زندگی کے کینوس پہ غلامی کا دھبہ


\"rashid-imran\"فیس بک پہ ایک پوسٹ نے بن کہے کئی سوالات کے جوابات دئیے۔ \”کچھ لوگ غلامی سے آزادی کے لئے جدوجہد کرتے ہیں اور کچھ لوگ غلامی کی شرائط کو بہتر بنانے کا مطالبہ کرتے ہیں\”۔ جدید غلامی قطعی ویسی نہیں ہے جیسے ہمارے تصورات ہیں۔ ہمارے خیالات اور ہماری سوچ میں غلام پابند سلاسل ہوسکتے ہیں۔ انہیں صرف مشقت کے لئے ایک مخصوص دائروی دنیا کی آزادی ہوتی ہے۔ بادشاہوں کے دربار میں \”روٹی\” کے عوض کام کرنے والے مجبوروں کو ہم غلام سمجھتے ہیں۔ قدیم داستانوں میں اجناس کی طرح بکتے ہوئے خدمت گزاروں کو ہم غلام گردانتے ہیں۔ پرانے عکس جو دماغ کے پانی پہ نمودار ہوتے ہیں ان کے مطابق غلام دن بھر کی جبری مشقت کے بعد شام کو کسی بڑی کوٹھری میں قطار در قطار منتقل ہوتے ہیں۔ ہاتھ باندھ کر ہر سلوک پہ سر خم کرتے ہیں۔ صبح ان کے لئے ایک کڑے دن کا پیغام لاتی ہے، جب دوبارہ وہ کھلے آسماں تلے آتے ہیں۔ وہ لوگ جن کے ہاں رات نیند کے لئے کم اور عارضی موت کے لئے زیادہ آتی ہے۔

آج کل تو ایسا کچھ نہیں، نہ پاؤں کی بیڑیاں ہیں اور نہ کسی غلطی کے سرزد ہونے پہ سر دربار کوڑے لگتے ہیں۔ سلاطین کا دور اب نہیں رہا تو جکڑ بندیاں بھی شاید رفع ہو گئیں۔ مگر یہ غلامی کا پرانا لباس تھا، غلامی کا وجود آج بھی ہے۔ البتہ ڈھنگ اور پیراہن بدل گیا ہے گویا غلامی کے انداز بدل دیئے گئے۔ بیڑیاں اب بھی ہیں مگر نظر نہیں آتی ہیں۔ سوچ کو ابھی تک آزادی نہیں مل سکی، وہ سوچ جو پرندہ ہے مگر کسی سفاک صیاد کے پنجرے میں بند ہے۔ اس پنجرے کو وہ قسمت کہتا ہے۔ پنجرہ جتنا بھی وسیع ہو مگر اس کے گرد آہنی سلاخوں کا حلقہ موجود رہتا ہے، جس نے خوف کا روپ دھار کے ذات کو زنداں بنا رکھا ہے۔ ہم بظاہر آزاد ہیں لیکن پھر بھی غلام ہیں۔ ہمیں احترام کی بجائے تابعداری کا درس دیا گیا ہے اور تابعداری کا فیصلہ سماج نے کرنا ہے چاہے شعور اس فیصلے کی منطقی تردید بھی کرے۔ فرماں برداری کا تقاضا ہے کہ بڑاپن عمر دیکھ کے نہیں طے کرنا بلکہ معاشرتی رتبے کو مد نظر رکھ کے سمجھنا ہے۔ حکم عدولی کے خطرات کی جیتی مثالیں بتاتی ہیں کہ زندگی کیونکر سزا بنتی ہے۔ ایسے کئی خوف وقت کے ساتھ ساتھ ہماری تربیت کے ذریعے ہم تک پہنچتےہیں۔ ڈر کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ جاننے پہ بھی کاٹنا بہت مشکل ہے۔

غلام کو کبھی اپنے فیصلوں پہ اعتماد نہیں ہوتا، وہ رائے دینے کی بجائے احکامات کی بجا آوری میں اطمینان محسوس کرتا ہے۔ معاشرے میں جو اعلیٰ معیارات طے ہوتے ہیں، انہی کے تحت حیثیت کا تعین ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں آقا کو \”بڑا آدمی\” یا وڈیرا کہا جائے گا، جب کہ اس خطاب کا حصول عام بشری صفات کی بدولت نہیں ملتا۔ بلکہ اس کے لئے دیگر لوازمات جیسے، دولت، نسب اور جاگیر کا ہونا انتہائی ضروری ہے۔ عالی نسب کے پاس اپنے تاریخی حوالاجات موجود ہیں جن کی بنیاد پہ اس کے شجرے کو انفرادیت حاصل ہے۔ اس کا سر کپڑوں کے کلے سے بلند کیا جاتا ہے یعنی اس کا سر دور سے نظر آئے۔ شان کے چرچے سب سروں کے نہیں ہوا کرتے بلکہ صرف بلند سروں کے ہوتے ہیں۔ سر بلندی زیادہ تر جوانمردی کے جنگی معرکوں سے ملتی ہے۔ خون کی ہولی میں شرکت جیسی تہذیب نے نسب عالی کو تشکیل دینا ہوتا ہے۔ اکثر خیالی عظمت اور مبالغے سے غیر ضروری کام لے کے خاندانی جلال کی مہر ثبت کی جاتی ہے۔ زمین کی ملکیت اور اس پہ اجارہ داری کی تاریخ یقیناً کوئی پھول پھینکنے اور چننے کا معاملہ نہیں ہو گا بلکہ کئی طرح کی تراکیب کا استعمال کر کے یہ پھل ملا ہوگا۔ یہ سب طور طریقے جائز ہو گئے کیونکہ طاقتور کے پاس مکمل اختیار ہوتا ہے کہ وہ اپنے فائدے اور اپنی غرض کو اپنے جائز حق کی شکل دے کر لوگوں کے منہ بند کر دے۔ اس کام کے لئے قانونی یا شرعی تشریحات سے اپنے مطلب کے مطابق خوب استفادہ حاصل کیا گیا۔

المیہ یہ ہے کہ اس میں شریعت کا بڑی مہارت سے استعمال ہوا۔ اسی طرح کہ جیسے ہر سوال کا جواب فتویٰ ہے۔ بولنے اور اعتراض اٹھانے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس شدت پسندی کی اصل وجہ یہ ہے کہ ان کے دائرہ اقتدار میں کوئی خلل واقع نہ ہو۔ اگر کوئی دراندازی ہو تو وہیں پہ اس کا قلع قمع کر دیا جائے بزور مسودہ جات یا کسی بھی طرح۔ دنیا کے بیشتر ضوابط چاہے مذاہب سے متعلق ہوں یا خود مختار معاشرے کی بات ہو انسانی مساوات اور غیر متعصب رجحانات کی تعلیم بلا تفریق ملتی ہے۔ کیونکہ انسانیت کی فلاح برابری یا کم ازکم تفریق کو ہی گوارا کر سکتی ہے۔ اس کے بغیر تو انسان بالائی اور زیریں انسانیت میں منقسم ہو جائے گا۔ بالخصوص اسلامی افکار تو غلامی کو سرے سے تسلیم نہیں کرتے بلکہ ایسی تمام وابستگیاں جو ذاتی ملازم رکھنے کا جواز مہیا کرتی ہیں، ان سب سے لا تعلقی کا پیغام دیا گیا ہے۔ کسی بھی دوسرے انسان کو مرعوب کرنے لئے کسی طاقت کا مظاہرہ درحقیقت وہ غیر انسانی صفات ہیں جو لوگوں کو بے بس اور مرہون منت بنانے کے لئے بروئے کار لائی جاتی ہیں۔ ذات کو کم کرنا یا بڑھانا کوئی خدائی جبر نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مذہبی فریضہ ہے بلکہ یہ اسی غلام رکھنے اور غلامی کو قبول کرنے والے رواج کی توثیق ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ آج ذہن پہ دسترس حاصل کر کے ایک طاقتور آدمی کو غلام بنانے کے لئے کسی ظاہری پابندی کی ضرورت نہیں ہے اور نہ نئے غلاموں کے لئے پہرہ بٹھانے کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے ایک مہذب معاہدہ غلامی کو ممکن بناتا ہے۔ رواج، اقدار اور سماجی چال چلن غلاموں کو تمام فرائض اور حدود سے آگاہ کر دیتا ہے۔ وہ ہتک، توہین اور ملامتوں کے تمام فقرے، سب طنزیہ لہجے اور کاٹ کھانے والی تحقیر بھری نظروں کو اپنی قسمت سمجھ کر سر جھکا لیتے ہیں۔ ان کی آزادی کے سلب ہونے کا ثبوت یہ کافی ہے کہ وہ اعتراض نہیں کر سکتے ہیں۔ ان کے پاس ’ناں‘ کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ سر جھکا کے بات سنیں گے اور ہر حکم کی بجا آوری کریں گے۔

تسلی بخش بات یہ ہے کہ نئے زمانے کی ہوا چلنے لگی ہے، سمے کا پہیہ گھوم رہا ہے۔ غلامی سے نفرت کی گفتگو اور اونچ نیچ پہ بھی جرح ہونے لگی ہے۔ عدالت کا لگنا ابھی باقی ہے مگر غلامی کے سومنات پہ وار ہو رہے ہیں۔ ماضی کے سومنات پہ تو خون بہا ہے مگر اب کی دفعہ ان واقعات سے انسانیت جنم لے سکتی ہے۔ زندگی کے خوبصورت کینوس پہ غلامی کا دھبہ مٹ سکتا ہے۔ خون کو رگوں میں ہی دوڑنے دینا چاہیئے، باہر قدرت کی لالی بکھری پڑی ہے۔ ایسے میں دامن کو خون آلود کرنے کی بھلا کیا ضرورت ہے۔ غلامی کی شرائط میں نرمی کرنے کا مطالبہ کافی نہیں بلکہ اس کا خاتمہ ضروری ہے کیونکہ \”غلامی میں خیر نہیں\” بلکہ شر ہی شر ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments