حسین حقانی سے چند تلخ سوالات


\"amara-shah\"حقانی صاحب (ہماری قید سے تو بچ نکلے) ہنوز زندانِ حیات کے اسیر ہیں تو ان سے چند سوالات ضرور پوچھے جا سکتے ہیں۔

آپ کبھی Magnificent Delusions تحریر کر کے ہمیں نصابی کتب میں پڑھائی گئی تاریخ کے بطن کو اپنی حقانیت سے توڑتے ہیں تو کہیں صاحبانِ جبہ و دستار اور خداوندان مملکت کے بیچ غیر مرئی گٹھ جوڑ کو Pakistan Between Mosque and Military سے آشکار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ ہمیں یہ پڑھایا گیا ہے کہ وطنِ عزیز مملکتِ خداداد ہے اور یہ آج تک کمکِ ایزدی سے ہی چل رہی ہے تو آپ تاریخی حقائق اور براہین بیّن سے یہ حقیقت ثابت کرتے ہیں کہ ہم روزِ اول سے ہی امریکہ کا کاسہ لیس رہے ہیں۔

ہم تو بحرِ ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والوں کی اولادیں اس لئے مہم جوئی طبیعت کا جزوِ لا ینفک ہے۔ لہو کو گرم رکھنے کے لئے کوئی نہ کوئی محاذ گرم رکھتے ہیں کیونکہ محاذ کی گرمی ہی ہمارے اربابِ بست و کشاد کی جیبوں کو گرمی فراہم کرتی ہے اور مرگ بر امریکہ اور امریکہ مردہ باد ایک دائمی محاذ ہے۔ لہٰذا ہم اپنے فکری شاہ دولوں کی بانٹی ہوئی جہالت اور ظلمت کے طفیل امریکہ کو ہی اپنے وجود کے لئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں۔ فکری شاہ دولوں کی دی ہوئی جہالت، غربت، پسماندگی، افلاس، بھوک، ننگ، صحت کی سہولتوں کی کمیابی، انسانی جانوں کی ارزانی اور سب سے بڑھ کر سوات سے کراچی تک کی خانہ ویرانی کو ہم قومی بیانیہ کی روشنی میں امریکہ کی سازش سمجھتے ہیں اور مانتے ہیں اور اسی کی بنیاد پہ جذبہِ حریت اور جہالت و غربت کی اسیری کو دوام بخشنے کےلئے ہر وقت فکری شاہ دولوں کے آلہِ کار بننے کو مستعد نظر آتے ہیں۔ اب حقانی صاحب سے کوئی پوچھے کہ جب ہم اپنی روایتِ مستمرہ پہ صدقِ دل سے عمل پیرا ہیں تو آپ کبھی دساور سے آئی ہوئی مالی ترسیلات کے گوشوارے ہمارے سامنے کھول دیتے ہیں اور کبھی ملا اور سپہ کے درمیان فکری ہم آہنگی کو گٹھ جوڑ کا نام دیتے ہیں۔

\"Husain_Haqqani

پھر اس پہ مستزاد یہ کہ آپ کی ان مضرِ ریاست و دیں حرکتوں پہ قدغن لگانے کے لئے میموگیٹ جیسا شاہکار المیہ مرتب کیا گیا۔ میڈیا پہ بیٹھے چیختے فکری شاہ دولے اور عدالتوں میں بیٹھے مالکانِ عدل و انصاف اور غیر مرئی ہاتھ تو آپ کی حقانیت کا کچھ نہ بگاڑ سکے بلکہ اس بار تو امریکی اعجاز کی تمام تر چرب زبانی بھی آپ کو مجرم ثابت نہ کر سکی۔ آپ ملک بدر ہوئے تو دنیا کی چوٹی کی علمی دانش گاہیں آپ کے علم سے استفادے کی خواہاں نظر آئیں اور آپ Hudson Institute جیسے تھنک ٹینک (ہمارے ہاں تو کوئی تھنک ہے نہیں البتہ ٹینک ضرور ہیں) میں عالمی سفارت کاری، بین الاقوامی سیاست کی باریک بینیاں علم کے متلاشیوں کو سمجھانے لگے۔ میمو گیٹ سکینڈل میں آپ خود تو دام میں نہ آئے لیکن ہمیں بطورِ قوم گیٹ پہ ہی استادہ کر چلے۔ پہلے وطنِ عزیز میں بحراں ہوا کرتے تھے لیکن آپ کے اختراع کردہ گیٹ کے بعد اب ہم “گیٹ” پہ گیٹ ہوتے ہیں۔

ہم نہ تو آپ کی سوچ و فکر پہ پہرہ بٹھا سکتے ہیں اور نہ ہی ان سے پھوٹنے والی آپ کی نگارشات کی ندیوں کو روک سکتے ہیں۔ آپ کے شاگرد اور دنیا میں سچ کے متلاشی ان سے ضرور فیض یاب ہوتے ہوں گے لیکن ہم آپ کی مبنی بر حقیقت تاریخی حقائق کو بدعات کہہ کر عوام کو فکری شاہ دولوں کی کج بیانی تک ضرور محدود رکھ سکتے ہیں۔ لیکن میموگیٹ کے بعد ہمارے ملک میں کھلنے والا ہر دوسرا گیٹ آپ کی شخصیت کو دوبارہ موضوعِ بحث بنا لیتا ہے۔ ہم نے آپ کی فکری کاوشوں کو غداری کا الزام دیا تو آپ فیض صاحب کا یہ مصرعہ پڑھ کر چل دیے۔

خیر آپ علم و دانش کی باتیں کرتے ہوں گے اور ضرور کیجئے اور امریکیوں سے ہی کیجئے کیونکہ وہ ان پڑھ، جاہل اور گنوار لوگوں کی اولادیں ہیں۔ ہمیں تو آپ سے کوئی فکر مستعار لینے کی اس لئے ضرورت نہیں ہے کہ علم تو ہمارے گھر کی لونڈی ہے اور اس کے ساتھ سلوک بھی ہم لونڈیوں والا کرتے ہیں۔

\"husain-haqqani-zardari-007\"

آپ کے غدار ہونے کا تو کوئی گلہ نہیں لیکن آپ کی ہٹ دھرمی اور مستقل مزاجی سوہانِ روح بن چکی ہے۔ تمام تر دشنام و الزام کے باوجود آپ اپنی دھن میں مگن ہیں۔ آپ نے حال ہی میں لندن میں منعقد ہونے والی کانفرنس Future of Pakistan میں شرکت کی اور ہماری پالیسیوں پہ سوالات اٹھائے اور ہمیں بھی سوال اٹھانے کی ترغیب دی ہے۔ آپ سے کوئی پوچھے کہ جو قوم گزشتہ تین عشروں سے لاشیں اٹھانے کی عادی ہو وہ سوال کیسے اٹھا سکتی ہے؟ جہاں لاش گرانا اور لاش اٹھانا آساں ہو اور سوال اٹھانا مشکل تو وہاں بقول آپ کے کوئی اللہ دتہ اور غلام رسول ہی پالیسی بنائے گا۔ حقانی صاحب ہمیں تو اس کانفرنس کے نام ہی سے اختلاف ہے کیونکہ ماضی کے مزاروں کے پجاریوں کا کوئی حال ہوتا ہے نہ مستقبل۔ جنہیں یہ ازبر کرا دیا گیا ہو کہ تمھارا نظریہ اور تمھارا جغرافیہ سامراج کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے اور یہی تمھاری زبوں حالی کا سبب ہے تو وہ رٹے رٹائے سبق کو چھوڑ کر ذہن کو کسی قسم کی تحقیق یا سوال اٹھانے کی زحمت کیوں دیں؟ جہاں ہر نئی سوچ کو غداری کا چولا پہنا دیا جائے تو وہاں فکری بحثوں یا شائستہ ڈسکورس کی بجائے خبروں کی تکرار، اینکرز کی چنگاڑ اور نعروں کی للکار ہی قومی بیانیہ ہوتا ہے۔

آپ نے اس کانفرنس میں فرمایا کہ عمر رسیدگی کی وجہ سے پاکستان کے پچھلے تمام اخبارات بھی آپ کی نظر سے گذرے ہیں اور آپ کو آج تک کے اخباروں میں یکسانیت نظر آتی ہے لیکن ہم تو کم سنی میں ہی خبروں کی مماثلت سے اتنے آشنا ہو چکے ہیں کہ کسی بھی واقعے کے ظہور سے پہلے ہی خبر کا متن جان لیتے ہیں۔

\"husain-haqqani_10\"

آپ نے کہا کہ مملکتِ خداداد صرف فائلوں میں ہی پرچیاں بدلنے سے زمانے کے ہمدوش چلنے کی کوشش کر رہی ہے تو جناب سچ تو یہ ہے کہ ہمارے ہاں تمام معرکے لڑے ہی فائلوں پہ گئے ہیں۔ آپ کسی بھی ریٹائرڈ بیوروکریٹ سے اس کی تصدیق کرا سکتے ہیں۔ یہاں پرچیاں صرف فائلوں پہ ہی چسپاں نہیں ہوتیں بلکہ جنرل اسلم بیگ صاحب کے بیان کے مطابق کسی اہم فیصلے کے لئے چیف جسٹس کو بھی بھیجی جاتی رہی ہیں اور ہمارے وزیراعظم بھی اوباما کے سامنے پرچیاں لئے نظر آتے ہیں۔

قدرت اللہ شہاب صاحب نے اپنے لافانی افسانے یا خدا میں لکھا تھا کہ اس ملک کی بنیاد دہی بڑوں اور پکوڑوں پر رکھی گئی ہے لیکن آپ کے توجہ دلانے پہ پتہ چلا ہے کہ یہ ملک پرچیوں پہ چل رہا ہے۔ آپ کے تو بال سفید ہوئے ہیں یہاں تو خون ہی سفید ہو چکا ہے اور خون کی سفیدی اور گالوں کی سرخی کا مشاہدہ آپ اقتدار اور اختیار کی غلام گردشوں میں بخوبی کر سکتے ہیں اور چہروں کی زردی اور خون کی سرخی آپ وطنِ عزیز کی چوکوں، چوراہوں اور سڑکوں پر ملاحظہ کر سکتے ہیں۔

آپ نے افغانستان، امریکہ، انڈیا اور چین سے دوستی کو تنوعِ خیالات کا رنگ دینے کی کوشش کی ہے اور عوام الناس کی پالیسی سازی میں شرکت کے گناہ کو عین ثواب بنا کر پیش کیا ہے۔ آپ کی اطلاع کیے لئے عرض ہے کہ خیالات کی یہ ندرت اور عوام کی امورِ مملکت میں شرکت مغرب میں کہیں رائج ہوں گے جہاں ریاست کا وجود عوام الناس پر منحصر سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے شاید حال ہی میں ایاز امیر صاحب کے قلم سے نکلے افکارِ تازہ کا مشاہدہ نہیں کیا کہ جس میں انھوں نے ہمیں بے بصیرتی اور کور چشمی کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ وطنِ عزیز آئین نامی کسی کاغذ کے ٹکڑے یا جمہور کی لازوال قربانیوں کا ثمر نہیں بلکہ پالیسی سازوں کے ڈنڈوں اور طاقت کی مرہونِ منت ہے۔ آپ نے یہ بھی کہا ہے کہ کچھ عناصر وطن کے نظریے کو ڈیفائن کرتے ہیں تو شاید آپ کی نظر سے نصابی کتب میں تحریر دو قومی نظریہ نہیں گذرا جس کی روح سے بانیان نے اس مملکت کو محمد بن قاسم کے نا مکمل ایجنڈے کی تکمیل کے لئے وجود میں لایا تھا۔

جمہور، جمہوریت اور ان جیسے دیگر خیالات آپ اپنی دانش گاہ کے طالبِ علموں تک ہی محدود رکھیں تو مناسب ہو گا۔

\"hussain

آپ نے کانفرنس میں ایک نیٹ ورک بنانے کو تجویز دی تو آپ کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ ہم حقانی نیٹ ورک اور اس کے جلالی اثاثوں میں پہلے ہی خود کفیل ہیں۔

میرا آپ سے سوال یہ ہے کہ کیا آپ یہ سب کچھ صرف اپنے نام کی تاثیر کی وجہ سے کر رہے ہیں کہ حسین نے وقت کے یزید کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے نام کو جرات، بہادری اور حریت کا استعارہ بنا دیا ہے۔ آپ کا نام بھی حسین ہے جسے مزید جِلا حقانی کا لاحقہ بخشتا ہے۔ آپ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ آپ اسلام آباد سے نکالے گئے اور بجائے کوفہ کے، واشنگٹن میں جا نکلے اور وہاں بھی بجائے توبہ تائب ہونے کے آپ اسمِ با مسمہ بننے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔

ہمارا ایوب، یحیٰی اور ضیاء اپنے ناموں کے الٹ نکلے ہیں تو آپ اپنے نام کی لاج رکھتے ہوئے حسینیت اور حقانیت کا علم اٹھانے کے زعم میں کیوں مبتلا ہیں؟ آپ اپنی نگارشات و افکار کو مغربی دانش گاہوں تک محدود رکھیں اور ہمارے لئے صورِ اسرافیل بن کر ہماری نومِ طویل میں باعثِ خلل نہ بنیں۔ اصحاب کہف تو تین سو نو سال سو کر کہتے تھے کہ ایک دن سوئے ہیں یا دن کا کچھ حصہ۔

ہماری آنکھ لگے تو ابھی صرف ستر برس ہوئے ہیں۔ آپ سے التجا ہے کہ

سرہانے میر کے آہستہ بولو
ابھی ٹک روتے روتے سو گیا


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments