دریا سوکھ رہے ہیں


\"Mustansir-Hussain-Tarar-2\"

اس گرم اور بدن کوپیاس سے سکھا دینے والی رات کو گذرے بیس برس سے زیادہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ دن بھر قہر کی گرمی پڑی تھی اورسورج سے آگ برسی تھی اور جب رات آئی تو اس میں بھی سکھ کا ایک سانس بھی نہ تھا۔ بدن کے اندر پیاس کا صحرا تھا اور اس کے باہر تن پسینے سے بھیگتا تھا اور زبان سوکھتی ہوئی تالو سے چپکتی تھی۔ میری عادت ہے کہ سردیاں ہوں یا گرمیاں میں اپنے سرہانے پانی کا ایک گلاس رکھ کرسوتا ہوں کیونکہ لامحالہ رات کے اندر مجھے پیاس محسوس ہوتی ہے اور میں پانی کے گھونٹ بھرتا رہتا ہوں۔ ظاہر ہے اگرموسم بھی گرمی کی شدت کے ہوں تو میری پیاس کا کچھ حساب نہیں رہتا۔ اس رات تو لگتا تھا کہ آگ برساتا سورج غروب ہی نہیں ہوا بدستور شعلہ بار ہے۔

میں کچھ دیر اونگھ لیتا اور پھر تپائی پر دھرے پکے دھاتی گلاس میں سے دوچار گھونٹ بھر کر اپنے بدن کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا، غنودگی اور بیداری کے درمیان ایک لمحے میں میں نے پانی پینے کے لئے گلاس تھاما تو مجھے واہمہ سا ہوا کہ آخری بار جب میں نے پانی پیا تھا تب پانی کی سطح قدرے بلند تھی۔ میری ہتھیلی جوگلاس کی دھاتی سطح کے گرد لپٹی ہوئی تھی اس سے محسوس ہوتا تھا کہ گلاس میں پانی کسی قدر کم ہو چکا ہے۔ اب میرا نیم خوابیدہ ذہن سوال کرنے لگا کہ اگر یہ واہمہ درست ہے تو گلاس میں پانی کم کیسے ہو گیا وہ پانی کہاں گیا۔

\"saraswati-river\"

اس پیاسی رات کے چند روز بعد میں نے مشہور آرکیولوجسٹ مغل صاحب کا ایک مضمون اب مرحوم ہوچکے’’پاکستان ٹائمز‘‘ میں پڑھا جو قدیم چولستان کے بارے میں تھا۔ اس مضمون میں ایک فقرے نے میری توجہ حاصل کر لی اور وہ کچھ یوں تھا کہ ایک زمانے میں دیومالائی دریا سرسوتی چولستان میں بہتا تھا اور پھر نامعلوم وجوہات کی بناء پر خشک ہو گیا۔ اب ایک وسیع پاٹ والا دریا، ہزاروں برس سے بہنے والا یکدم خشک کیسے ہو جاتا ہے؟ انہی دنوں دریاؤں کے خشک ہو جانے کی وجوہات پر ایک تحقیقی مقالہ میرے ہاتھ آگیا۔

معلوم ہوا کہ کبھی کبھار ان پہاڑوں میں موسموں کے تغیرسے بڑے بڑے تودے یا گلشیئر دریا کے منبعے کے قریب گرکراسے یا تو روک دیتے ہیں اور یا پھر اس کا رخ بدل دیتے ہیں۔ اس کے سوا میدانوں میں اگر ہریاول کم ہو جائے اورریگستان ظہور میں آنے لگیں تو گرمی کے باعث دریا ہولے ہولے خشک ہو جاتے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی معلوم ہوا کہ جہاں آج چولستان کا صحرا ہے وہ علاقہ ایک زمانے میں گھنے جنگلوں پر مشتمل تھا اور ان جنگلوں میں ہاتھی، گینڈے اور دیگر جانور عام پائے جاتے تھے جن کے نقش ہمیں موہنجوڈارو سے دریافت ہونے والی تختیوں پر ملتے ہیں۔ یعنی جن زمانوں میں سرسوتی بہتا تھا، اس کے کنارے ایک عظیم تہذیب سانس لیتی تھی جو موہنجوڈارو اور ہڑپہ کا ایک تسلسل تھی۔

\"dry-riverbed-871287485202msrc\"

اس سارے منظر نامے کے بعد مجھے یہ خیال آیا کہ سرسوتی کے کناروں پر کوئی ایک بستی ہزاروں برس سے آباد ہو گی جس کی حیات کا انحصار اس دریا کے پانیوں پر ہو گا تو کوئی ایک شخص اس بستی کا ایسا ہو گا جوسوچ بچار کرنے والا ہو گا، غور کرنے والا ہو گا۔ تو شاید اسے معلوم ہو گیا ہو گا کہ سرسوتی کے پانی کم ہو رہے ہیں اور یہ دریا بالآخر سوکھ جائے گا اوراس کے کنارے آباد بستی کھنڈروں میں بدل جائے گی۔ ہمیشہ کے لئے صفحہ ہستی سے مٹ جائے گی۔ تو اب ایک ایسا شخص جسے معلوم ہو گیا ہے کہ دریا سوکھ رہا ہے اور میری بستی اجڑنے والی ہے تو اس کی ذہنی کیفیت کیا ہو گی؟ کتنا بڑا دکھ اور رنج اس کے اندر ہو گا اور وہ لوگوں کو بتانا چاہتا ہے کہ تم سب فنا ہونے کوہو تمہاری بستی کا نام و نشان نہ رہے گا تو کیا لوگ اس کی بات پر یقین کریں گے یا اس کا مذاق اڑائیں گے؟ یاپھر اسے ایک قنوطی قرار دے کربستی سے نکال دیں گے؟

میں نے اسی تھیم پر مبنی اپنے ناول ’’بہاؤ‘‘ کے اس کردار کا نام ورچن رکھا جسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ بستی اجڑنے کو ہے۔ مجھے یہ ناول تحریر کرتے ہوئے گمان بھی نہ تھا کہ ایک دن میں بھی ورچن کے کردار میں ڈھل جاؤں گا۔ میں بھی آگاہ ہو گیا ہوں کہ سندھ، راوی اور چناب میں پانی کم ہو رہے ہیں اور یہ مکمل طور پر خشک بھی ہوسکتے ہیں اور ان کے کناروں پر ہزاروں برسوں سے آباد جو تہذیب ہے وہ ملیامیٹ بھی ہوسکتی ہے۔ ان دریاؤں کو اپنوں کا خون زہر آلود کر رہا ہے۔ صرف سیاستدان اور حکمران ہی نہیں بلکہ عوام کی ایک بڑی تعداد بھی رزق حرام کو جائز سمجھتی ہے اوراس کے بل بوتے پر عیش کی زندگی گزارتی ہماری تہذیب کے دریا کو خشک کر رہی ہے۔

\"dry-riverbed\"

ناجائز مربعے، فیکٹریاں، غیرملکی اکاؤنٹ، بھتے اور زمینوں پر قبضے ریت کے وہ صحرا ہیں جن میں دریاؤں کے پانی جذب ہو رہے ہیں اور بہاؤ ہر دن گذرنے پر پہلے سے بھی مدہم ہوا جاتا ہے اور کوئی ایسا دن بہر طور آ جائے گا جب دریا تھم جائے گا اورسب ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ سوات، وزیرستان اور ڈیرہ غازی خان میں اور کوئی پنجاب حکومت کی کشتی ڈبونا چاہتا ہے اور کوئی مرکز کو غرق کرنا چاہتا ہے اور کسی کو کچھ احساس نہیں کہ ڈبونے کے لئے بھی تو ایک دریا درکار ہوتا ہے۔ میں یہ بھی جانتا ہوں کہ قرآن پاک میں ایسی برباد ہو چکی بستیوں کا ذکر آیا ہے جنہوں نے نافرمانی کی اور ان پر عذاب نازل ہو گیا اور ہم صریحاً نافرمانی کے مرتکب پو رہے ہیں مختلف رنگوں میں۔

میں یہ بھی جانتا ہوں کہ میں تنہا نہیں ہوں جواس سوچ بچار میں ہوں، میری طرح کے لاکھوں ورچن اور ہیں جو دریاؤں کے کنارے بیٹھے جان چکے ہیں کہ یہ سوکھنے کو ہیں اور وہ بھی بستی والوں کو خبردار کرنا چاہتے ہیں کہ ابھی کچھ وقت ہے ان دریاؤں کا پانی نہ سوکھنے دو ورنہ تمہاری بستیاں اجڑ جائیں گی۔ تم بے گھر ہو جاؤ گے۔ لیکن کوئی سننے والا نہیں ہے۔ ہم ایسے ورچنوں کو پاگل قرار دیتے ہیں۔ اگر ہم نے ان کی آواز پرکان نہ دھرا تو پھر ہزاروں برسوں بعد کوئی شخص اس سوچ بچار میں پڑے گا کہ یہ جو کبھی راوی، سندھ اور چناب دریا ہوا کرتے تھے یہ کیسے خشک ہو گئے اور ان کے کنارے جو بے مثال تہذیبیں تھیں وہ کیسے کھنڈر ہو گئیں؟ کیا ان دریاؤں کے کناروں پر جوبستیاں آباد تھیں ان میں سے ایک شخص بھی ایسا نہ تھا جو خبر کرتا کہ لوگو دریا سوکھ رہے ہیں تمہاری بستیاں کھنڈر ہونے کو ہیں؟ کوئی ایک شخص بھی نہ تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مستنصر حسین تارڑ

بشکریہ: روزنامہ 92 نیوز

mustansar-hussain-tarar has 181 posts and counting.See all posts by mustansar-hussain-tarar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments