپی یہاں سے شروع ہوئی۔ ان دنوں میں گھروں میں موسیقی سننا ، گھر پر ہی موسیقی کی تعلیم لینااور موسیقی کی تقریبات منعقد کروانا زندگی کا ایک اہم جز ہوا کرتا تھا۔

حسن نے حق صاحب سے تو کوئی تعلیم نہیں لی لیکن ستار کو دریافت کرنا شروع کر دیا۔ اس وقت یہ گیارہ برس کے تھے۔ انہیں خیال ہی نہیں آیا کہ حق صاحب سے ستار سیکھا جائے۔ ستار سے سچا عشق انہیں 1959 میں ہوا جب انہوں نے شریف خان صاحب کو آل پاکستان میوزک کانفرنس کے ایک پروگرام میں روبرو سنا۔ ستار کی مسحورکن آواز نے ان کے دل کے تار چھیڑ دیے اور یہ شریف خان صاحب سے سیکھنا شروع ہو گئے۔ حسن ہمیں بتاتے ہیں کہ شریف خان کے باج میں وینا کا انگ انہیں بیحد متاثر کرتا تھا۔ اور یہی انگ انہیں ساری دنیا سے منفرد بناتا ہے۔

حسن کی خاص صفت ہے سر کی ایسی پہچان کہ ایک لمبی مشکل سی تان تیزی سے کہہ دو اور یہ اس کی نوٹیشن فوراً کر دیں گے۔ یہ مینڈھ تک کی نوٹیشن کر دیتے ہیں۔ ایسی خوبی چوٹی کے گانے بجانے والوں میں پائی جاتی ہے۔ دوسری صفت ریاضی دان ہونے کی وجہ سے انہوں نے ہم جیسے دوستوں کے لئے تہائی کا کلیہ دریافت کیا ہے۔ اس فارمولے کی مدد سے طبلہ بجانے والا آسانی سے یہ معلوم کر سکتا ہے کہ تہائی کہاں سے اٹھی جائے تو سم پر آئے گی۔

حسن آج کل سعودی عرب کی کنگ فہد یونیورسٹی میں پڑھا رہے ہیں۔ اب موسیقی کے مستقبل سے بددل ہو گئے ہیں۔ اب انہیں ہماری باتوں سے اتفاق ہونے لگا ہے۔۔ یعنی محنت سے کمایا ہوا پیسہ پاکستان میں موسیقی پر خرچ کرنے سے کوئی فائدہ نہیں۔ حسن کی کاﺅشوں سے کسی ایک کو بھی یہ توفیق نہیں ہوئی کہ وہ بھی ان کی طرح موسیقی کو پھیلائے۔ موسیقی کی حالت روز بروز بگڑ رہی ہے ۔ اب یہ عالم نزاع میں ہے۔ لیکن ایک اچھی بات ضرور ہوئی ہے اس عرصے میں۔ یو ٹیوب کا ظہور ہو چکا ہے جس پر ٹنوں کے حساب سے وہ میوزک پڑا ہوا ہے جسے حاصل کرنے کے لئے حسن نے وقت اور پیسہ اور ہم نے صرف وقت برباد کیا۔ دیر آید درست آید!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments