سحر انگیز اور دل موہ لینے والے موسیقار نثار بزمی


نثار بزمی صاحب کے تذکروں میں یہ بھی ملتا ہے کہ 22 سال کی عمر میں فلم ”جمنا پار“ ( 1946 ) کے گیتوں کی طرزیں بنائیں۔ ہندوستان میں انہوں نے چالیس فلموں کی طرزیں ترتیب دیں۔ یہ انہوں نے 1946 سے 1961 کے دوران ترتیب دیں۔ لیکن فلمی دنیا میں اپنی کوئی خاص شناخت نہیں بنا سکے۔ مجھے انہوں نے خود بتایا کہ زیادہ تر ان کو ’دھارمک‘ یعنی دھرم سے متعلق فلمیں ہی ملیں۔ یہ ہلکے بجٹ کی ’سی کلاس‘ فلمیں مانی جاتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ فضل احمد کریم فضلی صاحب کا ان کو اپنی فلم ” ایسا بھی ہوتا ہے“ میں طرزیں بنانے کی پیشکش کرنا ان کی زندگی کا ایک خوشگوار موڑ ہے۔ مذکورہ فلم کی ریلیز سے کہیں پہلے اس فلم کے گیت ریڈیو پاکستان میں بہت مقبول ہو گئے۔ یوں ”ایسا بھی ہوتا ہے“ نے راتوں رات بزمی صاحب کو تیسرے درجے سے نکال کر صف اول کے موسیقاروں کی صف میں کھڑا کر دیا۔

ان کے تذکروں میں ملتا ہے کہ وہ 1962 میں کسی شادی میں شرکت کرنے پاکستان آئے۔ یہاں سے آگے کیا ہوا کچھ ان کی اپنی زبانی :

” مجھے جب پاکستان میں فلم کی پیشکش ہوئی تو میں بہت حیران ہوا کہ میں تو ہندوستان کا شہری ہوں! مجھے بتلایا گیا کہ اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وقت گزرا اور فلم“ ایسا بھی ہوتا ہے ”کے گانے بہت ہٹ ہوئے۔ اور مجھے اور بھی فلموں کی پیشکشیں ہونے لگیں۔ تب میں نے سوچا کہ ہندوستان میں ایک زمانے سے میں تیسرے درجے کی بجٹ والی فلموں کا موسیقار ہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہاں پاکستان میں پہلی ہی فلم نے مجھے صف اول کا موسیقار بنا ڈالا لہٰذا فیصلہ کر لیا کہ اب باقی زندگی انشاء اللہ پاکستان میں گزاروں گا“ ۔

مجھے ایسا لگتا ہے کہ فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ کی ریلیز سے پہلے ہدایتکار اور فلمساز نذیر صوفی کی فلم ”ہیڈ کانسٹیبل“ 25 ستمبر 1964 بروز جمعہ ریلیز ہو گئی۔ جبکہ ”ایسا بھی ہوتا ہے“ 3 فروری 1965 کو ریلیز ہوئی۔ یوں فلم ”ہیڈ کانسٹیبل“ پاکستان میں بزمی صاحب کی پہلی ریلیز فلم ہے۔ یہ 25 ستمبر 1964 بروز جمعہ ریلیز ہوئی۔

پاکستان میں بزمی صاحب کا پہلا فلمی گیت:

انٹر نیٹ پر مختلف جگہوں پر یہ ملتا ہے کہ پاکستان میں بزمی صاحب کا صدا بند ہونے والا پہلا فلمی گیت نورجہاں اور احمد رشدی کی آواز میں فلم ”ایسا بھی ہوتا ہے“ کا دوگانا ”محبت میں تیرے سر کی قسم ایسا بھی ہوتا ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ہے۔ جبکہ مجھ کو بزمی صاحب نے خود بتایا کہ ان کا پہلا فلمی گیت اسی فلم کا نورجہاں اور ساتھیوں کی آواز میں ”آئے آئے آئے، بہار کے دن آئے سنگھار کے دن آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔“ ہے۔ جگہ کی کمی آڑے آتی ہے ورنہ پاکستان میں ان کے پہلے فلمی گیت ’آئے آئے آئے، بہار کے دن آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ کا پس منظر بھی بیان کرتا۔

گیت نگار مسرورؔ انور اور علی سفیان آفاقیؔ:

بزمی صاحب نے مجھے جناب مسرورؔ انور المعروف مسرورؔ بھائی سے ملوایا۔ مسرور ؔبھائی کے ساتھ میری کئی مجالس رہیں۔ یہ جب بھی کراچی آتے ضرور اطلاع کرواتے۔ میں بھی جب جب لاہور جاتا وہ بے پناہ چاہتوں اور گرم جوشی سے ملتے۔ میں بزمی صاحب کا مشکور ہوں کہ انہوں نے مجھے جناب علی سفیان آفاقیؔ سے ملوایا۔ ان سے یہ میرا ملنا، بہت اہم اور نتیجہ خیز ثابت ہوا۔ وہ ایسے کہ اس وقت جو آپ یہ سطور پڑھ رہے / رہی ہیں وہ ان کی اس کمتر پر نظر عنایت اور حوصلہ افزائی کی مرہون منت ہے۔

یہ سب بہت ہی عظیم لوگ تھے۔ ۔ ’فیملی میگزین‘ جس دن پریس میں جاتا، میں اس سے اگلے روز میں آفاقیؔ صاحب کے دفتر میں چلا جاتا۔ وہ مجھ کو وقت دیتے۔ میں نے ان سے بہت کچھ سیکھا۔ آفاقیؔ صاحب اخبار ’آفاق‘ کی مناسبت سے آفاقی ؔکہلاتے تھے لیکن مجھے تو وہ خود ایک آفاق نظر آئے۔ کیا ادارت، کیا فیچر، کیا رپورٹنگ، کیا منظر نامہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ماشا اللہ کتنا اچھا حافظہ پایا۔ انداز بیان ایسا بے ساختہ کہ جناب کیا ہی کہنے۔ بات سے بات پھر اس بات کے اندر سے بات نکالنے کا آفاقیؔ صاحب کو ملکہ حاصل تھا۔

بزمی صاحب بحیثیت شاعر:

مضراب کی حرکت تیز ہوئی تاروں میں ہوئی بے چینی سی
اک درد بھرا نغمہ ابھرا، پھر ساز سدا خاموش ہوا

درج بالا شعر نثار بزمی کا ہے۔ پاکستان کے فلمی حلقوں میں وہ نظمیں، غزلیں اور قطعات کہنے والے شاعر بھی گردانے جاتے ہیں۔ ان کے ایک پرستار اور شاگرد، شمیم بازل صاحب نے 1990 کی دہائی میں ان کی شاعری کی مختلف اصناف پر مشتمل مجموعہ کلام ’پھر ساز سدا خاموش ہوا‘ بڑے اہتمام کے ساتھ شائع کروایا۔ بزمی صاحب کی شاعری کے چند نمونے درج ذیل ہیں :

مسلمان:

ہمالہ کی چوٹی پہ تھا ایک پتھر
گرا اتفاقا وہاں سے لڑھک کر
کسی نے جو پوچھا کہ اے بے حقیقت
بھلا راس آئی نہ کیوں تجھ کو رفعت
کہا اپنے مرکز سے میں ہٹ گیا ہوں
اسی واسطے ٹھوکروں میں پڑا ہوں

قوم کی بنیاد:

اک قوم کی بنیاد پہ یہ ملک بنا تھا
اب خیر سے آباد ہیں اس ملک میں قومیں
اسلام ہے دیں ان کا مگر خود کو مسلماں
کہنے کا روادار نہیں ایک بھی سو میں
پنجاب بھی اک قوم ہے مہران بھی اک قوم
اک قوم ہے سرحد تو بلوچستان بھی اک قوم
ان قوموں نے د و قومی نظریے کی نفی کی
قائد کو نگاہوں سے گرانے کی سعی کی

ایک محتاط اندازے کے مطابق پاکستان میں نثار بزمی نے 67 فلموں میں 340 نغمات کی موسیقی ترتیب دی۔ وہ پاکستانی فلمی دنیا میں 1964 سے 1989 تک فعال رہے۔

بزمی صاحب کی کچھ یادگار فلمیں :

مشترکہ فلمساز افضل حسین اور رضا میر، اور ہدایتکار رضا میر کی سلور جوبلی فلم ”لاکھوں میں ایک“ ( 1967 ) اس فلم میں ایک سے بڑھ کر ایک گیت تھے : ’بڑی مشکل سے ہوا تیرا میرا ساتھ پیا، ورنہ تیرے بنا بے رنگ تھے دن رات پیا‘ گیت نگار حضرت تنویرؔ نقوی، آواز نورجہاں، ’چلو اچھا ہوا تم بھول گئے، اک بھول ہی تھا میرا پیار او ساجنا، گیت فیاض ؔہاشمی، آواز نورجہاں،‘ دل دیا درد لیا آنکھ میں آنسو آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت مسرورؔ انور، آواز مہدی حسن،‘ حالات بدل نہیں سکتے، ان راہوں میں جیون بھر ہم ساتھ چل نہیں سکتے ’، گیت مسرورؔ انور، آواز نورجہاں،‘ ہو سن ساجنا دکھی من کی پکار ہوا بیری سنسار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’گیت مسرورؔ انور، آواز نورجہاں،‘ ساتھی کہاں ہو آواز تو دو پل پل میرا پیار پکارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ’دوگانا: آوازیں نورجہاں اور مجیب عالم۔

علی زیب پروڈکشن اور ہدایتکار ایس سلیمان کی گولڈن جوبلی فلم ”آگ“ ( 1967 ) میں گیت نگار مسرورؔ انور کے سات میں سے پانچ گیت سپر ہٹ ہوئے۔ یہ گیت نورجہاں، مالا، آئرین پروین، مہدی حسن اور احمد رشدی نے ریکارڈ کروائے۔ ’بیتے دنوں کی یادوں کو کیسے میں بھلاؤں اے دل کیسے میں بھلاؤں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ ، آواز نورجہاں، ’لئے آنکھوں میں غرور ایسے بیٹھے ہیں حضور، جیسے جانتے نہیں پہچانتے نہیں‘ آواز احمد رشدی، ’موسم حسین ہے لیکن تم سا حسین نہیں ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ دوگانا: آوازیں مالا اور احمد رشدی،’ یوں زندگی کی راہ میں ٹکرا گیا کوئی۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز مہدی حسن۔

شمیم آرا ء پروڈکشنز کے مشترکہ فلمساز شمیم آرا اور محمد عثمان اور ہدایتکار لئیق اختر کی گولڈن جوبلی فلم ”صاعقہ“ ( 1968 ) کے یہ تین گیت بے حد مقبول ہوئے : ’اے بہارو گواہ رہنا، اے نظارو گواہ رہنا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ دوگانا: آوازیں مالا اور احمد رشدی، ’آ جا تیرے پیار میں ہے دل بیقرار، یہ پیاسی نگاہیں کریں تیرا انتظار‘ آواز رونا لیلیٰ، ’اک ستم اور میری جان ابھی جاں باقی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز مہدی حسن۔ مذکورہ فلم کے گیت نگار مسرورؔ انور تھے۔

علی زیب پروڈکشن اور ہدایتکار ایس سلیمان کی سلور جوبلی فلم ”جیسے جانتے نہیں“ ( 1969 ) کے کچھ گیت سپر ہٹ ہوئے : ’ایسے بھی ہیں مہرباں زندگی کی راہ میں جب ملے تو یوں ملے جیسے جانتے نہیں‘ آواز احمد رشدی۔ یہ گیت میرے مطابق احمد رشدی کے یادگار گیتوں میں سے ایک ہے۔ اس کو سننے اور گانے دونوں کا لطف آتا ہے۔ میں نے خود اس کو محفلوں میں بارہا گا کر سنایا۔ اس کے گانے کا بھی اپنا ہی مزہ ہے۔ کیا خوبصورت بول اور کیا دل نشین طرز ہے! ایک اور مزاحیہ گیت بھی ریڈیو پر مقبول تھا: ’کہنے کو تو آئی سہاگ رات لیکن ایسی رات اللہ کسی کو نہ دکھائے‘ آواز احمد رشدی۔ گیت نگار مسرورؔ انور۔

نگار پکچرز کے فلمساز راشد مختار اور ہدایتکار فرید احمد کی گولڈن جوبلی فلم ”عندلیب“ ( 1969 ) کے بھی بعض گانے سدا بہار ہیں : ’پیار کر کے ہم بہت پچھتائے، اک پل خوشی کی خاطر سو غم اٹھائے‘ آواز نورجہاں، ’میرے دل کی محفل سجا دینے والے تیرا شکریہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ دوگانا: آوازیں نورجہاں اور احمد رشدی، ’کچھ لوگ روٹھ کر بھی لگتے ہیں کتنے پیارے، چپ رہ کے بھی نظر میں ہیں پیار کے اشارے‘ یہ نورجہاں اور احمد رشدی نے الگ الگ ریکارڈ کرایا۔ اس فلم کے گیت نگار کلیمؔ عثمانی صاحب تھے۔

فلمساز ایم اے سیفی اور ہدایتکار شریف نیر کی سلور جوبلی فلم ”ناز“ ( 1969 ) میں قتیلؔ شفائی کا ایک گیت مقبولیت کی حدیں پار کرتا ہوا بھارت جا پہنچا۔ وہاں جگجیت سنگھ اور بہت سے دوسرے گلوکاروں نے بھی اس کو بہت شوق سے گایا: ’مجھے آئی نہ جگ سے لاج، میں اتنے زور سے ناچی آج کہ گھنگرو ٹوٹ گئے‘ آواز مالا۔

فلمساز نورالدین کیسٹ اور حسن طارق اور ہدایتکار حسن طارق کی سلور جوبلی فلم ”شمع اور پروانہ“ ( 1970 ) کی ایک خاص بات پلے بیک سنگر مجیب عالم کے سپر ہٹ گیت ہیں : ’میں تیرے اجنبی شہر میں ڈھونڈتا پھر رہا ہوں تجھے، مجھ کو آواز دے مجھ کو آواز دے‘ ، ’میں تیرا شہر چھوڑ جاؤں گا۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ گیت سیف الدین سیفؔ، ’آج ہے محفل دید کے قابل شمع بھی ہے پروانہ بھی‘ آواز نورجہاں۔

مشترکہ فلمساز حسن طارق اور صفدر مسعود اور ہدایتکار حسن طارق کی پلاٹینم جوبلی فلم ”انجمن“ ( 1970 ) بھی اپنے گیتوں کی وجہ سے ہمیشہ یاد رکھی جائے گی: ’آپ دل کی انجمن میں حسن بن کر آ گئے‘ گیت مسرورؔ انور، آواز رونا لیلیٰ، ’دل دھڑکے میں تجھ سے یہ کیسے کہوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‘ آواز رونا لیلیٰ۔ یہ رونا لیلیٰ کا پہچان گیت ہے۔ اس نے دنیا بھر میں کہیں بھی جب کمرشل شو کیا تو یہ گانا ضرور گایا اور داد سمیٹی۔ ’اظہار بھی مشکل ہے چپ رہ بھی نہیں سکتے، مجبور ہیں اف اللہ کچھ کہہ بھی نہیں سکتے‘ آواز نورجہاں۔

عذرا موویز کی فلمساز عذرا جبیں اور ہدایتکار ایس سلیمان کی سلور جوبلی فلم ”محبت“ ( 1972 ) اپنے لازوال گیتوں کی وجہ سے لازوال ہے : ’یہ محفل جو آج سجی ہے اس محفل میں ہے کوئی ہم سا، ہم سا ہو تو سامنے آئے‘ آواز طاہرہ سید، ’رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لئے آ، آ پھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے لئے آ‘ غزل احمد فرازؔ آواز مہدی حسن۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments