بنام مرشد نازک خیالاں ….


\"waseemمحترم سلیم جاوید کی خدمت میں چند مودبانہ گزارشات کے لیے بندہ حاضر ہوا ہے، امید ہے کہ شرف قبولیت بخشا جائے گا، آپ اپنے حالیہ کالم میں لکھتے وقت ایک لفظ فطرت کو بار بار دلیل کے لیے استعمال کرتے ہیں، کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ پہلے اس لفظ پہ اچھی طرح غور کرلیا جائے، تاکہ اس صورت حال سے بچا جا سکے جسے فارسی شاعر نے کچھ اس طرح
بیان کیا تھا:
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
(معماراگربنیاد کی پہلی اینٹ ہی ٹیڑھی رکھ دے تواس پر کھڑی ہونے والی دیوارآخر تک ٹیڑھی رہتی ہے)۔

جب ہم انسان اور اس کی فطرت کی بات کرتے ہیں تو مناسب علمی رویہ یہی سمجھا جاتا ہے کہ انسان اور اس کی فطرت کے بارے میں جو کچھ ہمارے آبا اور موجودہ انسان کا علم ہے اسے مدنظر رکھا جائے۔ تاریخ کے وہ حقائق بھی مدنظر رکھے جائیں جنہوں نے انسانوں کی اجتماعی اور انفرادی نفسیات کو تشکیل دیا ہے۔ واضح رہے کہ آبا سے میری مراد دنیا کے سب نظریات اور عقائد کے حامل انسان ہیں۔
یہ سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ انسانی فطرت یا نفسیات مختلف ادوار اور معاشروں میں مختلف رہی ہے، عرض کرنے کا مطلب یہ ہے کہ جبلت تو سب انسانوں کی بلا تخصیصِ مرد و زن و مخنث ایک ہی رہی ہے، جیسے ہم سب کو بھوک لگتی ہے، عزت چاہتے ہیں، محبت چاہتے ہیں، مرتبہ چاہتے ہیں، خوبصورتی چاہتے ہیں، اور سراہے جانا سب کو اچھا لگتا ہے، اور ان سب کا متضاد سب کو ناگوار گزرتا ہے
بحث یہ ہے کہ آیا کہ مرد اور عورت مختلف فطرت کے حامل ہوتے ہیں جیسے کہ سلیم جاوید صاحب نے اس کے لیے گھر داری کی طرف رحجان کی مثال دی تو یہ طالبعلم نہایت احترام سے اس نقطہ نظر سے قطعی اتفاق نہیں کرتا، میں یہ بھی کہہ سکتا ہوں کہ میں بہت سی ایسی خواتین کا انٹرویو کر چکا ہوں جو کہ گھر گرہستی جیسی چیزوں سے ’فطری طور پر‘ متنفر ہیں لیکن اس مثال کی بجائے بہتر یہی ہوگا کہ ہم یہ خود مشاہدہ کر لیں کہ سیکنڈے نیویا کی خواتین کی فطرت پھر ایشیائی خواتین کے مقابلے میں مختلف ہوئی ؟ ایک جنگجومزاج عورت کے بارے میں ہم یہ تو نہیں کہیں گے کہ یہ قدرت کی غلطی ہے جو اس کی فطرت مردانہ ہوگئی، بلکہ ہم اس کا جواب غالباًیہی دیں گے کہ چونکہ اسے ایسا ماحول ملا جس نے اس کے جنگجو مزاج کو پروان چڑھنے کا موقع دیا تو اس لیے اب وہ ایسی ہے۔ عرض یہ ہے کہ لفظ فطرت بہت ہی مبہم اصطلاح ہے، اور میں نہیں سمجھتا کہ مرد و زن کے رویوں کی بڑی وجہ فطری تفاوت ہوتی ہے، جس معاشرے نے عورت کو شرم و حیا کا درس دیا وہاں عورت کو اپنے آپ کو قابل قبول بنانے کے لیے خوامخواہ بھی شرمانا اور لجانا پڑا اور جہاں ایسی سخت قدغن نہیں تھی وہاں صورتحال بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ سمون ڈی بوا نے اپنی معروف کتاب ’صنف ثانی‘ میں لکھا ہے
We are not born a woman. We are taught to be a woman.
(عورتیں زنانہ صفات لے کر پیدا نہیں ہوتیں۔ معاشرہ عورتوں کو ایسی خصوصیات سکھاتا ہے جنہیں زنانہ صفات کا نام دیا جاتا ہے )
اور یہ بھی ایک مردانہ معاشرے کا پھیلایا ہوا خیال ہے کہ مرد ایسا ہوتا ہے، ویسا ہوتا ہے، جو معاشرہ جتنا زیادہ جس صنف کو اختیار دیتا ہے یا بے اختیار کرتا ہے وہ اس صنف کی نفسیات اور شخصیت سازی پہ گہرا اثر ڈالتا ہے اور ہم اسے فطرت یا قدرت کا نام دے دیتے ہیں تو گویا ہم نے نوعِ انسانی پہ فیصلہ صادر کردیا ۔
سلیم جاوید صاحب کچھ مثالیں بھی دیتے ہیں جن سے انکار نہیں ہے کہ مرد اور عورت کی حیاتیاتی ساخت میں یقینا فرق ہے ۔ یہاں سوال معاشرتی ، معاشی اور سیاسی کردار کا ہے۔ یہ کہنا باور نہیں ہوتا کہ ’ عورت کو پیدا ہی اسی کام کے لیے کیا گیا ہے یا فلاں کام اسی کے لئے مخصوص ہے۔‘
جب تک ہم غیر جانبدار ہو کر اور عورت کو ایک مکمل انسان سمجھ کے بات نہیں کریں گے تو متعصبانہ سوچ کی مداخلت کا خدشہ رہے گا لیکن اگر ہم پہلے سے ایک نظریہ اپنائے ہوئے ہوں اور اسے حرفِ آخر مان کر چلیں تو کیایہ سوچنا صحیح ہوگا کہ ہم ایک غیر جانبدار، علمی اور واضح سوچ رکھتے ہیں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
4 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments