ایک استاد کی کہانی جو منشیات فروش بن گیا


کالم کی سری :اِس کالم میں امریکی ٹی وی سیریز ’بریکنگ بیڈ‘ کی کہانی بیان کی گئی ہے، آپ میں سے خدا کے جو نیک بندے یہ فلم دیکھنا چاہتے ہیں اُن کے لیے یہ ایک قسم کا سپائلر الرٹ ہے۔

آج کالم لکھنے سے پہلے جب میں موضوع کے بارے میں سوچ رہا تھا تو دل میں خیال آیا کہ کیوں نہ میں بھی کسی یو ٹیوب فلاسفرکی طرح وبا کے دنوں میں کوئی فلسفہ بگھاروں اور بقراط بن کر لوگوں کو بتاؤں کہ زندگی تو محض پانی کا بلبلہ ہے، انسان کی کوئی اوقات نہیں، موت اٹل ہے، سب کچھ فانی ہے، ہر شے آنی جانی ہے مگر دل میں خیال آیا کہ یہ باتیں اب خاصی پِٹ چکیں ہیں اور جو لوگ ان کے گاہک ہوا کرتے تھے وہ خود آج کل چائنا کے برٹرینڈ رسل بنے بیٹھے ہیں۔

پھرسوچا کہ کیوں نہ کسی سیانے کی طرح انکشاف کروں کہ زمین کوانسان نے بہت آلودہ کر دیا تھا سو نیچر ہم سے کرونا وائرس کی شکل میں انتقام لے رہی ہے مگر یہ ارادہ بھی بد ل دیا، آخر کس منہ سے یہ بات لکھوں، پٹرول والی گاڑی استعمال کرتا ہوں، پلاسٹک کا شاپنگ بیگ نالیوں میں پھینکتا ہوں اور سرمایہ دارانہ نظام کے ثمرات سمیٹتا ہوں۔ ایک موضوع یہ بھی ذہن میں آیا کہ کرونا وائرس نے ہمیں پرانی ’رومانوی‘ زندگی واپس کر دی ہے اورہم اپنے گھر والوں ساتھ وقت بتا رہے ہیں لہذا ہمیں تو اِس وائرس کا شکر گزار ہونا چاہیے مگر پھر خود ہی اِس لغو خیال کویہ سوچ کرسر سے جھٹک دیاکہ اِس وبا نے نہ جانے کتنے گھر اجاڑ دیے ہیں اور کتنے لوگوں کو غربت اور بے روز گاری میں دھکیل دیا ہے، ایسی بیماری کا کیا شکر ادا کرنا!

ایک اور بات بھی آج کل خاصا ’رش‘ لے رہی ہے کہ کرونا وائرس کا ہوّا میڈیا نے کھڑا کیاہے، اعداد و شمار دیکھیں تو ٹریفک حادثات، سگریٹ اور شراب نوشی سے ہر سال لاکھوں اموات ہوتی ہیں مگر میڈیا کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ اِس قسم کی باتوں پر میں عام طور پر لاحول پڑھ کر آگے بڑھ جاتا ہو ں کہ اب بند ہ کیا بحث کرے کہ سگریٹ سے آپ بچ سکتے ہیں اگر اسے پینا چھوڑ دیں، وبا سے بچنا بس میں نہیں!

اپنے تئیں نانا فرنویس بن کر میں نے یہ بھی سوچا کہ وبا کے پھیلاؤ سے متعلق ہم نے جو سبق سیکھا وہ بیان کر نا چاہیے مگر پھر سوچ کر ارادہ بدل دیا کہ کرونا کے بعد تو دودھ پیتا بچہ بھی ’وائرولوجی‘ کی ڈگری بغل میں داب کر پھر رہا ہے، میں کس کھیت کی مولی ہوں! کیف یہ تمام موضوعات مسترد کرنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا ہے کہ آج آپ کو صرف یہ مشور ہ دوں گا کہ وبا کے دنوں میں گھر بیٹھ کر کون سی فلم دیکھی جائے۔ قرعہ ’بریکنگ بیڈ‘ کے نام نکلا ہے جو میری پسندیدہ ٹی وی سیریز ہے۔

بریکنگ بیڈ کی کہانی کیمسٹری کے ایک استاد کے گرد گھومتی ہے جس کا نام والٹر وائٹ ہے، والٹر ایک شریف آدمی ہے اور بہت قابل بھی مگر اُس کی قابلیت اور شرافت کسی کام کی نہیں، دنیاوی لحاظ سے وہ خود کو ایک ناکام شخص سمجھتا ہے، جس اسکول میں وہ پڑھاتا ہے اُس کی تنخواہ میں گزارا نہیں ہوتا سو فارغ وقت میں وہ ایک کار واش میں کیشئر کاکام کرتا ہے جہاں کبھی کبھار اسے گاڑیاں بھی دھونی پڑتی ہیں۔ والٹر کا ایک بیٹا ہے جو معذور ہے اور بیو ی حاملہ ہے۔

ایک روز والٹر کو کھانسی کا دورہ پڑتا ہے اور وہ بے ہوش ہو جاتا ہے، اسے اسپتال لے جایا جاتا ہے جہاں معلوم ہوتا ہے کہ وہ پھیپھڑوں کے کینسر میں مبتلا ہو چکا ہے۔ یہ خبر اُس پر بجلی بن کر گرتی ہے، وہ سوچتا ہے کہ اگر کچھ عرصے بعد وہ مر گیا تو بعد میں اُس کے بیوی بچوں کا کیا ہوگا، وہ تو بالکل سڑک پر ہی آ جائیں گے۔ اِس دوران والٹر کی پچاسویں سالگرہ کا دن آتاہے، دوست احباب اکٹھے ہوتے ہیں، گھر میں دعوت رکھی جاتی ہے، والٹر کی بیماری کا کسی کو علم نہیں، اُس کی سالی اور شوہر بھی وہاں موجود ہے جو ڈرگ اینفورسمنٹ ایجنسی میں افسر ہے، اُس کا نام ہینک شریڈر ہے۔

ہینک باتوں باتوں میں ذکرکرتا ہے کہ کیسے منشیات بنانے والے راتوں رات امیر ہو جاتے ہیں مگر جس دن وہ قانون کی گرفت میں آتے ہیں اُس روز ان کی دولت کسی کام نہیں آتی۔ ایک دن ہینک ایسے ہی منشیات بنانے والوں کے اڈے پر چھاپے مارنے جاتا ہے تو والٹر کو بھی ساتھ لے جاتا ہے، وہاں چھاپے کے دوران والٹر کی نظر اپنے ایک پرانے شاگرد جیسی پنک مین پر پڑتی ہے جو ہینک کے عملے سے چھپ کر فرار ہو رہا ہوتا ہے مگر والٹر سے اُس کی نظریں چار ہو جاتی ہیں تاہم والٹر اُس وقت اسے جانے دیتا ہے۔

بعد میں والٹر، جیسی پنک مین کا پتہ ڈھونڈتا ہے اور اُس کے گھر پہنچ جاتا ہے۔ پنک مین اسے دیکھ کر پریشان ہو جاتا ہے مگر والٹر وائٹ کہتا ہے کہ وہ اُس کے ساتھ مل کر میتھیم فیتھمین (منشیات ) بنانا چاہتا ہے اور چونکہ وہ کیمسٹری کا ماہر ہے اِس لیے اُن کی بنائی ہوئی میتھ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکے گا اور یوں وہ مارکیٹ میں منہ مانگے داموں بیچی جا سکے گی۔ جیسی پنک مین یہ پیشکش قبول کر لیتا ہے۔

یہاں سے ایک ایسی سنسنی خیز فلم کی ابتداہوتی ہے جس میں پرفیکشن کی معراج ہے۔ میں جب بھی کسی کو یہ سیریز دیکھنے کے لیے تجویز کرتا ہوں تو اسے چیلنج دیتا ہوں کہ وہ صرف اِس کی پہلی قسط کا پہلا سین دیکھ لے، اِس کے بعد وہ پوری فلم دیکھنے پر مجبور ہو جائے گا۔ خود میرے ساتھ یہ ہو چکا ہے، میں نے جب یہ فلم دیکھنی شروع کی تھی تو پہلی ہی قسط نے مجھے ایسا نشہ لگایا کہ ایک کے بعد دوسری قسط دیکھتا چلا گیا اور متواتر پانچ سیزن دیکھ کر دم لیا۔

آج کل چونکہ فرصت ہی فرصت ہے اِس لیے ایک مرتبہ پھر میں بریکنگ بیڈ دیکھ رہا ہوں، اِس سے پہلے جب فرصت نہیں تھی تو میں نے گیارہ مرتبہ اِس کے تمام سیزن دیکھے تھے۔ یہ فلم دراصل انسان کی حرص اور طمع کی کہانی ہے، والٹر وائٹ جب میتھ کے کاروبار میں ہاتھ ڈالتا ہے تو یہ تہیہ کرتا ہے کہ 737,000 ڈالر کمانے کے بعد وہ یہ کام چھوڑ دے گا کیونکہ اگر وہ مر بھی گیا تو اتنے پیسے اُس کی فیملی کے لیے کافی ہوں گے۔ مگر ایسا ہو نہیں پاتا۔ جوں جوں وہ پیسے کماتا چلا جاتا ہے توں توں وہ اس دلدل گرتا چلا جاتا ہے اور پھر چاہتے ہوئے بھی اِس سے باہر نہیں نکل پاتا۔

اگر آپ نے یہ کالم یہاں تک پڑھ لیا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ فکر معاش سے بالکل آزاد ہیں اور گھر بیٹھ کر سخت بوریت کا شکار ہیں، لہذا اب آپ نیٹ فلکس کھولیں گے اور بریکنگ بیڈ دیکھنا شروع کر دیں گے۔ آپ یہ فلم ضرور دیکھیں مگر میری درخواست ہے کہ ہر قسط یوں دیکھیں جیسے ہزار روپے کا ٹکٹ خرچ کرکے دیکھ رہے ہوں اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر قسط کے بعد جیب سے ہزار روپے نکال کر علیحدہ کر دیں، یوں پانچ سیزن کی رقم تقریباً چالیس پچاس ہزار بنے گی، یہ رقم اُن سفید پوش گھرانوں میں چپکے سے تقسیم کر دیں جو راشن لینے کے لیے کسی کے آگے ہاتھ پھیلا سکتے ہوں اور نہ سوشل میڈیا پر اپنی بے بسی کی تصویر وائرل کروانا چاہتے ہوں۔

ترجیح اُن ضرورت مندوں کو دیں جو آپ کے جاننے والوں میں سے ہوں اور جن کی محدود آمدن آپ کے علم میں ہو، جیسے غریب رشتہ دار، دیہاڑی دار محنت کش، گھروں میں محنت کرنے والی عورتیں۔ ایسا نہ ہو کہ آنے والے کل میں یہ تاریخ لکھی جائے کہ جب ملک میں وبا سے غریبوں کو کھانے کے لالے پڑے ہوئے تھے تو خوشحال طبقے کو وقت گزاری کے لیے فلموں، ڈراموں اور ناولوں کے چونچلے سوجھ رہے تھے اور انسٹا گرا م اور ٹک ٹاک پر میمز بنائی جا رہی تھیں!

کالم کی دُم: ایک اور موضوع جو مجھے کالم لکھنے کے بعد سوجھا وہ کرونا وائرس کی وبا ختم ہونے سے متعلق ’اہل نظر‘ کی پیشن گوئیاں ہیں، میں صدق دل سے دعا گو ہوں کہ کم از کم اِس مرتبہ ضرور ریکارڈ ٹوٹے اور یہ تمام پیشن گوئیاں درست ثابت ہوں، آمین۔
ہم سب کے لیے خصوصی طور پر ارسال کردہ تحریر۔

یاسر پیرزادہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

یاسر پیرزادہ

Yasir Pirzada's columns are published at Daily Jang and HumSub Twitter: @YasirPirzada

yasir-pirzada has 490 posts and counting.See all posts by yasir-pirzada

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments