(فہمیدہ ریاض کا ریڈیو پاکستان سے آخری انٹرویو (نومبر 2016


فہمیدہ ریاض کا جنم 28 جولائی 1945ء کو ہندوستان کی تاریخی فوجی چھاؤنی میرٹھ میں ایک علمی و ادبی گھرانے میں ہوا۔ ان کے والد ریاض الدین احمد ماہر تعلیم تھے۔ یہ ذکر قیام پاکستان سے کوئی 17 سال قبل کا ہے جب سندھ کے معروف ماہر تعلیم نور محمد نے حیدر آباد میں ایک اسکول قائم کیا تو اپنے اسکول کے لئے انہوں نے ایک مسلمان استاد کے لئے علی گڑھ یونیورسٹی کی انتظامیہ سے درخواست کی اور یوں ان کی درخواست پر ریاض الدین احمد میرٹھ سے حیدرآباد چلے آئے اور اس اسکول سے منسلک ہو گئے۔ اس وقت سندھ کا یہ دوسرا مسلم ہائی اسکول تھا ریاض الدین احمد کو حیدر آباد میں سندھی ادیب وشعراء کا وسیع حلقہ احباب میسر آیا جن کی صحبت میں انہیں سندھی ادب سے پہلے آشنائی اور پھر لگاؤ پیدا ہوا۔ انہوں نے اسکول کی مصروفیت کے ساتھ ساتھ حیدر آباد کے ٹیچر ٹریننگ کالج میں بھی درس و تدریس کا سلسلہ شروع کر دیا۔ وقت گزرتا رہا اور قیام پاکستان سے 2 سال قبل 1945ء میں فہمیدہ ریاض کی پیدائش سے کچھ عرصہ قبل ریاض الدین احمد نے اپنی اہلیہ کو اپنے آبائی شہر میرٹھ میں اپنے خاندان میں بھیجا تاکہ بچے کی پیدائش کے وقت دیکھ بھال اچھی طرح ہو سکے۔ اور یوں فہمیدہ ریاض کی جائے پیدائش میرٹھ بن گیا۔ فہمیدہ ریاض جب چھ ماہ کی ہوئیں تو ان کے والدہ انہیں لے کر حیدرآباد چلی آئیں۔ ابھی فہمیدہ ریاض صرف 5 برس کی تھیں کہ ان کے والد ریاض الدین احمد چل بسے۔ اگرچہ فہمیدہ ریاض کی والدہ کا شمار اسی زمانے کی تعلیم یافتہ خواتین میں ہوتا تھا اور ان کا اردو و فارسی لٹریچر کا خاصا مطالعہ تھا لیکن شوہر کی وفات کے بعد انہیں فہمیدہ کی تعلیم و تربیت اور دوسرے مسائل کا سامنا کرنا پڑا لیکن کم وسائل کے باوجود انہوں نے ریاض الدین میموریل گرلز اسکول قائم کیا جو تقریباََ 5 سال تک فعال رہا۔ لیکن محدود وسائل کے باعث اسکول بند کرنا پڑا۔ ادھر فہمیدہ ریاض نے اسکول کے زمانے سے ہی اردو و فارسی کے کلاسیکل شعراء اور ادیبوں کے مطالعے کا آغاز کیا اور 15 سال کی عمر میں پہلی نظم کہی تھی جو معروف ادبی جریدے ” فنون “ میں شائع ہوئی تھی۔ انہوں نے کالج کے زمانے میں طلبہ یونین میں شامل ہو کر سیاست کا آغاز کیا ،اور یونیورسٹی آرڈیننس کے خلاف تقریریں بھی کیں اور نظمیں بھی لکھیں۔ اسی دوران انہوں نے اپنے والد کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سندھی ادب پڑھنے کی غرض سے سندھی زبان بھی سیکھی۔ بی اے کے بعد سندھ یونیورسٹی کے شعبہ سیاسیات میں داخلہ لیا اسی دوران 1967ء میں وہ رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئیں اور ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے سے قبل ہی اپنے شوہر کے ساتھ لندن چلی گئیں۔ لندن میں فہمیدہ ریاض نے کچھ عرصے کے لئے ایک لائبریری میں بحیثت اسسٹنٹ کام کیا اور اس کے بعد معروف نشریاتی ادارے بی بی سی کی اردو سروس سے منسلک ہو گئیں۔

فہمیدہ ریاض کی چالیس نظموں پر مشتمل ان کا پہلا مجموعہ کلام ” پتھر کی زبان “ ان کی شادی کے دو ماہ بعد شائع ہوا اس وقت ان کی عمر صرف 22 برس تھی۔ یہ مجموعہ کلام ان کی پانچ سال کی کاوشوں کا ثمر تھی جس کے دوران ان کی شاعرانہ فکر صرف ان کی ذاتی دنیا تک محدود تھی اور ان کا کلام ایک دوشیزہ کے جذبات اور احساسات کی ترجمانی کرتا تھا اور اس کا اظہار انہوں نے ” پتھر کی زبان “ کے دوسرے ایڈیشن میں واضح طور پر ان الفاظ میں کیا۔

”یہ نظمیں کیا ہیں؟ کیا اسے سرمایہ ادب کہا جا سکتا ہے؟ نہیں ایسا سمجھنا حماقت ہے یہ تو محض وہ خواہشات ہیں جس کے تانے بانے ہر متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والی ہر نوجوان لڑکی معطر فضا اور پھوار کے مسحور کن ماحول میں بُنتی ہے“۔

فہمیدہ ریاض کو حکومتِ پاکستان نے ان کی ادب کے لئے گراں قدر خدمات کے اعتراف میں کمال فن ایوارڈ سے بھی نوازا ہے۔ وہ اب تک پندرہ سے زائد فکشن اور شاعری کی کتب تصنیف کر چکی ہیں۔ وہ نیشنل بک فاﺅنڈیشن اور اردو ڈکشنری بورڈ کی مینجنگ ڈائریکٹر بھی رہ چکی ہیں۔ ضیاء الحق کے دور میں انہوں نے ہندوستان میں جلا وطنی اختیار کی تھی اور اس دوران جامعہ ملیہ اسلامیہ میں درس و تدریس کے فرائض سر انجام دئیے۔ فہمیدہ ریاض سے نومبر 2016 میں ایک خصوصی مکالمہ ریکارڈ کیا گیا جو عام گفتگو کی زبان میں ہے۔ بدقسمتی سے یہ ان کا ریڈیو پاکستان سے آخری انٹرویو بھی ثابت ہوا۔

س۔ فہمیدہ آپا آپ کے بچپن کا زمانہ کیسا تھا ؟ آپ کے ارد گرد کیا ماحول تھا؟

ج۔ میرے والدین تقسیم سے قبل ہی سندھ میں مقیم تھے مگر وہ ایک ایسا خاندان تھا جو میرٹھ کا تھا اور میرے جو والد تھے ان کا تعلق ایجوکیشن کے پروفیشن سے تھا اور وہ حیدر آباد سندھ میں جب نور محمد ہائی اسکول کو ہائی اسکول بنایا جا رہا تھا یہ مسلمانوں کا دوسرا بڑا تعلیمی ادارہ تھا۔ اس سے پہلے سندھ مدرستہ الاسلام کراچی میں بنا تھا پھر نور محمد ہائی اسکول حیدر آباد سندھ میں بنا تھا۔ تو انہوں نے علی گڑھ یونیورسٹی سے کچھ اساتذہ منگوائے تھے میرے والد بھی اس میں شامل تھے یہ 1930ء کے عشرے کی بات ہے جب وہ یہاں پر منتقل ہوئے تھے لیکن تب تک تو یہ غیر منقسم ہندوستان تھا اور یہاں سے چھوٹی لائن کی ٹرین چلتی تھی اور وہ اجمیر شریف ، باڑ میر سے ہوتی ہوئی جایا کرتی تھی دلی تک۔ وہاں سے میرٹھ چلی جاتی تھی۔ اس طرح آتے جاتے تھے تو اس وقت میری والدہ میری پیدائش کے لئے گئی تھیں۔ میرٹھ میں۔

س۔ آپ کے لکھنے کا محرک کون سا واقعہ بنا؟

ج۔ دیکھئے میرے لکھنے کی ابتدا دراصل جو ہے وہ محبت کے خطوط لکھنے سے ہوئی اور مجھے عشق ہو گیا بہت ہی چھوٹی عمر میں، پڑوس کے لڑکے سے۔ تو اس کو جو خطوط لکھتی تھی تو اس نے مجھے رائٹر بنا دیا۔ دیکھئے جیسا کہ بڑے فرما گئے ہیں اور وہ یہ کہ جو محبت ہے وہ آپ کے اندر کی تخلیقی قوتیں جو ہیں بالکل ان کی گرہیں کھول دیتی ہے تو اسی طریقے سے یہ ہوا۔ حقیقت تو یہ ہے۔

س۔ آپ زمانہ طالبعلمی میں ہی ریڈیو پاکستان حیدر آباد سے منسلک ہو گئی تھیں ؟ تو اس دور کا نشریاتی تجربہ کیسا رہا ؟

ج پیارے بچے میں ایک لکھنے والی ہوں۔ ایک شاعرہ ہوں جو کہ سچ کہنا اور حقیقت کو کہیں دور سے کھینچ لانا ان چیزوں میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے۔ میں نے بالکل کالج کے زمانے سے فرسٹ ائیر سے جب میں تھی حیدر آباد سندھ میں گورنمنٹ گرلز کالج تھا اس کا نام زبیدہ کالج بھی تھا تو وہاں پر جب میں تھی تو میں نے فرسٹ ائیر سے ریڈیو پاکستان حیدر آباد پر پروگرام کرنا شروع کئے تھے اور میں فوجی بھائیوں کا پروگرام کیا کرتی تھی۔ تو اس طرح سے یہ ہوا کہ میرا وہاں جانا ریگولر شروع ہوا۔ کیونکہ میں ہر ہفتے پروگرام کیا کرتی تھی اور حیدر آباد کے ریڈیو اسٹیشن کا جو ماحول تھا وہ بہت اچھا تھا۔ اس وقت جن لوگوں سے میرا واسطہ پڑا۔ وہ پھر بعد میں زندگی بھر کے لئے بہت اچھے اور بہت پیارے ساتھی بن گئے۔ ان دنوں ظاہر ہے کہ میں تو Young سی لڑکی تھی اور سولہ سترہ سال کی جب فرسٹ ایئر میں تھی۔ لیکن پھر بھی سینئیرز نے ہمیشہ محبت کا اور بڑی شفقت کا برتاﺅ مجھ سے کیا۔ مجھے یاد ہے کہ چونکہ میں لڑکی تھی تو ہماراجو چیک بنتا تھا تو اس کے لئےRule  یہ تھا کہ آپ شعبہ اکاﺅنٹس جا کر وہاں پر دستخط کر کے Receiveکریں۔ لیکن ایک لڑکی تھی میں چونکہ اس لئے میرے جو پروڈیوسر تھے۔ وہ وہیں کمرے میں ہی منگوا لیا کرتے تھے تا کہ مجھے شعبہ اکاﺅنٹس میں جا کر وہاں ایک لائن میں کھڑا نہ ہونا پڑے۔ اس کے بعد وہاں پر معروف گلوکارہ عابدہ پروین اور ان کے جو شوہر تھے غلام حسین شیخ صاحب وہ ریڈیو پاکستان حیدر آباد میں پروگرام مینیجر تھے تووہ لوگ وہاں پر اس زمانے میں موسیقی کے پروگرام کر رہے تھے تو جو پورا ماحول تھا وہ اتنا زیادہ اچھا تھا اور اس میں کالج کی ایک لڑکی ایک مڈل کلاس لڑکی کوئی بالکل غیریت محسوس نہیں کرتی تھی، بڑا اچھا ماحول تھا۔

س۔ پھر آپ ایک اور بینُ الاقوامی نشریاتی ادارے BBC سے منسلک ہو گئیں تو آپ کو کیا تبدیلی محسوس ہوئی؟

ج۔ بھئی دیکھئے ظاہر ہے کہ BBCکے اندر جہاں ہم کام کرتے تھے Bush Houseاس کے اندر تو کئی زبانوں کے دفاتر موجود تھے وہ ایک ایسا ادارہ تھا جس کی Broadcastingجو ہے 24 گھنٹے جاری رہتی تھی۔ کیونکہ 24 گھنٹے دنیا میں کہیں نہ کہیں دن کا وقت ہوتا تھا یا ایسا وقت ہوتا تھا جب لوگ نیوز سن سکیں۔ تو ان کے پاس Resourcesجو تھے وہ بھی بہت زیادہ اور زبردست تھے ان لوگوں کا  Paymentبہت زیادہ بہتر ہوا کرتا تھا۔ سب سے بڑا تو Difference یہ تھا اور پھر ظاہر ہے کہ ایک پورا بین الاقوامی قسم کا ماحول تھا دنیا کے ہر ملک اور ہر زبان بولنے والے لوگ جہاں پر موجود ہوں تو اس کا ہمارے ادارے سے کیا مقابلہ۔ اس کے باوجود لوگ کہتے ہیں نا کہ” جو مزا چھجو کے چوبارے میں وہ بلخ میں کہاں“؟۔ تو جو اپنائیت آپ کو حیدر آباد ریڈیو اسٹیشن میں محسوس ہوتی تھی اپنے شہر میں وہ تو دنیا کے کسی بھی مقام پر محسوس ہو ہی نہیں سکتی۔ حالانکہ وہاں جانا بہت اچھا ہوتا ہے اورآپ کا ذہنی اُفق وسیع ہوتا ہے یہ سب چیز تھی۔

س۔ آپ نے دیار غیر سے فلم پروڈکشن کی ڈگری بھی حاصل کی لیکن پاکستان واپسی پر فلمی دنیا کا رخ کیوں نہیں کیا؟

ج۔ فلم کے لئے بالکل میں نے کوشش کی تھی یہاں آکر لیکن یہ کہ ایک تو میں عورت تھی اور جب میں اپنی ڈگری وہاں سے لے کر آئی یہ بات ہے 1973ء کی تو اس وقت یہاں پر بالکل دو چیزیں تھں جو نہیں ہو رہی تھیں۔ ایک تو میں آرٹ موویز بنانا چاہتی تھی اس زمانے میں تو پاکستان میں آرٹ موویز بالکل نہیں بنتی تھیں حالانکہ یہ بھٹو صاحب کا دور تھا اور انہوں نے فلم کا ایک ادارہ شروع تو کر رکھا تھا NAFDEC۔ لیکن اس ادارے میں آرٹ موویزبنانے کا تو کوئی خیال بھی نہیں تھا اور لوگ دوسری طرح کے قومی جذبات ابھارنے والی فلمیں بنانا چاہ رہے تھے ایک خاص Ideology کی جسے کہنا چاہیے پاکستان کا نظریہ وغیرہ تو اب آپ اس میں کیا ڈال سکتے ہیں پھر میں ایک عورت بھی تھی تو جو پرائیویٹ سیکٹر تھا اس کے اندر ویسے ہی راستہ مسدود ہو گیا تھا کیونکہ وہ تو اس کو نہیں سمجھ سکتے تھے کہ کوئی عورت جو ہے وہ فلم ڈائریکٹر کی حیثیت سے فلم ڈائریکٹ کرے کیونکہ میں فلم ڈائریکٹر بننا چاہتی تھی نا۔

س۔ ایک ادیب ہونے کے ناطے اس زمانے کے سیاسی حالات کو کس نظر سے دیکھا؟

ج۔ دیکھئے چونکہ بھٹو صاحب کے دور میں کم از کم میں ایک رائٹر کی حیثیت سے ان پر کافی نکتہ چینی کیا کرتی تھی۔ میں ان کے کچھ کاموں کو بالکل پسند بھی کرتی تھی جو کچھ انہوں نے کیا لیکن At The Same Time ایسا نہیں تھا نا کہ ان کی پرستش کرنا شروع کر دی جائے اور اس وقت ہمارے اچھے خاصے جو ادیب تھے وہ بالکل ان کو ایک خدا سا سمجھنے لگے جب کہ بہت ساری چیزیں اس وقت ایسی بھی ہو رہی تھیں جو کہ جمہوری لحاظ سے درست نہیں تھیں۔ تو ضیاء الحق صاحب کا جب دور آیا تو ان کا خیال ہوا کہ یہ تو بالکل شائد ہمارے ساتھ فورآَ مل جائےگی۔ لیکن یہ تو بالکل ان کا غلط خیال تھا ہم تو ان کے ساتھ ملنے والے لوگوں میں سے نہیں تھے۔ کم از کم میں تو نہیں تھی۔ اس زمانے میں رسالہ نکالنے کے لئے NOC جاری ہوتا تھا نا وہ آسان چیز نہیں تھی کافی مشکل سے ملا کرتا تھا۔ یہ ڈیکلیریشن وغیرہ، مگر انہوں نے مجھے دے دیا۔ یہ سوچ کر ہم خیال ہیں ان کے ساتھ مگر ہم تو ان کے ساتھ بالکل نہیں تھے جو اس وقت ہو رہا تھا۔ پاکستان میں بھٹو صاحب کے بعد وہ زمانہ بہت بد تر تھا۔ سڑکوں پر ٹینک کھڑے ہوتے تھے۔ تو انہوں نے پھر جریدہ ” آواز “ کے خلاف شو کاز نوٹسز بھیجنا شروع کئے۔ تو کُل 14 نوٹسز بھیجے گئے تھے اور وہ کسی بھی بات پر بھیج دیتے تھے۔ دیکھئے نا مقصد ان کا یہ تھا کہ ہم ان کے ساتھ ہو جائیں تو اب وہ نہیں پورا ہو رہا تھا تو وہ ہھر کسی بھی چیز کے اوپر اٹھا کر بھیج دیتے تھے۔ بہانہ چاہیئے تھا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا اور جس پر مجھ پر 124 الف کا پرچہ کٹا۔ جس پر مجھ پر Sedition یعنی کہ غداری کا مقدمہ بنا جس کی سزا پھانسی ہوتی ہے یا 14 سال قید با مشقت۔ اس واقعے کا تعلق دراصل پاکستانی صحافت کی ایک زبردست جدوجہدسے ہے۔ لوگوں کو یاد رکھنا چاہیئے کہ کیا ہوا تھا۔ دیکھئے اس وقت کراچی سے دو رسالے جو نکلتے تھے ایک ” الفتح“ اور ایک” معیار“ تو یہ دونوں خصوصاَ ان میں ” الفتح “ تو ایک بائیں بازو لیفٹ کا رسالہ تھا جبکہ ”معیار “ جو تھاوہ ”ٹائم “ میگزین کے طریقے پر نکلا ہوا پاکستان کا پہلا رسالہ تھاجو محمود شام صاحب نے نکالا۔ تو وہ ایک لبرل اور ڈیمو کریٹک نقطہ نظر پیش کرنے والا رسالہ تھا۔ اب ” الفتح “کو ظاہر ہے بند کر دیا گیا تھا کچھ عرصے کے بعد اور پھر ” معیا ر“ کو بھی بند کر دیا گیا۔ اس وقت یہ حال تھا کہ تمام جرنلسٹ جو تھے زیادہ تر جیل جا چکے تھے کراچی کے بھی اور لاہور کے بھی۔ منہاج برنا صاحب یہاں پر تھے اور وہ بھی جیل میں تھے بلکہ وہ بھوک ہڑتال پر چلے گئے تھے کیونکہ اس وقت کوئی سیاسی جماعت ان کا ساتھ نہیں دے رہی تھی۔ پیپلز پارٹی کے لوگ غائب ہی ہو گئے تھے منظر سے۔ نظر ہی نہیں آ رہے تھے۔ پھر فیصلہ یہ کیا گیا کہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ ہم جو مختلف ڈیکلیریشن ہیں ان پر رسالے نکالنا شروع کرتے ہیں اور اس میں ایک لائن یہ بھی لکھ دی جائے گی کہ ” معیار“ جلد شائع ہونے والا ہے۔ تو انہوں نے مجھ سے بات کی تو میں نے کہا بالکل کیوں نہیں آپ بالکل نکالئے ” آواز“ کے نام پر تو ”آواز“ کے نام پر ”معیار “ کا جو ادارہ تھا اس نے ایک رسالہ نکالنا شروع کر دیا۔ دوسرا، تیسرا،چوتھا اور اس میں یہ لکھا ہوا آجاتا تھاکہ ” معیار“ جلد شائع ہونے والا ہے بس پھر ایک دن مجھے شوکاز نوٹس Receive ہوا اور میرے علاوہ تین لوگ تھے جرنلزم سے وابستہ پاکستان میں جن پر 124 الف کا پرچہ ہوا یعنی میں ، محمود شام اور ڈاکٹر فیروز احمد جو” پاکستان فورم“ نکالا کرتے تھے۔۔ ڈاکٹر فیروز احمد کی آپ دیکھئے ایک بہت اچھی نوکری تھی پروفیسر تھے وہ امریکہ میں پھرکینیڈا میں رہے اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر اس لئے آئے تھے پاکستان میں کیونکہ پاکستان میں ان کا گھرتھا ایک جذبے کے ساتھ آئے تھے ”پاکستان فورم“ کینیڈا سے بھی نکالا کرتے تھے پھر پاکستان سے نکالنا شروع کیا لیکن حکومتِ وقت نے اس کو بند کر دیا تو اب پھر یہ بچے وہ تو چپ چاپ نکل کر چلے گئے تھے ان کے پاس تو امریکن نیشنلٹی تھی تو وہ تو چلے گئے۔ دوسرا محمود شام پر بھی یہی کیس تھا اور ایک میرے پر بھی تھا۔۔ مجھے یاد ہے کہ ایک آدھ دفعہ پیشی پر وہ میرے ساتھ ہوتے تھے یہ ایک ایسا شوکاز نوٹس تھا کہ جس کے بعد مجھے فوراَ گرفتار کر لیا جانا تھا۔ اگر میں ضمانت نہ کراتی۔ اب وہاں اس وقت جرنلسٹ کمیونٹی میں کوئی نہیں تھا مارے مارے پھر رہے تھے لوگ جیلوں میں تھے تو میرے خیال میں محمود شام بھی اس وقت جیل گئے تھےArrest Court ایک چیز ہوتی ہے نا تو Courting Arrest بھی ہوئی تھی بعض جرنلسٹوں کی۔ میرے اپنے شوہر اسی میں Jail Mate تھے .حیدر آباد جیل میں ظفر احسن وہ” آواز“ کی طرف سے گئے ہوئے تھے .تو اس وقت میرے اسکول کے زمانے کے ایک ٹیچر ہوا کرتے تھے سر اسماعیل میمن۔ تو وہ مجھے ملنے آیا کرتے تھے محبت کا برتاﺅ کرتے تھے۔ شفقت سے پیش آتے تھے تو انہوں نے کہا کہ کچھ بونڈز میرے پاس پڑے ہوئے تھے تو اس پر میں نے اپنی ضمانت کرائی اور میں رہا ہوئی۔ میرے بچے بھی بہت چھوٹے تھے بیٹا تو میرا بہت ہی چھوٹا تھا میرے خیال میں تو چند مہینوں کا ہی ہو گا۔ Because he was born in 1978۔ پھر اس کے بعد مجھے ایکInvitation  ملا مشاعرے کا انڈیا جانے کاتو میں وہاں چلی گئی اور میرے علاوہ سبھی نکل رہے تھے اس وقت۔ دیکھئے فراز چلے گئے تھے باہر۔ فیض صاحب چلے گئے تھے باہر۔ جتنے لوگوں کو ہم جانتے تھے بے تحاشہ لوگ جو بچ کر نکل سکتے تھے وہ نکل رہے تھے اور جا رہے تھے پھر میں جامعہ ملیہ اسلا میہ دہلی میں ایک سال تک رہیI Was Assistant Professor بلکہVisiting Poetکے طریقے سےPoet In Residence یہ بنا کر انہوں نے مجھے رکھا تھا وہاں۔

(جاری ہے)

سجاد پرویز

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سجاد پرویز

سجاد پرویز ڈپٹی کنٹرولر نیوز، ریڈیو پاکستان بہاولپور ہیں۔ ان سےcajjadparvez@gmail.com پر بھی رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

sajjadpervaiz has 38 posts and counting.See all posts by sajjadpervaiz

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments