اتاترک کا سیکولرازم قابل تحسین نہیں


\"zeeshanایک مہذب سماج میں تین تصورات پر سمجھوتہ نہیں کیا جا سکتا۔

آزادی

مساوات

انصاف

آزادی کا تعلق حق انتخاب سے ہے۔ اس حق انتخاب کا دائرہ سیاست معیشت سماج اور مذہب سمیت تمام پہلوو ¿ں پر محیط ہے۔ ایسا کوئی نظام جو فرد کو اس حق سے محروم کر دے وہ ظالمانہ اور جابرانہ ہے۔

مساوات سے مراد یہ ہے کہ تمام انسان اپنے بنیادی حقوق اور شناخت کی بنیاد پرباہم برابر ہیں۔ مذہبی ،لسانی ،صنفی ، معاشی یا کسی بھی قسم کا فرق ان کو ان کے بنیادی حقوق اور شناخت سے محروم نہیں کر سکتا۔ سیاست میں شہریت کی مساوات ، معیشت میں مواقع کی مساوات ، سماج میں مذہبی آزادی ، آزادی اظہار رائے اور حق اجتماع یہ سب آزادی اور مساوات کے زمرے میں آتے ہیں۔

لبرل ازم میں ان تین تصورات کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا اتاترک کا سیکولرازم انسانی آزادی ، مساوات ، اور انصاف کے بنیادی اصولوں کے عین مطابق تھا ؟ میری دانست میں ہر گز نہیں۔ کیسے؟ آئیں دیکھتے ہیں۔

اتاترک کو خلافت اور قاضی کے اداروں سے سخت عداوت تھی جو اس کے خیال میں سلطنت عثمانیہ کے زوال اور سماجی بحران کا سبب تھے۔ جب اتاترک ترکی کی سرزمین کا دفاع کر رہا تھا تو اسے ان دونوں اداروں سے سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ جب وہ اقتدار میں آیا تو اس کی نفسیات پر دور اندیشی اور دانشمندی کے بجائے ردعمل کا غلبہ تھا۔ اس کے چند اقدامات درج ذیل ہیں۔

اس نے اپنا نام مصطفیٰ کمال پاشا سے بدل کر کمال اتاترک رکھا۔

ترک جو روایتی ٹوپی پہنتے تھے جسے Fez کہتے ہیں اسے قانونی طور پر ممنوع قرار دے کر انگریزی ہیٹ کو لازمی قرار دیا گیا۔

مغربی لباس کی حوصلہ افزائی کی گئی۔

روایتی ترک کیلنڈر بدل کر مغربی (گریگورین ) کیلنڈر نافذ کیا گیا۔

ترک رسم الخط کو لاطینی رسم الخط میں بدل دیا گیا۔

یہ سب کچھ انسانی حق انتخاب پر جبر تھا۔ کیا پہننا ہے اور کیا نہیں ، کیا نام رکھنا ہے اور کیا نہیں ، کون سے لائف سٹائل میں آپ جینا چاہتے ہیں اور کون سا پسند نہیں ، یہ سب فرد کا حق انتخاب ہے۔ اس سے کوئی بھی اتھارٹی آپ کو محروم نہیں کر سکتی۔ سیکولر ازم اس بنیادی اصول پر مبنی ہے کہ مذہب کو ریاستی امور میں دخل نہیں اور ریاست شہریوں کے مذہب میں دخل اندازی نہیں کر سکتی۔ کسی بھی مذہب کو قبول کرنا (یا تمام مذاہب کا انکار کر دینا) آپ کا ذاتی حق انتخاب ہے اور جو نظام کسی بھی فرد کو اس سے محروم کرے قابل مذمت ہے۔

جس طرح ایک ایک ایسی جمہوریت جس میں اکثریت اقلیت پر جبر نافذ کرے ، بقول فرید زکریا غیر لبرل (Illiberal )جمہوریت کہلاتی ہے۔ اسی طرح ایک ایسا سیکولربندوبست جو فرد سے اس کی مذہبی ، سیاسی ، سماجی اور معاشی زندگی میں حق انتخاب چھین لے وہ کبھی بھی لبرل سیکولرازم نہیں کہلایا جا سکتا۔ انسانی حقوق ، مساوات ، اور انصاف کے لبرل اصولوں کی رو سے اتاترک کا سیکولر ازم ہر گز قابل تعریف نہیں تھا۔

ذیشان ہاشم

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ذیشان ہاشم

ذیشان ہاشم ایک دیسی لبرل ہیں جوانسانی حقوق اور شخصی آزادیوں کو اپنے موجودہ فہم میں فکری وعملی طور پر درست تسلیم کرتے ہیں - معیشت ان کی دلچسپی کا خاص میدان ہے- سوشل سائنسز کو فلسفہ ، تاریخ اور شماریات کی مدد سے ایک کل میں دیکھنے کی جستجو میں پائے جاتے ہیں

zeeshan has 167 posts and counting.See all posts by zeeshan

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments