قصر ابیض کا نیا مکین


\"amer-farooq\"سمے اور محل کا لحاظ کئے بغیر بات کرنا ایسے ہی ہے جیسے تپتی ریت پر پانی بہا دینا، اب مگر افشا میں عار نہیں۔

قصر ابیض کے نئے مکین کی دوڑ میں سابق صدر کلنٹن کی اہلیہ آنسہ ہلیری کلنٹن اور جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی شمولیت سے جب سیاسی پارہ بڑھنے لگا تو ایک شب موخر الذکر کا برقی مراسلہ موصول ہوا۔ بعد از اظہار نیاز مندی جناب ٹرمپ نے چند معاملات پر رہنمائی طلب کی۔ اس اعتراف میں چنداں عار نہیں کہ عصر حاضر میں خط و کتابت کی اس ٹیکنالوجی سے چاہ کر بھی زیادہ راہ و رسم پیدا نہیں کر سکا۔ خدا عمر دراز کرے، عزیزم بلال ہی معاونت کا سامان فراہم کرتا ہے۔ مذکورہ شب بھی اس کی مدد سے چند سطریں لکھ بھیجیں۔ دنیا جو مرضی کہے لیکن میں نے موصوف کو بہت عاجز پایا۔ چند لمحوں میں ہی جوابی برقی مراسلے سے اظہار تشکر کر ڈالا۔

یہاں جناب ٹرمپ کے مراسلے اور طالب علم کے جواب کی تفصیلات کا تذکرہ مطلوب نہیں۔ کبھی ضرورت پڑی تو سینے میں محفوظ یہ امانت بھی نذر قارئین و تاریخ کر دوں گا۔

اس تمہید کا مذکور سوائے اس کے کچھ نہیں کہ پریشانی اور اضطراب کے اسی نوع کے ایک سے زائد مواقع پر ایسے ہی اصول کپتان کے لئے ارزاں کئے لیکن شومئی قسمت کہ اکثر ان کا انجام ریت پر بہائے گئے پانی سے مختلف نہ ہوا۔ دل سے عزت کرتا ہے لیکن حرف نصیحت پر شاذ ہی کان دھرتا ہے۔

ہفتہ گذشتہ کو سابق سپہ سالار کے صحن خضر میں شام کی چائے کی پیالی پر امریکی انتخابات کا موضوع زیر بحث آیا۔ کامل یقین سے عرض کیا کہ قلم قبیلے کے نو آموز مگر پرجوش نوجوان چاہے جو کہیں لیکن کامیابی بالآخر جناب ٹرمپ کے قدم چومے گی۔ سگریٹ کا ایک گہرا کش لگا کے تزویراتی و عسکری امور کے اس ماہر نے ایک لفظ بولے بغیر میری طرف ایسی نظروں سے دیکھا جن سے تائید عیاں تھی۔ کبھی کبھی حیرانی کے گرداب میں ڈوب جاتا ہوں کہ کیسا کیسا بطل جلیل اوپر والے نے ہماری قسمت میں لکھا اور ہم نے ناقدری کے کیسے کیسے مظاہرے کئے۔ سانسوں نے مہلت دی تو کبھی لکھ چھوڑوں گا کہ پوٹھوہار کے اس عظیم عسکری دماغ کے چہرے کو داغدار بنانے کی مذموم حرکتوں کے پیچھے کون کون تھا۔ خدا لگتی کہنی چاہئے کہ طالب علم نے تو برادران سپہ سالار کو بھی ایسا ہی عاجز، زیرک، خاموش اور مہذب پایا جیسا کہ ان کے برادر بزرگ کو۔ شہری زمین کے چند سودوں میں ان کی نیک نامی کو بٹہ لگانے کی کوشش بفضل تعالی زمین بوس ہو کر رہے گی۔

تو عرض کر رہا تھا کہ کپتان کو بارہا کہا کہ سیاست اور صبر لازم و ملزوم ہیں۔ اگر سیاست کا مقصد دنیاوی اقتدار نہ ہوتا تو اس مشق کے نتیجے میں نیک نیت سیاست دان صوفیا کے درجے پر فائز ہو جاتے۔ اس کی نیک نیتی میں تو کوئی مورکھ ہی شبہ کرے گا۔ صبر مگر چیزے دگر ہے۔

عصر حاضر کے عارف کی خدمت میں بھی اس کے لئے صبر کی دعا کی التماس کی۔ کیسے کیسے دانش کے موتی وہاں بھی عطا ہوتے ہیں۔ گہرے انہماک سے برآمد ہوتے ہوئے سر اٹھایا اور کہا اسے کہو دیسی مرغی سے اب اجتناب کرے۔ وائے بدنصیبی کہ اب بجائے مرغی کے وہ طالب علم سے اجتناب کرتا ہے۔ نشانیاں بہت ،مگر اہل دل کے لئے ہیں۔ کیونکہ عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے۔ اردو اور تاریخ سے نابلد قارئین کی رہنمائی کے لئے عرض کرتا چلوں کہ اس سے پہلا جملہ علامہ کی عنایت ہے۔

قصر ابیض کے نئے مکین کا فیصلہ ہو چکا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ مارگلہ کے دامن میں بسیرا کرنے والے اسلامیان پاکستان کے نئے رہنما کا فیصلہ بھی ہو کر رہے گا۔ نشانیاں واضح ہیں، اشارے نوشتہ دیوار ہیں محض دیدہ بینا کی ضرورت ہے۔ ایک ساعت سوچا کہ گانٹھ کھول دوں لیکن آخری تجزیئے میں وہی حقیقت کہ سمے اور محل کا لحاظ کئے بغیر بات کرنا ایسے ہی ہے جیسے تپتی ریت پر پانی بہا دینا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments