سعی و تغیر کے ولی


\"ali

پاکستان میں کوئی سا بھی قومی دن ہو ٹی وی کی سکرین پر افواج پاکستان کی پریڈ کیساتھ تا بہ ابد سعی و تغیر کے ولی کا ترانہ ضرور گونجتا ہے۔ اردو مادری زبان نہ ہونے اور شاعری کے رموز سے عدم واقفیت کی بنا پر پاکستان کے قومی ترانے کی طرح کئی سالوں تک مجھے اس ترانے کے بھی ہجے ہی نہ آئے اور پھر عمر عزیز کا ایک حصہ اس کے معنی سمجھنے کی کوشش میں رایئگاں ہوا۔ شکر ہے پچھلے دنوں مجھے بھی اولیائے سعی و تغیر کا پتہ بوساطت ہود بھائی اور بہ فصاحت و بلاغت دیگر علماء و فقہا ئے ہم سب چلا۔

والیان سعی و تغیر کو زمانے میں پیش آنے والی ہر تبدیلی کا پہلے سے ہی معلوم ہو جاتا ہے۔ پچھلے وقتوں میں یہ اپنے خلوت کدوں میں ہی جلوہ افروز ہوا کرتے تھے اب ٹیلی ویژن پر آکر اپنی بشارتوں اور پیش گوئیوں سے زمانے کو مستفید کرتے ہیں۔ اپنے تخیل کے جہازوں پر پرواز کرنے والے ولی ستاروں پر کمند ڈالنے کے لئے ایندھن سے چلنے والے راکٹوں کے محتاج نہیں ہوتے۔ اور نہ ان کو ثریا سے ہمکلام ہونے کے لئے کسی واسطے کی حاجت رہتی ہے۔

آسمانوں پر چلنے والے ستاروں کی کیا مجال کہ اولیائے دہر سے پوچھے بغیر اپنے گھروں سے نکلیں۔ مریخ ہو یا چاند سب کو اپنی آمد و رفت سے ان کو آگاہ رکھنا لازمی ہے۔ آسمانوں پر بنے برج اور خانے ان ہی کی میراث تو ہیں جہاں آمد و رفت کے لئے زحل، عطارد اور مشتری زمین پر بسنے والے اپنے ماموں سے ہی تو پروانہ لیتے ہیں۔

بات صرف ولیوں تک نہیں یہاں تو بڑے بڑے وکیل بھی ہیں جن کے لئے کسی قسم کے قانون کو پڑھنا، سمجھنا یا اس پر عمل کرنا ضروری نہیں پھر بھی موکل ان کے ہر حکم کا غلام ہوتے ہیں۔ موکل بھی ایک دو نہیں بلکہ سینکڑوں اور ہزاروں جن کے ساتھ صرف ان کے وکیل ہی ہمکلام ہو سکتے ہیں۔ کوئی بیمار ہو یا کسی پر سایہ پڑا ہو، ساس بہو میں لڑائی ہو یا اولاد بات نہ مانتی ہو سب محبوب سمیت آپ کے قدموں میں اگر موکل کی خدمات حاصل کی جائیں۔ کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جنگ ستمبر میں سجیلے جوانوں کے سنگ کون لڑا تھا جن کے بارے میں ملکہ ترنم نے کہا تھا کہ یہ وہ بیٹے ہیں جو دوکانوں میں نہیں بکتے۔ کارگل میں بوفورز کی توپوں کو واپس ہندوستان کی زمین پر کس نے پھینکا تھا؟ بس بنگال والی جنگ میں کہیں اور مصروفیت کی وجہ سے پہنچ نہیں پائے ورنہ مکتی باہنی اور ہندوستانیوں کا کیا حشر دنیا دیکھتی۔

کوہ قاف میں بسنے والے یہ موکل بھی وطن عزیز کے پرستار نظر آتے ہیں وگرنہ یورپ اور امریکہ بہت زیادہ خوبصورت اور ترقی یافتہ ہونے کے باوجود وہاں نہیں جاتے ہیں۔ کوہ قاف جیسے دور دراز علاقے میں رہنے کے باوجود یہ موکل ان پاکستانیوں سے بہتر اردو بول لیتے ہیں جو امریکہ اور یورپ میں رہتے ہیں۔ یہ اولیائے سعی و تغیر کا ہی کمال ہے جنھوں نے موکلوں کو اردو سکھا کر قومی جذبے کا ثبوت دیا ہے۔ انجمن ترقی اردو کو چاہیٔے کہ وہ اپنی ایک شاخ کوہ قاف میں بھی قائم کرے۔ صرف یہی نہیں بلکہ تبلیغ کا کام بھی جاری ہے اور بہت جلد کوہ قاف میں بھی تبلیغی اجتماع منعقد کیا جائے گا جس میں نامور ہستیوں کو مدعو کیا جائے گا۔

اگر کوئی چڑیا آپ کے مرضی کی خبر لاسکتی ہے تو ہمارے موکل ہماری بات کیوں پوری نہیں کر سکتے۔ جب چڑیا کی بات ہوتی ہے تو سائنس دانون کو سانپ کیوں سونگھ جاتا ہے۔ وہ کیوں نہیں کہہ دیتے کہ خبر لانے لیجانے کا کام کبوتر کا ہے چڑیا کا نہیں۔ پاکستان میں کچھ عقل کے اندھے اور علم و شعور سے بے بہرہ لوگ کہتے ہیں کہ اگر واقعی یہ موکل ہیں تو پھر ایٹم بم کیوں نہیں بناتے ہیں یا ہندوستان اور امریکہ وغیرہ سے کیوں نہیں لڑتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم کہ فخر پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ایٹم بم کا نقشہ کس نے یہود و نصاریٰ سے چھپا کر لادیا تھا۔ ان ہی باتوں کی وجہ سے ڈاکٹر ہود بھائی کو موکلوں کی فیض عام سے محروم ہیں اور ابھی تک ان کی جان کلاس روم کے چاک اور ڈسٹر سے نہیں چھوٹی ہے۔

اولیائے سعی و تغیر کا کمال صرف ستاروں اور موکلوں تک ہی محدود نہیں بلکہ طوطے اور بندر بھی ان کے ہاتھوں سب کچھ اگل دیتے ہیں۔ ولڈ کپ کا کوئی کھیل ہو یا پاکستان میں عام انتخابات آپ کو پہلےہی بتا دیتے ہیں کہ کیا ہونے والا ہے۔ عمران خان کی طلاق، تیسری شادی، بلاول کا رشتہ جیسی تغیرات کا وقوع پزیر ہونے سے پہلے ہی سعی کرنے والوں کو پتہ چل جاتا ہے۔ آنے والے زلزلوں کی وجوہات کا بھی پتہ چل جاتا ہے۔

کیا لوگ بھول گئے کہ عالم اسلام کی سب سے طاقتور ترین فوج کے سپریم کمانڈر کی زندگی کو کالے بکروں نےاپنی جان دے کر کیسی کیسی بلاؤں سے بچائے رکھا؟ اگر لوگوں کو اپنی آکسفورڈ سے پڑھی وزیر اعظم کو پڑنے والے سائیں بابا کے رحمت و برکت کے ڈنڈے یاد نہیں تو ہم یاد دلاتے ہیں کہ ان کے شوہر کو ہمارے موکلوں نے کیسے مارگلہ کے پہاڑوں سے دور سمندر کے کنارے رکھ کر راولپنڈی سے اٹھنے والے ممکنہ طوفانوں سے بچائے رکھا۔

پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں ہونے والے ایک سمینار پر چیں بہ جبیں ہونے والوں کی پریشانی اور بڑھنے والی ہے جب کل کو مملکت خدا داد میں جنات کے اولمپک منعقد ہوں گے۔ ان مقابلو ں میں کرکٹ، ہاکی، فٹ بال اور دوڑ جیسے فرسودہ کھیلوں کے مقابلے نہیں ہونے والے۔ دنیا دیکھے گی جب یہاں منٹوں اور سیکنڈوں میں لاکھوں بلکہ کروڑوں محبوباؤں کو قدموں میں ڈھیر کردیا جائے گا، ساسیں اپنی بہوؤں کو سر پر اٹھا کر دنیا کو وطیرہ حیرت میں ڈالیں گی اور دشمنوں کا صفحہ ہستی سے صفایا ہو جائے گا۔ پاکستان میں ہونے والے ان جناتی اولمپک مقابلوں کے لئے کوہ قاف میں ابھی سے تیاریاں جاری ہیں اور ہماری وزارت کھیل و ثقافت کو درخواستیں موصول ہو رہی ہیں۔

علی احمد جان

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

علی احمد جان

علی احمد جان سماجی ترقی اور ماحولیات کے شعبے سے منسلک ہیں۔ گھومنے پھرنے کے شوقین ہیں، کو ہ نوردی سے بھی شغف ہے، لوگوں سے مل کر ہمیشہ خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہر شخص ایک کتاب ہے۔ بلا سوچے لکھتے ہیں کیونکہ جو سوچتے ہیں, وہ لکھ نہیں سکتے۔

ali-ahmad-jan has 278 posts and counting.See all posts by ali-ahmad-jan

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments