بارے آرٹ کا کچھ بیان ہو جائے


\"aamir-rahdari\"

آرٹ کی کئی قسمیں ہیں۔ پاکستان میں ہر قسم کا آرٹ پایا جاتا ہے لیکن آج کل سب سے مشہور آرٹ کسی کو لوٹنے کا آرٹ ہے اور الو بنانے کا آرٹ صرف سیاستدان جانتے ہیں۔ ان مزکورہ آرٹس کو عرف عام میں چونا لگانا کہتے ہیں اور چونا لگانا بھی خود اپنی صنف میں ایک آرٹ ہے۔ ہمارے نصاب میں مڈل تک ایک مضمون آرٹ کا بھی ہوتا ہے (مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ پتا نہیں اس کا انسانی زندگی میں کیا کام ہے)۔

میری ڈرائنگ بھی یوسفی صاحب کی طرح بہت اچھی تھی وہ تو چلو کم از کم انگور تو بنا لیتے تھے میں تو پیپر میں دائرہ بنا کر اس کے ساتھ ”دائرہ“ نہ لکھتا تو استاد مجھے ”چوکور“ بنانے کے 20 میں سے 20 نمبر دے دیتا تھا۔ اب تو خیر موبائل لے کر دیا جاتا ہے پر بچپن میں بچوں کو رنگوں کی ڈبیا اور ڈرائینگ پیپر لے کر دیے جاتے تھے جس سے بچے یہ سیکھتے تھے کہ مختلف دیواروں پر کون سا رنگ اچھا لگ سکتا ہے بلکہ اکثر والدین تو بچوں سے آئیڈیا لیا کرتے تھے کہ دیواروں پر اس دفعہ کون سا رنگ اچھا لگے گا۔

آرٹ کی ایک نمایاں خوبی یہ بھی ہے اس سے چند ایسے افراد مصروف رکھے جا سکتے ہیں جن کا انسانی زندگی میں سوائے بےروزگار رہنے کے اور کوئی کام نہیں ہوتا۔ دنیا میں آرٹ گیلریاں لگتی اور لوگ فن پارے دیکھنے جاتے ہیں ہمارے ہاں بھی آرٹ گیلریاں لگتی ہیں لیکن لوگ حسن پارے دیکھنے جاتے ہیں۔ ہمارے ہاں شادی کرنا بھی ایک آرٹ ہے اور اس آرٹ میں عورتیں ہمیشہ کامیاب رہتی ہیں۔ ویسے سنا ہے شاعری بھی ایک آرٹ ہے لیکن ہمارے خیال میں شاعری کسی کو کامیابی کے ساتھ سنانا اس سے بھی بڑا آرٹ ہے۔

تجریدی آرٹ بھی کمال کا فن ہے۔ جسے کچھ بھی نہ آتا ہو اسے تجریدی آرٹ ضرور آتا ہے۔ کہتے ہیں تجریدی آرٹ وہ واحد ہنر ہے جو بچہ ماں کے پیٹ سے سیکھ کر آتا ہے اس ہنر کے نمونے اکثر گھروں کے فرش اور گلیوں کی اطراف میں دیکھے جا سکتے ہیں بچپن کے اس آرٹ کو عرف عام میں ”گلکاریاں“ کہا جاتا ہے تجریدی آرٹ، آرٹ کی وہ قسم ہے جس میں آپ کچھ بھی بنا دیں کچھ نہ بھی بنا ہو تو کچھ نہ کچھ ضرور بن جائے گا۔ اس آرٹ کے لئے سب سے ضروری چیزیں رنگ اور کاغذ ہوتا ہے۔ کہتے ہیں تجریدی آرٹ کو سیکھنے لئے آپ کے پاس اور کچھ ہو نہ ہو، عقل نہیں ہونی چاہیے۔

تجریدی مصوری اور تجریدی افسانہ وہ اصناف ہیں جن میں تخلیق کار کو خود نہیں پتا ہوتا کہ آخر میں کیا بنے گا اچھی چیز بن گئی تو تخلیق کار پھولے نہیں سماتا اور بری چیز بن گئی تو اسے تجریدی نمونہ کہ کر پھر بھی پھولے نہیں سماتا۔ اسی طرح مشہور مصور پکاسو کے گھر چوری ہوگئی۔ پولیس نے کہا آپ تو خود مصور ہیں ہمیں چوروں کی تصویریں بنا دیں تو ہم چور آسانی سے پکڑ لیں گے۔ پکاسو نے تصویریں بنا دیں۔ دو گھنٹے بعد پولیس نے دو طوطے، تین گائیں اور ایک گھوڑا پکڑ لیا۔ ویسے وہ انسانوں کو بھی پکڑ سکتے تھے لیکن وہاں کی پولیس بھی شاید پاکستانی پولیس کی طرح تھی جنہیں انسان صرف اس صورت میں نظر آتا ہے جب وہ غریب ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments