گونگا طالب علم اور تیسری آواز سننے سے معذور استاد


 کمرہ جماعت میں خاموشی تھی۔ استاد منصفانہ سماعت کے اصول بیان کر رہا تھا۔ ملزم کو دفاع کا حق کیوں ہے؟ الزام کا بار ثبوت مدعی پر کیوں ہے؟ قطعی شواہد اور ثبوت کے بغیر ملزم کو معصوم کیوں سمجھا جائے گا، کوئی درجن بھر نکات ختم ہوئے تو سوالات کی دعوت دی گئی۔ تیسری قطار میں ایک نوجوان نے سوال کرنے کے لئے اٹھنا چاہا۔ ہاتھ کے اشارے سے بتایا گیا کہ آپ کو کھڑے ہونے کی ضرورت نہیں۔ بیٹھ کر بھی بات کر سکتے ہیں۔ کچھ تامل کے بعد دو تین زبانوں میں ملا جلا جملہ طالب علم نے ادا کیا۔ مفتی عبد القوی کا صرف نام سنائی دیا، باقی جملہ کچھ خود کلامی اور کچھ عجز لسانی کی نذر ہو گیا۔ سوال دہرانے کی درخواست کی گئی۔ طالب علم کی آنکھوں میں ہرن جیسی سراسیمگی تھی۔ سوال واضح ہوا تو معلوم ہوا کہ طالب علم کچھ حالیہ واقعات کے تناظر میں مفتی عبد القوی صاحب کا دفاع کرنا چاہتا ہے۔ مگر بیٹا یہاں تو مفتی صاحب کا کوئی ذکر نہیں ہوا۔ یہاں جتنی بھی مثالیں دی گئیں، انہیں احتیاط سے مقامی واقعات اور ناموں سے الگ رکھا گیا تھا۔ اپنے ملک کا کوئی مانوس حوالہ نہیں دیا گیا۔ مقصد یہ تھا کہ طالب علم ذاتی پسند، ترجیحات اور تعصب سے اوپر اٹھ کر اصول قانون پر غور کر سکیں۔ اس بچے کی شیو کچھ بڑھی ہوئی تھی۔ لباس سادہ، لہجے میں اعتماد نہیں تھا، سوال میں جھنجھلاہٹ اور کسی قدر انفعالیت کی جھلک تھی۔ استاد نے تھوڑی سی وضاحت کی اور پھر تھک کر کرسی پر بیٹھ گیا۔ طالب علموں سے شفقت کے لہجے میں کہا مجھے آج احساس ہوا ہے کہ ہماری اعلیٰ درس گاہوں میں طالب علم اور استاد کے درمیان ابلاغ میں ایک بڑی رکاوٹ کیا ہے۔

یہ معاملہ کسی کی ذہانت اور صلاحیت کا نہیں ہے۔ کمرہ جماعت میں ہم اپنے عزیز خیالات اور احساسات کا ایک بستہ باندھ کر ہمراہ لاتے ہیں۔ ہم ایک دوسرے کی بات تو سنتے ہی نہیں۔ ہمارے اندر تو ایک ہی خیال نے وحشت مچا رکھی ہے کہ کہیں ہمارے تعصبات کوئی حرف تو نہیں آرہا۔ ہم اپنی رائے تبدیل ہونے سے دہشت زدہ ہیں۔ گویا علم کا بنیادی مقصد فوت ہو گیا۔علم الماری میں رکھی ہوئی کتابوں کا نام ہوتا تو کمرہ جماعت کی بجائے لائبریری سے رجوع کرنا چاہئے تھا۔ وہاں سب کتابیں رکھی ہیں۔ کوئی دن جاتا ہے کہ ٹیکنالوجی کی ترقی سے ہم ہر کتاب براہ راست اپنے دماغ میں ڈاﺅن لوڈ کر سکیں گے۔ ٹھیک ٹھیک بتا سکیں گے کہ کون سا لفظ کون سی کتاب میں کتنی بار آیا ہے۔ فلاں واقعہ کس تاریخ کو رونما ہوا تھا۔ فلاں شہر کہاں واقع ہے۔ صاحبو، تعلیم تو ایک مسلسل سیمینار ہے جس میں دستیاب معلومات اور درپیش مسائل میں ایک متحرک کشمکش کے ذریعے مسلسل دریافت کے عمل سے گزرنا ہے۔ کہیں اپنی معلومات کو درست کیا جائے گا، کہیں طریقہ کار بدلنا ہو گا اور کہیں ہدف پہ نظر ثانی کی جائے گی۔

ہم میں سے ہر انسان معلومات، مشاہدات اور داخلی واردات کا ایک خاص قوام رکھتا ہے۔ انسانوں کی بستی میں کچھ بھی طے شدہ نہیں ہوتا۔ ہمیں ایک دوسرے سے مکالمہ کرتے ہوئے وقفے وقفے سے رک کر ایک تیسری رائے بھی لینا ہے۔ مکالمے میں یہ تیسری رائے لازمی طور پر بہتر نہیں لیکن آپ کے اور میرے موقف میں موضوعی مفاد کے خدشات کو رفع کرنے کے لئے خارجی رائے بار بار مانگنا پڑتی ہے تا کہ ہم دونوں جان سکیں کہ گھاس کے جس قطعہ پر ہم دونوں نے سینگ پھنسا رکھے ہیں، وہاں ایک تیسرا زاویہ بھی موجود ہے۔ ہاتھی دانت کے ایک ٹکڑے پر زور آزمائی کرتے رہیں گے تو امکان کا منطقہ وسیع نہیں ہوسکے گا۔ اقبال نے بھی اس زمان و مکان میں الجھ کر رہ جانے سے منع کیا تھا۔ اقبال سے کئی برس پہلے غالب نے لکھا تھا، ہم نے دشتِ امکان کو ایک نقشِ پا پایا۔ گویا جو صحرا کے ذرے گن سکتا ہے، وہ گن جائے۔ غالب سے ٹھیک ایک سو برس بعد 1969 میں انسان چاند پر جا پہنچا۔ نیل آرمسٹرانگ نے چاند پر قدم رکھنے کے بعد ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ایک فرد کے طور پر میں نے بہت بڑی جست لگائی ہے مگر انسانیت کے لئے یہ محض ایک قدم ہے۔ واضح رہے کہ نیل آرمسٹرانگ اردو نہیں جانتے تھے اور گمان یہی ہے کہ غالب کو نہیں پڑھ رکھا تھا۔

ہم ناخواندگی کے بہت بڑے مسئلہ سے دوچار ہیں۔ اگر ہم اپنے ہم وطنوں کو پڑھنا لکھنا نہیں سکھا سکیں گے تو ہماری کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔ تاہم اس بنیادی مسئلے سے ہٹ کر غور فرمائیے۔ ایک کروڑ کے قریب لوگ ہمارے ملک میں یونیورسٹی گریجویٹ ہیں۔ قومی سلامتی اور تزویراتی گہرائی کے نازک معاملات سے قطع نظر ٹیکس ادا کرنے کا ہمارے ہاں چلن نہیں۔ ٹریفک کے قوانین کی ہم پروا نہیں کرتے۔ ادھر ادھر کی آمدنی، ذاتی مفاد اور اقربا پروری کو ہم زندگی کا حصہ سمجھتے ہیں۔ نصاب کی کتاب نے تو ہمیں یہ نہیں سکھایا تھا۔ خواندگی کا مسئلہ اپنی جگہ لیکن اگر تعلیم ہمارے رویوں میں حل نہیں ہوتی تو ایسی تعلیم سے کیا حاصل؟ درویش کی رائے میں ہم نے علم کو ایک پوٹلی میں باندھ کر بیل گاڑی پر رکھ چھوڑا ہے۔ اگر ہم علم کی رستاخیز میں پورے وجود اور کھلے دماغ کے ساتھ داخل نہیں ہوتے تو علم ہماری ذات پر اثر انداز نہیں ہوتا۔ ہماری قبا بدل جاتی ہے، رہن سہن کے انداز بدل جاتے ہیں لیکن علم کی جھلک ہمارے رویے، خیالات اور طور اطوار میں نمودار نہیں ہوتی۔ ہم نے علم کی مخالفت پر کمر باندھ رکھی ہوئی ہے۔علم عصبیت سے اوپر اٹھنے کا نام ہے۔ ہم نے علم کو عصبیت کا اسیر کر رکھا ہے۔ یہ ہماری درس گاہ میں ہورہا ہے، یہی ہم اخبار کے صفحے پر کر رہے ہیں۔ ٹیلی وڑن کی اسکرین پر ہم تعصبات کا مورچہ لگائے بیٹھے ہیں اور جلسہ گاہ سے پارلیمنٹ تک ہم اپنے درمیان موجود تیسری آواز سننے پر تیار نہیں ہیں۔ علم کی دنیا تیسری آواز پر کان دھرنے کا نام ہے۔

8 نومبر 2016 ء


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments