راولپنڈی کا لال حویلی تھیٹر۔۔۔ فل ٹائم کامیڈی



\"amjad-ali-shakir\"28 اکتوبر کو راولپنڈی میں ایک کامیڈی تھیٹر چلا۔ یہ اس قدر ہٹ رہا کہ ہر نیوز چینل پر دن بھر چلتا رہا۔ ویسے تو ہمارے نیوز چینل بھی کچھ ایسے سنجیدہ نہیں رہے۔ اسی لیے تو مزاحیہ گفتگو کے لیے شیخ رشید کو بلایا جاتا ہے۔ اُن کے ہاں جملے تو کم ہی ہوتے ہیں مگر جملے بازی بہت ہوتی ہے۔ اُنھوں نے پچھلی صدی کی اسی کی دہائی میں جملے بازی کو رواج دیا تھا اور اسمبلی کو کامیڈی تھیٹر بنانے کی کامیاب کوشش کی تھی۔ اُن دنوں میاں نواز شریف اور اُن کے حامی اُن کے جملوں سے لطف بھی لیتے تھے اور اُن کو خوب خوب داد دیتے تھے۔ بے نظیر بھٹو ان کے جملوں کا ہدف ٹھہری تھیں۔ وہ یہ سب کچھ سنتی رہیں اور سہتی رہیں۔ پھر زمانہ بدل گیا۔ شیخ رشید کا موضوع بھی بدل گیا۔ اب اُن کا ہدف نواز شریف اور اُن کے ساتھی ہیں۔ شیخ رشید اکثر تھیٹر لگاتے اور لوگوں کو لطف اندوز کرتے ہیں۔ 2014ء میں دھرنے کے دنوں میں مجمع تحریک انصاف کا تھا اور مجمع بازی شیخ رشید کرتے تھے۔ دھرنے کا سرکس ایک سو چھبیس دن تک چلا۔ آخر کب تک چلتا۔ فلم مولا جٹ بھی کئی کھڑکی توڑ ہفتے چلی تھی۔ باکس آفس پر بہت ہٹ ہوئی، آخر کو اُتر گئی۔ اب ماضی کی یہ کامیاب فلم ڈبہ فلموں کے ساتھ ہی کہیں پڑی ہو گی۔ دھرنا سرکس آخر کو لپٹ گیا۔ لوگ اسے اب بھی یاد کرتے ہیں۔ لوگوں کا خیال تھا کہ یہ سرکس اب کے 2 نومبر کو اسلام آباد میں پھر سے لگے گا۔ بعض لوگوں نے اس سرکس میں کام کرنے اور بعض لوگوں نے سرکس دیکھنے کی خوب تیاری کر رکھی تھی، مگر مایوسی ہوئی۔ اسی لیے تو شیخ رشید اور پی ٹی آئی کے کارکنان بہت دُکھی ہیں۔ ہمیں اِن سب سے گہری ہمدردی ہے، خصوصاً پی ٹی آئی کے کارکنوں سے تو بہت ہمدردی ہے۔ شیخ رشید تو ٹاک شوز میں بیٹھ کر اپنا شوق پورا کر لیں گے، مگر کارکنان تو اپنی دو چار شامیں بھی خوشگوار نہ بنا سکے۔ شاید اسی لیے شیخ رشید تن تنہا جلسے میں شریک ہوئے اور کارکن زیادہ تر گھروں میں بیٹھے رہے۔ اسلام آباد کا پی ٹی آئی کا جلسہ کوئی بہت اچھا جلسہ نہیں تھا۔ اسی لیے مسلم لیگ (ن) کے لوگ اس جلسے پر شیخ رشید کے انداز میں تبصرے کرتے رہے۔

28 اکتوبر میں شیخ رشید نے جو کامیڈی تھیٹر لگایا، وہ کامیڈی تھیٹر ہی تھا۔ اُنھوں نے کہہ رکھا تھا کہ اس دن لال حویلی میں جلسہ ہو گا۔ وہ دن بھر یہ پیغام دیتے رہے کہ وہ کمیٹی چوک میں ہیں۔ وہ جمعے کی نماز کے بعد لال حویلی پہنچیں گے اور جلسہ کریں گے۔ وہ اپنے ووٹرز کو پیغام دیتے رہے کہ وہ کہاں کہاں نماز جمعہ ادا کریں اور نماز کے بعد لال حویلی پہنچیں۔ وہ سارا دن اپنے ویڈیو پیغامات چلاتے رہے۔ سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا اُن کے لیے خاصا مدد گار بنا رہا۔ اچانک نمازِ جمعہ کے بعد \"sheikh-rasheed\"وہ گلیوں سے موٹر سائیکل پر نکلے اور سڑکوں پر بھاگتے دوڑتے نظر آئے۔ جہاں دور دور تک پولیس والوں کا نشان پتہ بھی نہیں تھا۔ وہاں اُن کا بھاگنے کا عمل خاصا مزاحیہ لگتا تھا، مگر وہ خاصے سنجیدہ بنے رہے۔ بھاگتے دوڑتے اُنھیں ایک ٹی وی چینل کی گاڑی نظر آگئی اور وہ کسی نہ کسی طرح اس گاڑی پر چڑھ گئے۔ اس سے آگے کی خبر الیکٹرانک میڈیا نے کچھ تو سنسر کر دی، کچھ نشر کردی۔ سنسر شدہ خبر یہ ہے کہ وہاں موجود لوگوں کی تعداد قطعاً اُمید افزا نہیں تھی۔ اس پریشانی میں اُنھوں نے جیب سے سگار نکالا اور اسے سلگا کر کش لگانے لگے۔ اگر وہاں عوام کی تعداد اُمید افزا ہوتی تو شیخ صاحب اُنھیں ساتھ لے کر قطار بنا کر نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھتے اور لال حویلی پہنچ کر پھر کسی گاڑی پر بیٹھ کر جلسہ منعقد کرتے، مگر عوام کی مایوس کن تعداد کو دیکھ کر اُنھوں نے کمیٹی چوک میں خطاب کرنے کا فیصلہ کیا۔ اُنھوں نے عوام کی مختصر تعداد کے عین مطابق مختصر خطاب کرنے پر اکتفا کیا اور پھر وہ چھلاوے کی طرح غائب ہو گئے۔ میڈیا نے اس کامیڈی تھیٹر کو سنسر کر کے چلا دیا وہ عوام کو بھی دکھا دیتے تو شیخ صاحب خاصے مزاحیہ کردار دکھائی دیتے اور وہ خود کو ٹریجک ہیرو خیال کرتے۔

شیکسپیئر نے ہیملٹ میں کہا ہے کہ ڈرامے کو پوری فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کرنا چاہیے۔ ڈرامے کی چھوٹی سے چھوٹی خامی بھی سنجیدہ اور سمجھدار ناظرین سے چھپی نہیں رہتی جب کہ ڈراما جس قدر زیادہ Vulgarise کیا جائے، غیر سمجھدار اور غیر سنجیدہ ناظرین اس سے لطف لیتے ہیں۔ یہی حال شیخ رشید کے کامیڈی تھیٹر کا رہا۔ اُنھیں اتنے بڑے پیٹ کے ساتھ بھاگتے دیکھ کر بعض لوگ بے لطف ہوئے اور بعض لوگ انھیں موٹر سائیکل پر بیٹھے دیکھ کر بے مزہ ہوئے۔ اپنا اپنا ذوق ہے اور اپنا اپنا زاویۂ نگاہ ہے۔ میں تو اس بات پر حیران ہوں کہ وہ گلیوں میں تو موٹر سائیکل پر لفٹ لے کر آئے اور سڑک پر آئے تو پیدل بھاگنے لگے حالانکہ وہ سڑک پر تو رکشے پر بیٹھ کر آجا سکتے تھے، مگر گلیوں میں بھاگ سکتے تھے۔

\"sheikh-rashid-running\"شیخ رشید بھی کمال کے آدمی ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ اُنھیں ٹاک شوز میں اُن کی فقرے بازی کی وجہ سے بلایا جاتا ہے۔ نیوز چینلز کے لوگوں کو شیخ رشید کے پروگراموں کی اچھی خاصی ریٹنگ ملتی ہے۔ 28 اکتوبر کے پروگرام کو بھی اچھی خاصی ریٹنگ ملی۔ یہی وجہ ہے کہ یہ پروگرام بار بار چلایا جاتا ہے۔ اُن کی دوڑ بھاگ والے سیاسی تھیٹر کو کسی نے عنوان نہیں دیا۔ اُن کے پیچھے تو کوئی تھا نہیں، ورنہ اُن کے پروگرام کو لُکن میٹی یا چور سپاہی کا عنوان دیا جا سکتا تھا۔ بلی چوہے کا عنوان دینا بھی مناسب نہیں تھا۔ اس لیے یہ پروگرام بغیر عنوان اور بے نام ہی چل رہا ہے۔ ویسے کوئی پروگرام بغیر عنوان ہی چل جائے تو عنوان دینا کیا ضروری ہے۔ شیخ صاحب مخولیے آدمی ہیں۔ مخولیے آدمی کا تخلیقی جوہر اُس کی زبان میں موجود رہتا ہے، دماغ میں موجود نہیں ہوتا۔ شیخ صاحب فقرہ پہلے بولتے ہیں۔ دماغ سے بعد میں سوچتے ہیں۔ بعض اوقات فقرہ بول کر خود ہی اُس کی تردید بھی کر دیتے ہیں۔

مزاح کے حوالے سے ادب میں تین قسم کے کردار پائے جاتے ہیں۔ مزاحیہ کردار، مسخرہ، فول، شیکسپیئر کا فول خاصا سنجیدہ کردار ہوتا تھا۔ اشیا اور لوگوں کی کمزوریوں کو مزاحیہ انداز میں پیش کرتا تھا۔ شیخ صاحب مزاح کی مستقل نیٹ پریکٹس کرتے رہتے ہیں۔ وہ ہر کردار کمال کامیابی سے ادا کرتے ہیں۔ 28 اکتوبر کو اُنھوں نے مزاحیہ کردار خوبی اور خوبصورتی سے ادا کیا، مگر ن لیگ کے لوگوں کو موٹر سائیکل نظر آ گئی، عوام نظر نہ آئے۔ ویسے عوام کو دیکھتا کون ہے۔ ن لیگ والے بھی عوام کو صرف ووٹر سمجھتے ہیں۔ ایک لیڈر تھا جو عوام کو محض ووٹر نہیں سمجھتا تھا، انسان بھی سمجھتا تھا۔ اسی لیے عوام اُسے ابھی تک بھولے نہیں ہیں۔ شیخ\"sheikh_rasheed\" رشید بھی عوام کو چھوڑ کر چھپتے پھرتے تھے۔ وہ عوام میں ہوتے تو عوام کے ساتھ جمعہ پڑھ کر نکلتے اور پھر چاروں طرف عوام ہی عوام ہوتے۔ ہر طرف جلسہ ہی جلسہ ہوتا۔ اس میں لاٹھیاں کھانا پڑتی ہیں۔ ایک دفعہ مری روڈ پر بے نظیر نے جلوس نکالا تھا۔ اُن کے ساتھ نصیر اللہ بابر بھی تھے۔ بابر کو لاٹھیاں پڑیں اور ان کے جوتے خون سے بھر گئے، مگر وہ بھاگے نہیں تھے۔ لیاقت باغ کمیٹی چوک سے زیادہ دور نہیں جہاں ایک عوامی لیڈر عوام میں کھڑی تھی کہ جان سے گزر گئی۔ وہ بھاگی نہیں تھی، نہ گاڑی میں، نہ موٹر سائیکل پر۔ شیخ رشید خدا جانے کس کے پیچھے بھاگ رہے تھے یا کس سے ڈر کر بھاگ رہے تھے۔ لیڈر بھاگا نہیں کرتے، اپنے پاؤں پر کھڑے رہتے ہیں۔ وہ جان سے گزر جاتے ہیں۔ مگر بھاگا نہیں کرتے۔ مگر یہ کیا مذاق ہے کہ نیوز چینل بھاگنے والے کو لیڈر بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ عوام میں رہنے والوں کو مرنا پڑتا ہے بھاگنا نہیں ہوتا۔ مرنے والے تاریخ میں اور بھاگنے والے نیوز چینلوں میں نظر آتے ہیں۔ نیوز چینل کی عمر ایک دن کے اخبار کی طرح ایک ہی دن ہوتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments