نیویارک میں میرے چینی مسافر اور کرونا کا خوف


گزشتہ پانچ سال سے اوبر کے ساتھ کام کرتے ہوئے یہ مشاہدہ رہا ہے کہ امریکہ میں آباد دوسری کمیونیٹیز کے مقابلے میں چینی کورین یا پھر سپینش قومیت کے پیسنجر کیب اور لیموزین ڈرائیورز کے لیے کم مشکلات پیدا کرتے ہیں۔

فلاڈیلفیا کی جانب سفر جاری تھا اور رات ہونے کے باعث ٹریفک بھی نارمل تھی۔ میں بدستور خوف کی ملی جلی کیفیت میں ڈرائیو کرتا رہا۔ ہوا یوں کہ دوران سفر دونوں میں سے واحد ماسک پہنے چینی لڑکے نے بھی اپنا ماسک اتار دیا۔ میں اپنے تئیں یہی تصور کرتا رہا کہ لڑکی تو کلیئر ہے۔ اور جس نے ماسک پہنا ہوا ہے اگر کرونا کے جراثیم آنے ہیں تو اسی کی طرف سے آنے ہیں۔ اور لڑکا بیٹھا بھی بالکل میرے پیچھے تھا۔ اس کا ماسک اترنے کے ساتھ ہی میں مزید چوکنا ہو گیا۔ کہ پیچھے سے چھینک کسی بھی وقت آ سکتی ہے۔ ڈرے ڈرے ترکیب سوچتا رہا کہ چھینک کا مقابلہ کیسے کرنا ہے۔ واحد حل یہی سوجھا کہ جیسے ہی پیچھے سے چھینک کی آواز آئے فوراً گاڑی کے شیشے نیچے گرا دوں گا تاکہ تیز ہوا میری طرف آتی چھینک کے ذرات کو گاڑی سے باہر انڈیل دے۔

خیر خدا کا کرنا یہ ہوا کہ پورے راستے میں چھینک کا اٹیک میری جانب نہیں ہوا اور چینی جوڑا سفر کی تھکان کی وجہ سے زیادہ راستہ سوتا ہی رہا۔ اس لیے کوئی ناخوشگوار صورت حال پیدا نہ ہوئی۔ مگر ایک اور امتحان ابھی باقی تھا۔ جیسے کہ منیر نیازی نے کہا تھا کہ

اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

ان کی آنکھ اس وقت کھلی جب میں فلاڈیلفیا میں داخل ہونے کے لیے فلاڈیلفیا کا برج عبور کر رہا تھا۔ وہاں سے کوئی بارہ سے پندرہ منٹ کے بعد ان کی منزل مقصود آ گئی۔ وہ اترے تو میری بھی جان میں جان آئی۔ ان کے اترتے ہی میں نے گاڑی کے چاروں شیشے کھول دیے اور سیٹ پر بیٹھے بیٹھے پچھلی سیٹ کی جانب نظر دوڑائی تو سیٹ پر لڑکے کا ماسک پڑا ہوا نظر آیا۔ گھبراہٹ میں فوراً اس کو بغیر گلوز پہنے اٹھا کر گاڑی سے باہر پھینک دیا۔

پھینکنے کے فوراً بعد ہی احساس ہو گیا کہ یہ کیا کر دیا۔ خوف اور دہشت کی ایک عجیب کیفیت طاری ہو گئی کہ یہ کیوں کیا۔ سردی کے باوجود سر اور کمر سے پسنے کی سرد لکیر جاتی ہوئی محسوس ہوئی۔ فوراً گاڑی میں رکھے سینی ٹائزر وائپس سے مل مل کر ہاتھ صاف کیے۔ مگر تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ اپنی بے واقفی پر رہ رہ کر تاسف بھی ہو رہا تھا کہ سارا راستہ تو چھینکوں سے بچا رہا اور آخر میں خود ہی اپنے پاؤں پر کلہاڑی مار لی۔

بقول مومن خان مومن
الجھا ہے پاؤں یار کا زلف دراز میں
لو آپ اپنے دام میں صیاد آ گیا

ہاتھ مسلسل صاف کرنے کے بعد تھوڑا ریلیکس تو ہو گیا مگر کرونا وائرس کے خوف نے اندر ڈیرے جما لیے۔ فلاڈیلفیا میں ایک دوست احمد تھے جو اس وقت اوبر پر ہی کام کر رہے تھے۔ مجھ سے محض دس منٹ کی ڈرائیو پر تھے۔ انہیں فون کیا تو انہوں نے کہا کہ میں سیدھا آپ کے پاس پہنچ رہا ہوں۔ آپ نے ملے اور کھانا کھائے بغیر واپس نہیں جانا۔ احمد کی محبت نے گویا پاؤں میں بیڑیاں ڈال دیں۔

کوئی دو سال قبل ہی احمد نیویارک سے ساؤتھ جرسی کے علاقے بلیک وڈ میں اپنا گھر خرید کر منتقل ہوئے ہیں۔ تاہم کام وہ نزدیکی شہر فلاڈیلفیا میں کرتے ہیں۔ قبل ازیں نیویارک میں احمد کی فیملی اور میری فیملی نیویارک میں سال ہا سال ایک ہی اپارٹمنٹ بلڈنگ میں مقیم رہے تھے۔ اس لیے ان سے بڑی اچھی انسیت ہو گئی تھی۔ اس نے کام چھوڑا اور مجھے ساتھ لیا اور پندرہ منٹ ڈرائیو کر کے نیو جرسی میں اپنے گھر لے آیا۔

رات کے تین بج چکے تھے۔ میرے منع کرنے کے باوجود بھابی نے آٹھ کر تازہ کھانا بنایا۔ اتنی دیر میں میری آمد کی اطلاع پا کر دو اور مشترکہ دوست پاپا سہیل اور ناصر بھی آ گئے۔ ہنسی مذاق اور گپ شپ شروع ہو گئی۔ چاروں نے مل کر کھانا کھایا۔ کھانے کے بعد چائے کا دور چلا اور ساتھ احمد نے ٹی وی پر میری پسندیدہ فلم ”نکا ذیلدار 3“ بھی لگا دی۔ لیکن میرا ذہن مسلسل ننگے ہاتھوں سے ماسک باہر پھینکنے میں اٹکا رہا۔ باہر سے تو آپس میں گپ شپ چل رہی تھی۔ مگر اندر ایک خاموش خوف بیٹھ گیا تھا۔ دوستوں کو واقعہ کا تو بتایا مگر اپنے خوف کی سنگینی کا نہیں بتایا۔

فجر کا وقت ہو چلا تھا۔ نماز ادا کرنے اور اللہ سے دعا کرنے کے بعد احمد اور باقی دوستوں سے اجازت لے کر واپسی کی راہ لی۔ صبح کے وقت ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی۔ صبح آٹھ بجے سے پہلے پہلے واپس نیویارک گھر پہنچ گیا۔ دلی کیفیت سے کسی کو آگاہ بھی نہیں کیا۔ اس وقت تک حالات اتنے خراب بھی نہیں ہوئے تھے۔ دو چار دن کے بعد ہی لاک ڈاؤن، سکول بند اور دیگر پابندیاں شروع ہوئیں۔

میں بظاہر تو نارمل تھا اور کسی قسم کی کرونا کی علامات نہیں تھیں۔ تاہم کرونا کا خوف اور اس کی دہشت مسلسل میرا پیچھا کرتی رہی۔ مزید یہ ہوا کہ اسی ہفتے میں نے کرونا سے ملتے جلتے وائرس پر 2011 میں بنی میڈیکل سائنس فکشن فلم ”کوائنٹا گون“ دیکھ لی۔ فلم کیا ہے موجودہ کرونا سے پیدا شدہ حالات کی بہترین عکاسی کی گئی ہے۔ خاص طور پر امریکہ میں گزشتہ دو ماہ کے دوران جو حالات رہے ہیں۔ اس کی 90 فیصد جھلک اس ایڈونچر سے بھرپور فلم میں آپ کو نظر آئے گی۔

اب یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ 2011 میں فلم کے مصنف اور ڈائریکٹر نے کیسے ایک فکشن مووی بنا ڈالی جو 2020 میں سچ ثابت ہو گئی۔ میں دو ماہ میں تین بار یہ فلم دیکھ چکا ہوں اور چوتھی بار دیکھنے کی خواہش ہے۔ بلکہ ریکمنڈ کروں گا کہ سب کو یہ فلم ضرور دیکھنی چاہیے اور موجودہ حالات کا 2011 میں بنی اس فلم کی سٹوری سے موازنہ کرنا چاہیے۔

دو ماہ میرے بھی بڑے سخت گزرے بظاہر تو سب معمول کے مطابق رہا مگر خوف تھا کہ جاتا ہی نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ مجھے کچھ بھی نہیں ہوا تھا۔ کافی حد تک حالات اب بہتر ہیں۔ مگر ابھی بھی خوف نے مکمل طور پر پیچھا نہیں چھوڑا۔ کوئی بیس فیصد ابھی بھی باقی ہے۔ کسی نے درست کہا ہے کہ ”خوف کرونا سے زیادہ خطرناک ہے“ ۔

اب امید کی جا رہی ہے کہ اگلے چند ہفتوں تک نیویارک شہر اس کے ائرپورٹ سمیت دیگر ریاستوں کے شہر مرحلہ وار کھلنے شروع ہو جائیں گے۔ اور زندگی آہستہ آہستہ نارمل ہوتی چلی جائے گی۔ مگر ایک بات طے ہے کہ آئندہ دنیا بھر میں ہر کسی کو کرونا کے خوف کے ساتھ ہی ایک طویل عرصے تک جینا ہو گا۔ یہ اب آ تو گیا ہے اتنی آسانی سے پیچھا نہیں چھوڑے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments