انتہاپسندی سے بچ جانے والا آخری شہر


\"usman-ghazi\"دیوالی کی رات تھی، پورے شہر میں چراغاں تھا، گلیوں میں مسلمان اور ہندو لڑکے آتش بازی کررہے تھے، رنگ ونور کا سیلاب تھا، چہروں سے خوشی رقصاں تھی، مندروں سے پوجا پاٹ کی آوازیں آرہی تھیں، لڑکیاں بالیاں شریرنوجوانوں سے لجاتی ، شرماتی رستوں سے گزررہی تھیں

ہر گھر کا دروازہ کھلا تھا اور میں کہ اجنبی شہر میں حیران وپریشان کھڑا تھا کہ الہی کیا واقعی یہ پاکستان ہے۔

مٹھی میں میری پہلی ملاقات دیوبند مکتبہ فکر کے ایک عالم دین سے ہوئی جنہوں نے مجھے دیوالی کی مبارک باد دی، بات تہنیت تک محدود رہتی تو میں چونک کر آگے بڑھ جاتا مگر جب انہوں نے مجھے مٹھائی بھی پیش کی تو میں نے ڈرتے ڈرتے سوال پوچھا

قبلہ ۔۔ میں مسلمان ہوں، کہیں اس مٹھائی کو کھانے سے میرا دین تو بھرشٹ نہیں ہوجائے گا؟

اس سوال پر انہوں نے مجھے بتایا کہ دیوالی ثقافت کا ایک حصہ ہے، مٹھی کے ہندو رمضان میں مسلمانوں کے ساتھ روزہ رکھتے ہیں جبکہ محرم میں غم حسین مناتے ہیں اور مسلمان بھی بین المذاہب ہم آہنگی میں کسی سے پیچھے نہیں بلکہ عید الاضحیٰ پر گائے کی قربانی نہیں کرتے کہ اس سے ہندوؤں کی دل آزاری ہوگی۔\"14962230_10207854870744791_944816581_n\"

مجھے عالم دین نے بتایا کہ ان کا مٹھی میں سب سے قدیم مدرسہ ہے اور اس کے لیے زمین ایک ہندو نے دی ہے

میرے دل میں خیال آیا کہ ہم بھارت کو منہ توڑجواب دینے کے لیےصرف توپیں چلانے کے بجائے اگر ایک دن مٹھی شہر میں دیوالی یا ہولی کے رنگ دکھا دیں تو یہ بھارت کے منہ پر تھپڑ مارنے کے لیے کافی ہوگا کہ ہمارے ملک میں اقلیتیں کیسے رہتی ہیں

تھرپارکر میں واقع مٹھی پاکستان میں ہندوبرادری کا سب سے بڑا شہر ہے، یہاں 80فیصد ہندو جبکہ 20 فیصدمسلم آبادی ہے ، 80سے زائد مندر ہیں جبکہ مساجد، مدارس  \"14962949_10207854871944821_1281224350_n\"       اور امام بارگاہیں بھی ہیں، مٹھی کے علاوہ شاید ہی پاکستان میں کوئی دوسرا شہرایسا ہو جہاں مسلم آبادی کا تناسب اقلیتوں سے کم ہو۔

گدی بھٹ مٹھی کی واحد تفریح گاہ ہے، یہ ایک پہاڑی مقام ہے ، جہاں سے پورا شہر واضح نظر آتا ہے، دیوالی کے تہوارپر اگر آپ گدی بھٹ پر ہیں اور رات کا وقت ہے تو ایک انوکھا منظر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوگا

خوب صورت آتش بازی سے روشن ہوتا تاروں بھراآسمان اور ساری رات پٹاخوں کی آوازوں کا تسلسل۔۔ وہ ایک افسانوی منظر ہےبلکہ ہم اسے منظر کا نام بھی نہیں دے سکتے، وہ تو کوئی طلسم ہے، جو اپنے سحر میں ہر دیکھنے والے کو جکڑ لیتا ہے، منہ کھلا کا کھلا رہ جاتا ہے، دیکھنے والا پلک جھپکانا بھول جاتا ہے ، سانس اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہے، گدی بھٹ سے صحرا کا وہ نخلستان جادو کی ایک نگری لگتا ہے\"14997159_10207854871864819_819044834_n\"

کچھ ہندواور مسلم دوستوں کے ساتھ ہم پٹاخے پھوڑتے ہوئے مسلم آبادی میں جا نکلے، آدھی رات سے زائد کا وقت بیت چکا تھا، ایک گھر سے ادھیڑ عمر کے ایک صاحب آنکھیں ملتے ہوئے باہر نکلے اور کہا کہ بھائی، سب سو رہے ہیں، آپ پٹاخے کہیں اور جا کر پھوڑ لیں

یہ بات سننا تھی کہ لڑکوں کا پورا گینگ گوڈے گوڈے شرمندگی میں غرق ہوگیا اور معذرت کر کے سارے دوسرے راستے ہو لیے

مذہبی تعلیمات میں صرف مسلمان نہیں بلکہ ہندوبھی ڈنڈی مارتے ہیں اور گوشت کھا لیتے ہیں تاہم دیوالی کے دن وہ گوشت نہیں کھاتے، اس صورت حال کا مجھے ٹھیک \"14962460_10207854867944721_696220696_n\"سے اندازہ اس وقت ہوا جب ایک گھر میں میری خاطر تواضع گوشت سے کی گئی

سارے ہندو دال کھارہے تھے اور میں گوشت۔۔ اہتمام کچھ ایسے کیا گیا تھا کہ میں باوجود اچھی خاصی شرمندگی کے منع نہ کر سکا

یہاں ایک دلچسپ صورت حال شراب کی عدم دستیابی تھی، سندھ ہائی کورٹ نے صوبے میں شراب پر یہ کہہ کر پابندی لگا دی ہے کہ کوئی گیتا اور بائیبل نہیں کہتی کہ شراب پی جائے اور یہ حدود آرڈیننس کے بھی خلاف ہے تاہم عدالت نے اتنی رعایت ضرور دی کہ اقلیتی برادری کو تہواروں پر شراب فروخت کی جاسکتی ہےمگر سندھ حکومت نے عدالت کے حکم پر کچھ اس سختی سے عمل درآمد کرایا کہ دیوالی کے تہوار پر بھی منچلے ہندونوجوانوں کو شراب نہ مل سکی

یہاں میں وضاحت کر دوں کہ ہندوبرادری شراب پینے کو درست خیال نہیں کرتی تاہم منچلے نوجوانوں کا ایک طبقہ صرف دیوالی پر اس شوق میں کوئی حرج نہیں سمجھتا \"14997231_10207854867064699_168560419_n\"اور اس دیوالی پر صورت حال کچھ یوں ہوئی کہ ہندو نوجوانوں کے مطابق ان پر اسلام نافذ کر دیا گیا

ایک ہندونوجوان نے مجھ سے کہا کہ گیتا میں واقعی نہیں لکھا کہ شراب جائز ہے مگر یہ بھی تو نہیں لکھا کہ شراب حرام ہے ، اب اس دلگیر نوجوان کے نکتے پر ہندوعلماء ہی روشنی ڈال سکتے ہیں تاہم انتظامی اعتبار سے اہلیان سندھ یہ سوال کرنے میں حق بجانب ہیں کہ حدود آرڈیننس کا نفاذ سندھ میں ہی اتنی سختی سے کیوں ہوتا ہے، کیا پنجاب، خیبرپختونخوا اور بلوچستان اسلامی ریاست سے باہر واقع ہیں؟ اگر ایک قانون پر عمل کرنا ہی ہے تو یکساں بنیادوں پر ہونا چاہیے

دیوالی کی رات ہندوبرادری گھروں اور مندروں میں لکشمی پوجا کرتی ہے، وہاں کسی مسلمان کا ایک مندر میں جانا قطعاً کوئی حیران کن بات نہیں ہے

میں لکشمی پوجا دیکھنے مندر گیا تو ایک پنڈت نے مجھے پرساد دیا، ہندو گوشت کھا سکتے ہیں، ہم میں سے اکثر اپنے عقیدوں کے برخلاف نیازاور کونڈے کھا لیتے ہیں\"15033727_10207854868104725_15211672_n\" تو پرساد کیوں نہیں ۔۔ سو ہم نے بھی پنڈت کو بالکل مایوس نہیں کیا

تھر کتاب گھر مٹھی کی لائبریری ہے، پورا شہر یہاں آکر اپنے ادبی ذوق کی تکمیل کرتا ہے، یہاں ایک ہندو ٹیچر نے مجھ سے سرگوشی کے انداز میں ایک کالعدم تنظیم کا نام لے کر اس حوالے سے کچھ تشویش کا اظہار کیا

پہلے میں آپ کو اس تشویش کا پس منظر بتاتا چلوں، مٹھی میں حالیہ دنوں میں ایک کالعدم تنظیم نے اپنا مدرسہ کھولا ہے اور مقامی حلقوں کے مطابق یہ قبضے کی زمین پر کھولا گیا ہے، سندھ کے سابق وزیراعلیٰ سید قائم علی شاہ نے اس مدرسے سمیت دیگر چند مدارس کے حوالے سے نوٹس لیتے ہوئے انہیں بند کرنے کا حکم دیا تھا مگر انہیں بند کرتے کرتے ایک ڈی سی او معطل ہوگیا، سندھ کے موجودہ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے بھی نوٹس لیا ہے مگر مدرسے والے شاید اہل اقتدار سے زیادہ بااثر ہیں

مٹھی کے مسلمان اور ہندوشہریوں کو ان مدارس سے کافی تحفظات ہیں، 80فیصد ہندوآبادی والے شہر میں ایک ایسی تنظیم کے مدرسے کا کیا کام جو ہندو کافر کومارنے \"15032634_10207854872144826_981393716_n\"والوں کی غائبانہ نمازجنازہ کراتی ہو، مٹھی سے تھوڑا پہلےکافر کافرکہنے والی ایک دوسری انتہا پسند تنظیم کا بھی ایک مدرسہ کھل گیا ہے، جہاں مقامی آبادی کے مطابق قبائلی علاقوں سے طلبہ پڑھنے کے لیے لائے گئے ہیں

مجھے مقامی ہندوؤں نے بتایا کہ جب سے انتہاپسند مدرسے قائم ہوئے ہیں، کچھ مسلمانوں نے پہلی بار شہر میں گائے کی قربانی کی ہے جبکہ مندروں میں چوری کے واقعات بھی بڑھ گئے ہیں

میں نے کہا کہ اس صورت حال پر میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ مٹھی کی آخری دیوالی تھی جو شاید میں نے بھرپور رنگوں کے ساتھ دیکھ لی

اگر یہ مدرسے یونہی قائم رہے تو اگلی بار جب میں دیوالی پر آؤں گا تو مسلم اور ہندوآبادیاں الگ الگ مورچہ زن ہوں گی، کچھ شہید آپ کی طرف ہوں گے اور کچھ شہادتیں مسلمانوں کی جانب۔۔\"14996415_10207854867584712_240887111_n\"

جب میں مسلمانوں سے دریافت کروں گا کہ یہ سب کیسے ہوا تو وہ بتائیں گے کہ کچھ ہندو لڑکوں نے ان کی خواتین سے زیادتی کی اور جب ہندوؤں سے دریافت کروں گا تو وہ بھی کم وبیش انہی قصوں سے بات شروع کریں گے

یہ سب واقعات ہر جگہ ایک ہی اندازمیں ہوتے ہیں

اکثریتی آبادی والے ہندؤں کے ایک شہر میں کسی انتہا پسند تنظیم کے مدرسے کی موجودگی جبکہ وہاں پہلے سے ایسے مدارس ہوں جو خود ہندوؤں نے بنوا کر دیئے ہوں، ظاہر ہے کسی خاص مقصد کے تحت ہی ہوسکتی ہے

میں نے تھر کتاب گھر میں اپنے مخاطب ہندو ٹیچر سے کہا کہ اس صورت حال کے بعد آپ کے شہدا کے اہل خانہ میں سے کچھ جذباتی نوجوان اسلحہ تھامیں گے اور ادھر \"14971788_10207854864184627_1343645661_n\"مسلمانوں کے شہدا کے اہل خانہ میں سے کچھ ایمان والے بندوقیں اٹھائیں گے، اب مٹھی میں صرف لاشیں گریں گی۔

دیوالی پر بین المذاہب ہم آہنگی کا میں شاید میں آخری گواہ ہوں ، یہ کہہ کر میں نے پاکستان میں مذہبی انتہاپسندی سے بچ جانے والے اس آخری شہر کو الوداعی نگاہوں سے دیکھا اور سامان اٹھا کر چل پڑا کسی ایسےنگر کی تلاش میں جہاں مذہبی انتہاپسندی کے تاریک سائے نہ پہنچے ہوں

اور اب دیکھئے مٹھی میں دیوالی کی رات، شہر میں جلتے چراغوں کے بیچوں بیچ فضا میں بلند ہوتی تش بازی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments