قانونی جنگ ن لیگ اور عمران خان کے مستقبل کا فیصلہ کرے گی!


\"razak-khatti\"

(رزاق کھٹی)

دوپہر کی آمد میں ابھی چند ساعتیں رہ گئی تھیں۔ بیگم نے نیند سے جگایا تو ابھی رات کی تھکن کے اثرات آنکھوں میں باقی تھے۔

’’ فوج تو نہیں آگئی‘‘

آنکھ کھلتے ہی میرا پہلا سوال یہی تھا،

’’ نہیں ‘‘ اس کا جواب سن کر کچھ اطمینان ہوا۔ یہ دو سال پہلے کی ایک سرد صبح کی بات ہے۔ جب پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اپنے سیاسی کزن طاہر القادری کے
ساتھ پارلیمنٹ ہاؤس اور وزیر اعظم ہاؤس پر چڑہ دوڑے تھے۔ اس رات ایک جنگ کا سماں تھا، جو ریڈ زون میں جاری تھی۔ لوگ ہاتھوں میں کٹر اور پلاس لئے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے لگی خاردار تاریں کاٹ رہے تھے۔ سینکڑوں بلوائی اندر داخل ہوچکے تھے، وہ رات ممکن ہے کہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے جاگ کر گذاری ہو، لیکن سیاست کے سنگ رہنے والے اہل فہم میں سے اس رات کون سویا تھا؟

بڑے جوش اور جذبے کے ساتھ انتہائی جلدی میں عمران اور قادری دوڑتے گرتے جی ایچ کیو پہنچے، اس رات جنرل شریف نے ان سے کیا کہا کسی نے ابھی تک نہیں بتایا۔ فوج نہیں آئی۔ نواز شریف کی گردن کا سریا کچھ ماہ کے لئے نرم ضرور ہوگیا۔ لیکن پارلیمنٹ جھموریت کے ساتھ کھڑی رہی۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ دھرنے کا ذائقہ اس چیونگم کی طرح ہوگیا جسے آخرکار تھوکنا ہی پڑتا ہے۔ علامہ قادری تو اپنے مریدین کے ساتھ چلتے بنے۔ اور اپنے سیاسی کزن کو چھوڑ دیا، اس کے بعد یہ تعلق تاحال نہ جڑسکا !

آرمی پبلک اسکول پشاور میں معصوم طلبا کے خونی سانحے نے عمران خان کی عزت رکھ لی اور انہیں دھرنے سے باعزت واپسی کا راستہ مل گیا۔

گذشتہ ماہ جب عمران خان نے دھرنا پلس کا اعلان کیا تو ایک بار پھر دو سال پہلے والا دعویٰ کیا گیا کہ وہ اس بار نواز شریف کو مرنے مارنے کے سوا نہیں چھوڑیں گے، لگتا بھی ایسا ہی تھا اور لگتا بھی یہی ہے!

\"imran\"

اسلام آباد جو تبو کی طرح اداس خوبصورتی کی علامت ہے، اس کے باسیوں کو پہلی بار اپنی تنہائی سے خوف آنے لگا۔ ٹی وی اسکرین اس تنہائی کے خوف پر جلتی پر تیل کا کام کرتی رہی، ایسا لگتا تھا کہ رن پڑنے ولا ہے۔ وفاقی اور پنجاب کی حکومتوں نے کہا کہ پرویز خٹک اپنے ساتھ وہ مسلح جہادی جتھے بھی اسلام آباد لارہے ہیں جن کے فکر سے ان کے قائد عرصہ دراز سے متاثر ہوتے آرہے ہیں۔ پی ٹی آئی بھی کہتی رہی کہ ن لیگ ان مسلح جہادیوں کو پنجاب سے اسلام آباد لارہی ہے جنہیں وہ مالی وسائل فراہم کرتی رہی ہے۔ دونوں طرف جہادی تھے۔ اور جذبہ شہادت سے سرشار بھی !

ابھی دھرنا پلس میں چند دن باقی تھے۔ اسی دوران اکتوبر کے آخری دنوں کی ایک شام پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف، چودہری نثار اور اسحاق ڈار کو ساتھ لیکر آرمی چیف سے ملاقات کے لئے جی ایچ کیو پہنچ گئے۔ ملاقات کا مدعا وہی سرل المیڈا کی خبر تھا۔ جو فوج کے بقول قومی سلامتی کو شدید نقصان پہنچانے کا سبب بنی تھی۔ فوج نے سویلین کی کلاس لی لیکن معاملہ ابھی ٹھنڈا نہیں ہوا تھا۔ اس نقصان کے ازالے کے لئے خبر دینے والی کی خبر لینے کا معاملہ کسی طور سرد ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ اس شام فوجی قیادت نے سویلین پر واضح کیا کہ انہیں اس کا ہاتھ چاہیے جس کا اس خبر میں ہاتھ ہے۔ چالاک چھوٹے میاں کی تجویز پر پرویز رشید کی بلی چڑھا دی گئی۔ جی ایچ کیو سے واپسی کے بعد ن لیگ کی قیادت کے تیور تبدیل ہوچکے تھے۔ ان کے خیال کے مطابق شہر کو سیل کرنے والوں کے پیچھے بھی ’’وہی‘‘ ہیں۔ اس لئے اب ان سیل کرنے والوں سے دود و ہاتھ ہوجائیں۔ پھر جو ہوا وہ سب نے دیکھا۔

حالیہ اکتوبر کے آخری ایام بھی ایسے ہی تھے، حکومت اور عمران خان نے مل کر جو صورت حال پیدا کی اس نے عام آدمی کو یہ تاثر دیا کہ بہت خون خرابہ ہوگا، یہ مفروضہ زیر گردش تھا کہ ایک بار پھر جنرل راحیل جنرل کاکڑ کی طرح میاں نوازشریف کو مستعفی ہونے کی ’’درخواست‘‘ کریں گے۔ اور عمران خان ٹھنڈے ہوکر واپس لوٹ جائیں گے۔ لیکن حالات جب حد سے گذرنے لگے تو یہ اچھی خبر ملی کہ سپریم کورٹ نے ان درخواستوں کو قابل سماعت قراردیا جن کو رجسٹرار پہلے مسترد کرچکے تھے۔ یکم نومبر کو سماعت ہوئی۔ عمران خان نے دھرنا پلس کو تشکر میں تبدیل کرنے کا اعلان کیا تو سب نے شکر ادا کیا، یہ پہلی بار تھاجب تحریک انصاف کے اہم اکابرین اور حکومت کے اہم عہدیدار اور عام آدمی نے اسلام آباد میں سکھ کا سانس لیا۔ اب ٹی وی اسکرینوں سے آنسو گیس نہیں نکلتی۔ لیکن سازشی تھیوریاں آئے روز نئی بیان ہوتی ہیں۔ کیا عمران خان نے یہ سب کچھ سپریم کورٹ کو دباؤ میں لانے کے لئے کیا تھا؟ یہ بھی ایک سوال ضرور ہے، جسے لوگ یوٹرن خان کہتے ہیں ممکن ہے کہ اپنے کارکنان کو بے آبرو کرکے یہی حاصل کرنا چاہتے ہوں!

\"nawaz-sharif\"

پاناما پیپرز کے مقدے میں تو شریف خاندان کو کچھ نہیں ہوگا۔ لیکن اگر کمیشن نے کام شروع کیا تو ہمارے وزیر اعظم آئین کے آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ کے مطابق صادق اور امین نہیں رہیں گے۔

عمران خان دوسری بار کمزور جہموریت کو جھٹکا دینے میں ناکام رہے۔ ان کے سوا باقی ساری جماعتیں اس لئے جہموریت کے ساتھ کھڑی رہیں کیونکہ وہ یہ تاثر دیتے رہے کہ فوج ان کے ساتھ ہے اور وہ موجودہ نظام کو لپیٹنا چاہتے ہیں۔ وہ کوئی بھی دلیل دیں لیکن پاکستان میں کرپشن کے خلاف ان کی تحریک کو اسٹیلشمنٹ کی کارستانی سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہی سبب ہے کہ ان کی ناکامی کو اس ملک کے عوام کے فائدے میں سمجھا جاتا ہے۔

موجودہ چیف جسٹس اکتیس دسمبر کو رٹائرڈ ہورہے ہیں، انہوں نے اعلان کیا ہے کہ ان کی سربراہی میں قائم ہونے والا پانچ رکنی بنچ بنائے گئے کمیشن کی سفارشات پر فیصلہ کرے گا۔ جس سے اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتاہے کہ چیف صاحب کی رٹائرمنٹ سے قبل ہی کمیشن اپنا کام مکمل کرلے گا۔ لیکن ن لیگ کی چالاکیاں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ ایک بڑی قانونی ٹیم آنے والے دنوں میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کے ہنر کا مظاہرہ کرنے کے لئے تیاری میں مصروف ہے۔ نومبر میں انہیں ایک اور معرکہ سر کرنا ہے جسے نئے آرمی چیف کی تقرری کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے۔ رواں سال اکتیس دسمبر تک ہی نواز شریف کے لئے کچھ پریشانیاں ہیں، جبکہ حالیہ کھیل میں عمران خان اور ان کے اتحادیوں کا پالا ایک ایسے تجربہ کار جغادری اور طاقت سے لیس دولت مند کھلاڑی سے پڑا ہے جو ہر آدمی کو بکاؤ مال سمجھتا ہے۔ پاناما پیپرلیکس کا معاملہ تو انتہائی پیچیدہ ہے، جس میں کچھ نکلتا نظر نہیں آتا۔ اگر شیخ رشید کی درخواست پر بات آگے چلی تو نواز شریف خود کو نہیں بچاسکیں گے۔ نواز شریف ایک اعصابی جنگ سے تو نکل گئے۔ اگر قانونی جنگ سے نکل گئے تو انہیں دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں کامیابی سے کوئی نہیں روک سکے گا!

یاد رہے کہ موجودہ چیف جسٹس کے خلاف سوشل میڈیا پر مہم شروع کرکے کے روک دی گئی، عین خدشہ ہے کہ چند دنوں میں یہ مہم ایک بارپھر تیزی سے شروع ہوجائے گی۔

نوٹ: رزاق کھٹی سندھی روزنامہ سندھ ایکسپریس اور سندھی نیوز میگزین افیئر کے مستقل لکھاری ہیں، اس وقت وہ اسلام آباد میں اب تک ٹی وی چینل پر سینئر پولیٹیکل رپورٹر کے طور پر کام کررہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments