مردہ وکٹوں پر جاندار کرکٹ کیسے ممکن ہے؟


\"abdul-sattar\"پاکستان کا بیشتر ٹیلنٹ تو مردہ وکٹیں کھا جاتی ہیں:ڈینس للی

شکست کا خوف اور ہوم ایڈوانٹیج کا فائدہ اٹھانے کی امید بے جان پچیں بنانے پر مجبور کرتے ہیں۔ آج کل کارکردگی کا معیار کسی ٹیم کو صرف شکست سے دو چار کرنا نہیں رہا، امپکٹ انڈکس جیسے فارمولے سامنے آ چکے ہیں جو کارکردگی کا ایک نیا پیمانہ ہے جس میں ہر پہلو کو جانچا جاتا ہے۔

یونائیٹڈ بورڈ آف ساؤتھ افریقہ کے این ایم نیٹن، جے آر کلاگ، ڈی ایڈموسن اور آر کے کیمبل اور یونیورسٹی آف پنٹل کے ماہرین کی تجاویز اچھی پچیں بنانے کے لیے موزوں ہیں

متحدہ عرب امارات کے صحراؤں میں سجے کرکٹ کے میدانوں میں قومی ٹیم نے ویسٹ انڈیز کو کرکٹ کے ہر شعبے میں مات دینے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ پہلے ٹی-20 اور پھر ون ڈے میچز میں فتوحات سمیٹ کر شاہین جب ٹیسٹ کھیلنے کے لیے مصباح الحق کی قیادت میں گراؤنڈ میں اُترے تو پہلے دونوں ٹیسٹ میچز میں مہمان ٹیم کو فالو آن کر دیا۔ جیت ہمیشہ خوشی کا باعث ہوتی ہے لیکن ان فتوحات پر یہ خوشی اتنی پُر جوش نہیں ہے۔ اس لیے نہیں کہ مقابلہ برابر کی ٹیموں میں نہیں ہے۔ ویسٹ انڈیز اپنے بدترین دور سے گزر رہی ہے۔ اس کے مرکزی کھلاڑی اپنی ٹیم کا حصہ نہیں ہیں۔ کھلاڑیوں اور بورڈ میں معاملات طے ہی نہیں ہو پا رہے۔ خیر یہ تو ان کے اپنے معاملات ہیں۔ اچھی بات یہ ہے کہ ہم انہیں شکست دے کر ون ڈے رینکنگ میں اپنی پوزیشن بہتر بنا کر ڈینجر زون سے نکلے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔

پہلے دو ٹیسٹ میچز میں قومی ٹیم کی کارکردگی میں وہ تسلسل نہیں تھا جو ہونا چاہیے۔ پہلے میچ کی پہلی اننگز میں غیر معمولی کارکردگی دکھا کر دوسری اننگز میں ڈھیر ہوگئے۔ تاہم فتح تو فتح ہوتی ہے اور اس لیے کپتان اور کھلاڑی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ عمر رسیدہ کپتان نے برصغیر میں زیادہ سے زیادہ ٹیسٹ جیتنے کا معرکہ بھی مار لیا۔ اس عمر میں ریکارڈ بنانا غیر معمولی ہے اور دُعا ہے کہ کپتان مزید ایسے کئی ریکارڈ بنا کر ہی کرکٹ سے رخصت ہو۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ مردہ وکٹوں پر ایسی کارکردگی نا قابلِ یقین ہے جو شاہینوں نے دکھائی۔ سوال یہ ہے کہ ایسی وکٹیں اور پچیں بنانے کی ضرورت کیا ہے۔ جب ہمارے پاس یاسر شاہ، محمد نواز اور ذوالفقار بابر کی صورت میں عالمی معیار کے سپن باؤلرز موجود ہیں اور ان کے علاوہ راحت علی، محمد عامر، وہاب اور سہیل خان جیسے تیز باؤلرز بھی قومی سکواڈ کا حصہ ہیں۔ ان باؤلرز کی موجودگی میں اتنی ڈیڈ وکٹیں بنانا بے معنی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصباح الحق کو کہنا پڑا کہ ’’سلو ٹریک پر وکٹیں لینا آسان نہیں تھا، سخت محنت اور پلاننگ سے فتح حاصل کی۔ برتری کے باوجود حریف کو فالو آن نہ کرانے کا فیصلہ باؤلرز کو آرام دینے کے لئے کیا تھا‘‘۔
ڈیڈ وکٹوں پر کپتان کی تشویش بے جا نہیں ہے۔ اس سیریزکے بعد قومی ٹیم نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کا دورہ کرنا ہے۔ فلیٹ وکٹوں پر کھیلنے والے گرین ٹاپ وکٹوں پر\"cric1\" جا کر کیا کارکردگی دکھائیں گے۔ اس کا جواب ان لوگوں کو دینا ہو گا جنہوں نے عرب امارات میں فلیٹ وکٹیں بنوائی ہیں۔

ایک ڈیڈ وکٹ باؤلرز کے لیے زہر قاتل ہوتی ہے۔ آپ کو یاد ہو گا کوئی تین دہائی قبل آسٹریلوی ٹیم پاکستان کے دورے پر آئی تو فیصل آباد ٹیسٹ کے بعد اس وقت کے مایہ ناز باولر ڈینس للی نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ’’میری قبر فیصل آباد کی مردہ وکٹوں پر بنا دی جائے تو مجھے سکون آ سکتا ہے‘‘۔ یہ طنز فیصل آباد کی ڈیڈ وکٹ کے لیے تھی اور تیس برس گزرنے کے بعد بھی للی اس وکٹ کو نہیں بھولے۔ اس دورے میں کچھ دن وہ لاہور جمخانہ کی گراؤنڈ میں پریکٹس کے لیے آئے تو جمخانہ کی وکٹ پر ان کی حیرانی دیدنی تھی اور وہ یہ کہہ اُٹھے کہ اس قدر عالمی معیار کی وکٹ نے تو مجھے پریشان کر دیا ہے۔ اگر پاکستان اپنے تمام سنٹرز پر ایسی وکٹیں بنا لے تو اسے کوئی بھی عالمی چیمپئن بننے سے نہیں روک سکتا۔ یہاں کا بیشتر ٹیلنٹ تو یہ مردہ وکٹیں کھا جاتی ہیں۔ لیکن افسوس کہ کسی نے ڈینس للی کی کسی بات پر غور نہیں کیا۔

یہ سچ ہے کہ میزبان ملک کا یہ استحقاق ہوتا ہے کہ وہ اپنی مرضی کی وکٹیں بنا کر فتوحات کی راہ ہموار کرے۔ ایسا دنیا بھر میں ہوتا ہے۔ بھارت کی ہی مثال لے لیں۔ یہ گھر کے شیر بیرون ممالک میں بھیگی بلی بن جاتے ہیں۔ وہ ہوم گراؤنڈز پر سپن وکٹیں بنا کر حریف ٹیموں کو گھیر لیتے ہیں۔ اسی طرح نیوزی لینڈ، آسٹریلیا اور انگلینڈ اپنی ضرورت کے پیشِ نظر تیز وکٹیں بنا کر مہمان ٹیموں کا حشر کرتے ہیں۔ جنوبی افریقہ کی ٹیم بھی اپنی ضرورت کے مطابق وکٹیں بنواتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ بھارت کے پاس اچھے سپنرز ہیں توہ سپن وکٹیں بنواتا ہے اور دیگر ممالک کے پاس فاسٹ باؤلرز کی بہتات ہے تو وہ تیز وکٹوں پر کھلاتے ہیں اور جس ملک کے ترکش میں کوئی تیر نہیں تو وہ ڈیڈ وکٹیں بنا کر گزارہ کرتے ہیں۔ یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ پی سی بی کو کیا اپنے باؤلرز یا بلے بازوں پر اتنا بھی بھروسہ نہیں۔ کیا شاہین معیاری وکٹوں پر کارکردگی دکھانے سے قاصر ہیں۔ اس ایشو پر غور کرنے کی ضرورت ہے اور اگر دنیائے کرکٹ کے بدلتے حالات میں مقابلہ کرنے کی خواہش ہے تو پھر اس کی تیاری عالمی نوعیت کی ہونی چاہیے اور اب کارکردگی کا معیار کسی ٹیم کو خالی شکست سے دو چار کرنا نہیں رہا۔ اب امپکٹ انڈس جیسے فارمولے سامنے آ چکے ہیں جو کارکردگی کا ایک نیا پیمانہ ہے جس میں ہر پہلو کو مدِ نظر رکھا جاتا ہے، جیسے آئی سی سی اگر کسی کھلاڑی کو پلیئر آف دی ائیر قرار دیتی ہے تو اس کا اب مطلب یہ نہیں کہ منتخب کھلاڑی نے زیادہ رنز بنائے ہیں یا اس نے بہت وکٹیں لیں ہیں۔ امپکٹ انڈس میں یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ اس کھلاڑی کی کارکردگی ہم پلہ ٹیم سے ہے اور اس کی ناکامی کی شرح کیا ہے۔ اس کھلاڑی کے سپورٹنگ نکات کون سے ہیں۔ ایک کھلاڑی اوپنر کے جلدی آؤٹ ہونے کی صورت میں تیسرے نمبر پر بلے بازی کرتا ہے اور نئے گیند کی موجودگی میں رنز بناتا ہے تو اس کی کارکردگی اس کھلاڑی سے بہتر ہو گی جس نے اوپنرز کی شاندار کارکردگی کے بعد رنز بنائے ہوں یعنی وہ بغیر دباؤ کے کھیل کر دباؤ میں کھیلنے والے کھلاڑی سے زیادہ رنز بنانے کی صورت میں بھی بہترین نہیں ہے۔ عالمی معیار اور پیمانے بدل رہے ہیں اور اگر وقت کے ساتھ چلنا ہے تو ہمیں بھی کارکردگی کے یہی پیمانے استعمال کرنے ہوں گے۔

کرکٹ کا اصل چہرہ پچ میں دکھائی دیتا ہے۔ کسی بھی میچ میں بیٹسمین اور باؤلر کی کامیابی کو تو ان کی مہارت سمجھا جاتا ہے لیکن اگر وہ کچھ نہ کرسکیں تو ناکامی پچ\"cric\" تیار کرنے والے کے کھاتے میں لکھ دی جاتی ہے جسے گراؤنڈز مین یا کیوریٹر کہتے ہیں۔ پاکستان میں ڈیڈ یا بے جان پچز کی بحث اتنی ہی پرانی ہے جتنی خود پاکستانی کرکٹ کی تاریخ۔ ایسی پچیں جن پر رنز کے ڈھیر لگیں، وکٹیں کم گریں اور میچ کسی دلچسپی کے بغیر پانچ دن جاری رہنے کے بعد ڈرا پر ختم ہوجائے ہمیشہ سے تنقید کی زد میں رہی ہیں۔ بیٹسمین اور بولرز کے لیے یکساں مدد کی حامل سپورٹنگ وکٹیں نہ بننے کا نقصان پاکستانی بیٹسمینوں کو ہی ہوا ہے کیونکہ جب وہ پاکستان سے باہر کھیلتے ہیں تو تیز باؤنسی اور گھاس والی پچوں پر ان کی خامیاں کھل کر سامنے آجاتی ہیں جو پاکستانی پچوں پر ظاہر نہیں ہوتیں جہاں وہ بلا خوف و خطر رنز کے ڈھیر لگا رہے ہوتے ہیں۔

ساٹھ اور ستر کے عشرے میں پاکستان میں ڈرا ہونے والے ٹیسٹ میچز کی ایک بڑی وجہ بے جان پچز تھیں۔ پچوں کی تیاری پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی تھی گو کہ بعد میں صورت حال کچھ بہتر ہوئی اور کئی ایسی سیریز بھی کھیلی گئیں جن میں اچھی پچیں تیار ہوئیں اور شائقین کو دلچسپ کرکٹ دیکھنے کو ملی لیکن یہ مسئلہ اب بھی کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے جس کی کئی وجوہات بیان کی جاتی ہیں۔ کچھ اسے گراؤنڈز مین کی پچز کی تیاری کے سلسلے میں مہارت نہ ہونا قرار دیتے ہیں۔ کچھ اسے مخصوص موسمی حالات کا سبب سمجھتے ہیں اور کچھ کے خیال میں یہ شکست کا خوف ہے جو حریف ٹیم کی قوت دیکھ کر ہوم ایڈوانٹج کے نام پر بے جان پچ بنانے پر مجبور کر دیتا ہے۔

یہ مسئلہ صرف ہمارے ملک کا نہیں ہے۔ 2015 میں ناگ پور میں ساؤتھ افریقہ اور بھارت کے درمیان ہونے والا ایک ٹیسٹ میچ محض وکٹ کی وجہ سے تین دن میں اختتام پذیر ہوا تھا، جس پر آئی سی سی نے اس حوالے سے تحقیقات کا فیصلہ کیا تو بھارتی کھلاڑی روی شاستری نے فوراً ہی ایڈیلیڈ کی وکٹ کا طعنہ دیتے ہوئے کہا کہ اگر ناگ پور وکٹ پر تحقیقات ہوں گی تو ایڈیلیڈ میں بھی اتنے ہی عرصہ میں میچ ختم ہوا ہے۔ وہاں بھی ایسی ہی کارروائی ہونی چاہیے۔ اس مثال سے ثابت ہوا کہ تمام ملک اپنے مفادات میں وکٹیں بنواتے ہیں۔ چاہے وہ ڈیڈ وکٹیں بنوائیں یا گرین ٹاپ وکٹیں لیکن اس سے کرکٹ کے حُسن کو گرہن لگتا ہے۔

اچھی پچ کے بارے میں اگر کوئی نہیں جانتا تو اسے اس بارے میں آیئن چیپل کی رائے کو پڑھ لینا چاہیے۔ وہ کہتے ہیں کہ ایک اچھی پچ وہ ہے جو بیٹ اینڈ بال کے درمیان مقابلے کی فضا پیدا کرے اور میچ نتیجہ خیز بنائے۔ یہ طے ہے کہ ساری دنیا میں وکٹیں ایک جیسی نہیں ہو سکتیں۔ کہیں کی مٹی سپن اور کہیں کی فاسٹ باؤلرز کے لیے موزوں ہوتی ہے اور جو لوگ مرضی کی وکٹیں بنانے کے الزام کو بنیاد بنا کر شکست کو تسلیم نہیں کرتے ان کے لیے عرض ہے کہ وہ اپنے بلے بازوں کی تربیت جدید خطوط پر استوار کریں پھر وکٹوں کا بہانہ ختم ہو جائے گا لیکن ڈیڈ وکٹیں بنانے کا مطلب یہ ہے کہ آپ کے پلے کچھ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ایک اچھی پچ بنانے کے لیے یونائیٹڈ بورڈ آف ساؤتھ افریقہ کے این ایم نیٹن، جے آر کلاگ، ڈی ایڈموسن اور آر کے کیمبل اور یونیورسٹی آف پنٹل کے ماہرین نے اچھی پچوں کے لیے یہ تجاویز پیش کیں ہیں اور ان پر عمل درآمد کی ضرورت ہے۔

1۔ گراؤنڈ مین کو پچوں کی تیاری کے حوالے سے سیمینار میں تواتر سے شریک ہونا چاہئیں۔\"cric2\"
2۔ گراؤنڈ مین کو مٹی کی اقسام سمجھنے اور سوجھ بوجھ کے لئے لیکچرز لینے چاہئیں۔
3۔ گراؤنڈ مین کو گراؤنڈ میں گیندوں کی رفتار اور باونس معلوم کرنے کے آلات دینے چاہئے۔
4۔ گراؤنڈ کی تیاری اور خصوصی پچ بنانے کے جدید آلات اور تکنیک کا استعمال سکھانے کے لیے گراؤنڈ مین کی خصوصی تربیت ہونی چاہیے۔
یہی ماہرین یہ بھی کہتے ہیں کہ ٹیسٹ میچ کے لیے اچھی پچ
1۔ پہلے دن نمی والی ہوتی ہے اور اس پر گھاس بھی پایا جاتا ہے اور گیند کی رفتار اور باونس ایکوریٹ ہوتا ہے۔
2۔ دوسرے اور تیسرے دن وکٹ خشک ہونا شروع ہوتی ہے۔ گھاس ختم ہو جاتا ہے اور گیند پوری طرح بلے پر آتا ہے۔
3۔ چوتھے روز پچ اپنا زور دکھانا شروع کرتی ہے اور باونس کم ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
4۔ پانچویں روز پچ میچ کا فیصلہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ گیند ٹرن لینا شروع کرتی ہے اور باؤلرز کو مدد دیتی ہے۔
یہ ماہرین پچ کے اجزائے ترکیبی یوں بتاتے ہیں۔
مٹی (گارا) 50 سے %60 (انگلش اور نیوزی لینڈ کی پچوں میں مٹی کا تناسب 30 فیصد تک ہوتا ہے)
ریت 10%
کیلشیم کاربونیٹ 5%
سوڈیم 50%
لنیٹر 0.08  سے 0.15 %
آرگینک مواد 5%
گارے کی تہہ یہ تہہ 70 ملی میٹر سے 30 ملی میٹر تک ہو
جب سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں ہر چیز واضح ہے تو پھر ڈیڈ وکٹیں بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ کرکٹ بورڈ اپنے باؤلرز اور بلے بازوں پر بھروسہ کرے اور گراؤنڈ مین کو تربیت کے لیے بیرون ممالک بھجوائے اور اچھی کرکٹ کے لیے اچھی وکٹیں بنائیں۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بکس
کر کٹ پچز کی اقسام
کرکٹ کی پچیں ہمیشہ سے ہی مختلف رہی ہیں اور ہر پچ کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ کوئی پچ بلے باز کے لیے موزوں ہونے کا سبب بنتی ہیں۔ اسی لیے کپتان پچ دیکھ کر پہلے

\"West

بلے بازی یا باؤلنگ کا فیصلہ کرتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ کئی مرتبہ پہلے بلے بازی یا باؤلنگ کرنے کا فیصلہ گلے پڑ جاتا ہے۔ گویا کپتان وکٹ کی حالت پڑھنے میں چوک گیا، تو سمجھیں شکست اس کا مقدر ہو گئی۔ ایسی پچوں اور وکٹوں کی پانچ قسمیں ہوتی ہیں۔
1۔ ڈیڈ پچز
ڈیڈ پچز یعنی مردہ وکٹیں آج کل بہت عام ہیں اور یہ خالصتاً بلے بازوں کے لیے آسان ہوتی ہیں اور ان کے بلے تواتر سے رنز اگلتے ہیں۔ باؤلرز بے چارے سر پیٹتے رہ جاتے ہیں اور ان کی ایک نہیں چلتی، ایسی وکٹوں پر گھاس کا ایک تنکا بھی نہیں رہنے دیا جاتا اور رہی سہی کسر وکٹ کی نمی کو ختم کر کے پوری کری جاتی ہے۔ ویسے بھی یہ ٹی 20- کا دور ہے جس میں لوگ مار دھاڑ ہی تو دیکھنے آتے ہیں۔ تجارتی نکتہ نظر رکھنے والے اداروں کی مجبوری بن جاتی ہے کہ ڈیڈ وکٹیں بنوائی جائیں۔ لیکن آئی سی سی کو اس بات پر توجہ کرنا ہو گی کہ ٹی-20 ، ون ڈے اور ٹیسٹ میچز کی وکٹوں کا بھی معیار ہونا چاہیے۔ چلیں مار دھاڑ کے لیے ٹی-20 کرکٹ کے لیے ڈیڈ پچز ہی مناسب ہیں تو یہ فارمولا ٹیسٹ کرکٹ میں نہیں دھرانا چاہیے۔
2۔ ڈسٹی پچز
ایسی وکٹیں بھارت اور سری لنکا میں دیکھی جاتی ہیں۔ ان کی سطح نرم ہوتی ہے اور اسے نرم ہی رکھنے کے لیے اس پر ہارڈ رولر نہیں چلایا جاتا۔ یہ وکٹیں خصوصاً سپن باؤلرز کی مدد کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ یہاں سپنرز ہی اپنی گیند کو بہتر انداز میں گھما سکتے ہیں۔ بلے باز کو اس وقت مشکل کا سامنا ہوتا ہے جب گیند قدرے نیچے رہتی ہے اور باونس بالکل بھی نہیں ہوتا۔ انہی وکٹوں پر گزگز بھر کی بریک کرنے والے باؤلر چھا جاتے ہیں۔ یہ وکٹیں چوتھے اور پانچویں روز غیر معمولی ٹرن لینا شروع کر دیتی ہیں۔
3۔ گرین ٹاپ پچز
ایسی وکٹوں کو بلے بازوں کا قبرستان قرار دیا جاتا ہے اور کم رفتار لیکن سوئنگ کروانے والا باؤلر سب کچھ بہا کر لے جاتا ہے۔ ایسی وکٹوں پر گھاس ہوتا ہے اور خاص طور پر گڈ لنیتھ ایریا میں تو وکٹ سبز ہوتی ہے۔ بلے باز گیند کی سمت کو سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے۔ ایسی وکٹوں پر عموماً رنز کم بنتے ہیں اور ایک وقت تھا کہ کپتان چھ سلپ فیلڈرز کے ساتھ فیلڈ کھڑی کیا کرتا تھا۔
4۔ سلو اینڈ لو پچز
ایسی وکٹیں سری لنکا، ویسٹ انڈیز، زمبابوے اور بنگلادیش میں بنائی جاتی ہیں۔ ان میں زندگی کی رمق نہیں ہوتی اور ون ڈے میچز میں تو ایسی وکٹوں پر 250+  رنز کافی تصور ہوتے ہیں۔ وہ سپن باؤلرز جنہیں اپنی لائن لنتھ پر کنٹرول ہوتا ہے ایسی وکٹوں پر بہت ہی موثر ثابت ہوتے ہیں۔ آسان لفظوں میں کہہ لیں کہ ایسی وکٹوں پر شائقین کرکٹ کے حقیقی لطف سے محروم رہتے ہیں۔
5۔ سیم پچز
ہوا میں ذرا سی نمی ہو تو ایسی وکٹوں پر باؤلرز کی موجیں ہی موجیں ہوتی ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ایسی وکٹیں میڈیم پیسرز کے لیے بنائی جاتی ہیں۔ انگلینڈ، سکاٹ لینڈ، آئرلینڈ اور کینیڈا میں سیم پچز کا عام رواج ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments