اتا ترک کا سیکولرازم: ہے لائق تعزیر پہ الزام غلط ہے



میری ناقص رائے میں محترم ذیشان ہاشم نے اتا ترک کے سیکولرازم پر جس تنقیدی مقدمے کا بیڑا اٹھایا تھا، اسے چند کمزور مثالوں نے بلا وجہ کمزور کر دیا۔ ان کے ہدف تنقید بننے والے چند اقدامات یہ ہیں :
اس نے اپنا نام مصطفیٰ کمال پاشا سے بدل کر کمال اتاترک رکھا۔

اول تو یہ کہ صاحب مضمون کے بیان کردہ اصول کی رو سے یہ اس کا ذاتی فیصلہ، اس کے ذاتی نام کے بارے میں تھا، چنانچہ اس کا سیکولرازم کی تنقید سے تعلق نہیں بنتا۔ دوسرے یہ کہ تاریخی شواہد کی روشنی میں اس نے اپنا نام نہیں بدلا بلکہ ترکی کی پارلیمنٹ نے اسے اتا ترک (باباے ترک) کا خطاب دیا۔ یہ تو مغربی لکھاریوں کی مہربانی ہے کہ انہوں نے ”کمال“ کو اس کا ”سر نیم“ سمجھ کر اسے کمال اتا ترک لکھنا شروع کر دیا۔

ترک جو روایتی ٹوپی پہنتے تھے، جسے ’فیض‘ کہتے ہیں، اسے قانونی طور پر ممنوع قرار دے کر انگریزی ہیٹ کو لازمی قرار دیا، مغربی لباس کی حوصلہ افزائی کی گئی

یہ تنقید درست ہے مگر اس کا تعلق سیکولرازم سے نہیں، بلکہ ماضی پر بے جا محجوبیت اور یورپ سے بے جا مرعوبیت سے ہے۔ اصل میں ترکوں نے یہ ٹوپی اہل مراکش سے لی جہاں کے مشہور شہر کی نسبت سے اسے فاس کہتے تھے جسے یورپیوں نے فیض پڑھا اور ہم نے بھی انہی کی پیروی کی۔ مراکشی یا ترک فیشن کو مذہب سے نتھی نہیں کیا جا سکتا۔

روایتی ترک کیلنڈر بدل کر مغربی (گریگورین ) کیلنڈر نافذ کیا گیا

روایتی ترک کیلنڈر قمری تھا جس کی ’خوبیوں‘ کی ہمیں ہر سال رویت ہلال کے تماشے پر یاد دہانی کروائی جاتی ہے۔ یاد رہے کہ قمری کیلنڈر کا بدیہی تعلق اسلام سے ہے نہ گریگورین کیلنڈر کا مسیحیت سے۔ ایک غیر سائنسی کیلنڈر پر کاروبار مملکت کو چلانا ناممکن تھا۔ مضمون نگار کو علم ہوگا کہ عثمانی دور میں دن اور رات کے اوقات ماپنے کا بھی ایک دنیا سے نرالا اور حد درجے پریشان کن نظام لاگو تھا جس کا ذکر مولوی محبوب عالم (ایڈیٹر پیسہ اخبار) نے شکایتی انداز میں اپنے سفر نامے میں کیا ہے۔ کچھ مبصرین کی راے میں سلطنت عثمانیہ کے زوال کا ایک بنیادی سبب ہی وقت کی غیر سائنسی پیمائش تھا۔

ترک رسم الخط کو لاطینی رسم الخط میں بدل دیا گیا

رسم الخط کی بحث دل چسپ ہے۔ اتا ترک نے حکومت سنبھالتے ہی شرح خواندگی کو سو فی صد تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس کے لئے کثیر تعداد میں اساتذہ اور کتب درکار تھی۔ دونوں کی شدید کمی پائی گئی۔ یاد رہے کہ یہ نوری نستعلیق کی ایجاد سے پہلے کی بات تھی اور عربی رسم الخط اکثر و بیشتر کتابت کا محتاج تھا۔ عربی رسم الخط کی پیچیدگی، خصوصا ان پڑھ افراد کے لئے، اس پر مستزاد۔ چنانچہ لاطینی پر مبنی رسم الخط اختیار کیا گیا جو نہ صرف سیکھنے میں آسان ہے بلکہ اس کا پریس بھی آسانی سے لگایا جا سکتا تھا۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف شرح خواندگی میں ڈرامائی اضافہ ہوا بلکہ دیگر یورپی زبانوں کی تحصیل میں حائل اولین رکاوٹ، یعنی رسم الخط کی اجنبیت، بھی دور ہو گئی۔ یاد رہے کہ عربی رسم الخط کی تعلیم تب بھی جاری رہی، مگر صرف ان کے لئے جو اس سے شوق رکھتے ہوں۔

اتا ترک کے سیکولرازم کے نام پر جبر کی مثالیں دوسری ہیں۔ مثلا خواتین اور مردوں کے روایتی لباسوں خصوصا پردے پر پابندی لگانا، تمام مساجد کی تالہ بندی، عربی میں نماز پر قدغن وغیرہ۔ مگر امتداد زمانہ نے ان میں زیادہ نا قابل قبول قیود کو خود ہی مسترد کر ڈالا جو اقدامات عوام کی اکثریت کو نافع لگے، وہ ترکی کے سماجی تانے بانے کا حصہ بن گئے۔

Feb 1، 2016


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
9 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments