حوریم سلطان سے کوسم سلطان تک: سلطنتِ عثمانیہ کی شاہی کنیزیں جو کسی ملکہ جتنی بااثر تھیں


حوریم سلطان کی بیٹی
حوریم سلطان کی بیٹی میرماہ (1522-1578)

پیئرس نے ایک سے زیادہ بار حوریم کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کی مشکلات کا ذکر کیا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی تفصیل سے بتایا ہے کہ اس زمانے میں شاہی حرم کی زندگی کے بارے لکھی گئی بہت سی کتابیں سنی سنائی باتوں پر مشتمل تھیں اور زیادہ قابل اعتبار نہیں۔

انھوں نے لکھا ہے کہ روکسیلانا سنہ 1520 میں ستمبر میں سلطان سلیمان کی تخت پوشی کے کچھ ہی مہینوں کے بعد ان کے حرم کا حصہ بن گئی تھیں، اس وقت سلطان کی عمر 26 برس اور روکسیلانا تقریباً 17 برس کی تھیں۔ ’سن 1521 میں ان کا پہلا بیٹا پیدا ہوا۔ ان کے سلطان سے ایک بیٹی اور چار (کچھ ذرائع کے مطابق پانچ) بیٹے ہوئے۔ تاریخ بتاتی ہے کہ بظاہر اس معمول کی بات نے اس وقت سلطنت عثمانیہ کو تشویش میں ڈال دیا تھا۔

پہلے بیٹے کی پیدائش تک تو بات ٹھیک تھی لیکن اس کے بعد اسی کنیز کے ساتھ تعلق جاری رکھنا مؤرخین کے مطابق سلطنت کی نسلوں پرانی روایات کے خلاف تھی۔ سلطنت عثمانیہ اس وقت تک دو صدیاں اور نو سلطان دیکھ چکی تھی اور مؤرخین کے مطابق ’ایک عثمانی سلطان کے لیے، کسی بھی اور بادشاہ کی طرح، سیکس صرف مزے کے چیز نھیں ہو سکتی تھی کیونکہ اس کے اہم سیاسی نتائج تھے۔۔۔خاندان کے اقتدار کے بقا کا دارومدار اسی پر تھا۔ یہ ایسا فُعل نھیں تھا جو نتائج کو دھیان میں رکھے بغیر کر لیا جائے۔۔۔۔۔۔۔حرم میں سیکس کے کچھ ضوابط تھے۔‘

اس وقت ان ضوابط کے تحت ایک کنیز سلطان کے بیٹے کی ماں بننے کے بعد اس سے جسمانی تعلق نھیں جاری رکھ سکتی تھی۔ مؤرخین بتاتے ہیں کہ ایک کنیز ایک بیٹا کی پالیسی کی بنیاد یہ تھی کہ ماں ایک شہزادے کو پوری توجہ دے سکے اور کبھی اسے دو یا اس سے زیادہ بیٹوں میں ایک کا انتخاب کرنے کی نوبت نہ آئے۔

پیئرس لکھتی ہیں کہ سلطان اور حرم کی خواتین کے درمیان سیکس وارث پیدا کرنے کی پیچیدہ سیاست سے کنٹرول ہوتی تھی۔

اگر کسی کا خیال تھا کہ خرم کا سلطان کے ایک سے زیادہ بیٹوں کی ماں بننا غلط تھا تو سنہ 1536 میں سلطان سلیمان نے اپنی پسندیدہ کنیز حوریم سلطان سے شادی کر کے نہ صرف اپنی عوام بلکہ استنبول میں تعینات اہم عالمی سفارتکاروں کو ایک بار پھر حیران کر دیا۔

اس کے بعد جب حوریم کے بیٹے روایت کے مطابق صوبوں میں فرائض انجام دینے گئے تو ان کے ساتھ جانے کی بجائے وہ سلطان کے ساتھ استنبول میں رہیں۔ یہ ایک اور روایت کی خلاف ورزی تھی۔ مؤرخ بتاتے ہیں کہ عثمانوی عوام کی نظر میں کسی سلطان کا ایک شخص کے اثر میں ہونا ناقابل قبول تھا کیونکہ ان کے نزدیک سلطان کو اپنا فرض ادا کرنے کے لیے ہر بندھن سے آزاد ہونا چاہیے تھا۔

حوریم سلطان اب مکمل طور پر حرم کی سیاست میں گھر چکی تھی۔ خرم سلطان سے پہلے سلطان سلیمان کا ایک اور کنیز ماہیدیورن سے بھی ایک بیٹا تھا جس کا نام مصطفیٰ تھا۔ یہ بیٹا سلطان کی تخت نشینی سے پہلے پیدا ہوا تھا اور عوام اور عسکری حلقوں میں بہت مقبول تھا اور سب کا خیال تھا کہ اگلا سلطان یہی بنے گا۔

سلطنت عثمانیہ میں اس وقت تو جو روایت چلی آ رہی تھی اس کے مطابق ہر سلطان کی موت کے بعد شہزادوں میں تخت کے لیے کشمکش ہوتی تھی جو ایک کے علاوہ سب کی موت تک جاری رہتی۔

پیئرس لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان اپنا پیدائشی خاندان تو کھو چکی تھی اب شاید دوسرا خاندان کھونے کا خدشہ اس کے ذہن میں رہتا ہوگا کہ اگر مصطفیٰ سلطان بن گیا تو اس کے بچوں کا کیا ہو گا۔ مؤرخین کے مطابق اس وقت سلطنت کے وزیر اعظم ابراہیم پاشا کی ہمدردیاں بھی مصطفیٰ کے ساتھ تھیں۔

اب حالات کچھ اس طرح آگے بڑھے کہ مصطفیٰ اور ابراہیم دونوں کو سلطان نے عہدوں کی حدود پار کرنے اور بغاوت کی منصوبہ بندی کے الزام میں مروا دیا۔ اس کے بعد اب یہ طے ہو گیا کہ سلطان سلیمان کے بعد حوریم سلطان کا ہی کوئی بیٹا تخت پر بیٹھے گا۔ حوریم سلطان کا اپنے خاوند سے آٹھ سال پہلے سن 1558 میں انتقال ہو گیا اور وہ شہزادے سلیم کو تخت پر بیٹھتے ہوئے نھیں دیکھ سکیں۔ یاد رہے کہ حوریم سلطان اور سلطان سلیمان کے بیٹے بایزید کو بھی بغاوت کے الزام میں مروا دیا گیا تھا۔

حوریم سلطان تاریخ کا ایک متنازع کردار ہے جس کے بارے میں کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی بحث جاری ہے۔ پیئرس لکھتی ہیں کہ سلطان سلیمان اور ان کا تعلق اتنا غیر روایتی تھا کہ دوبارہ عثمانی تاریخ میں اس کی مثال نھیں ملتی۔

حوریم سلطان اپنی زندگی میں ہی متنازع ہو گئی تھیں اور ’کئی صدیاں گزرنے کے بعد بھی ان کے عثمانی تاریخ میں مقام کے بارے میں بحث ختم نہیں ہوئی۔‘ ان پر اسی دور میں سلطان پر جادو کرنے کی باتیں کی جاتی تھیں۔

پیئرس کہتی ہیں کہ عوامی سطح پر سب الزام حوریم پر ڈالنا اس لیے آسان تھا کیونکہ سلطان سے تو غلطی کا تصور نھیں تھا۔

سلطنت عثمانیہ میں اعلیٰ طبقے کی ایک ترک عورت

حوریم سلطان کی کامیابی

پیئرس لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان کی بڑی کامیابیوں میں سلطنت بھر میں پھیلے ہوئے فلاحی کام تھے۔ مؤرخ لکھتے ہیں کہ انھوں نے مسجدیں، ہسپتال، یتیم خانے، لنگر قائم کرنے اور پینے کے پانی کی سہولیات میں بہت دلچسپی لی اور خیراتی ادارے بھی قائم کیے۔ وہ لکھتی ہیں کہ حوریم سلطان غلاموں کو آزاد کروانے میں بہت دلچسپی لیتی تھیں جس کی وجہ شاید ان کا اپنا ماضی کا تجربہ تھا جسے وہ نھیں بھلا سکی تھیں۔

انھوں نے لکھا کہ ان کے فلاحی کاموں ان کے بعد بھی نچلی سطح تک ہزاروں خواتین کو فائدہ پہنچا۔ ان کے قائم کیے گئے کئی فلاحی ادارے آج بھی قائم ہیں۔

حوریم سلطان سفارتی محاذ پر بھی بہت متحرک تھیں۔ اس کی ایک مثال کے طور پر سلطان سلیمان کے دور میں خرم سلطان کے آبائی علاقے پولینڈ سے سلطنت کا مسلسل رابطہ رہا۔ پولینڈ کے بادشاہ سجیسمند اوّلا حوریم سلطان کی کوششوں کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کے ساتھ امن قائم رکھنے میں کامیاب رہے۔

یہی نہیں بلکہ حوریم سلطان کا خط کے ذریعے صفوی بادشاہ شاہ تہماسپ کی بہن سلطانم سے بھی رابطہ تھا۔ پیئرس لکھتی ہیں ممکن ہے کہ جب سلطان سلیمان کا مقصد صلح ہوتا تھا وہ حوریم سلطان کے ذریعے بات کرتے تھے۔

پیئرس نے عثمانی سلطنت میں حرم کی زندگی کے بارے میں اپنی کتاب ’امپیریئل حرم‘ میں لکھا ہے کہ ’16ویں اور 17ویں صدیوں میں عثمانوی سلطنت کے سفارتی محاذ پر خاص طور پر چار خواتین نمایاں تھیں: حوریم، نور بانو، صفیہ اور کوسم۔‘ اور ان کے ذریعے قائم کیے گئے سفارتی روابط نے سلطنت کی بہت مدد کی۔

حوریم سلطان کے بعد آنے والی شاہی خواتین کے ذکر کی طرف بڑھنے سے پہلے یہ سمجھنا ضروری ہے کہ یہ نوعمر لڑکیاں دور دراز علاقوں میں انسانوں کی منڈیوں سے کن تجربات سے گزر کر استنبول پہنچی تھیں۔ ’اغوا کے تجربے سے گزرنا کسی کمزور انسان کے بس کی بات نہیں تھی۔‘

حوریم سلطان کی سب سے بڑی کامیابی یہ تھی کہ جب انھوں نے اپنی رہائش گاہ پرانے محل سے نئے شاہی محل میں منتقل کی تو حرم کو سیاست کے مرکز کے قریب لے آئیں۔

ایسا کرنے سے حرم ایک سیاسی طاقت بن گیا اور آئندہ آنے والے وقتوں میں حرم کی سینئیر خواتین کے لیے سیاسی حلقوں میں رابطے قائم کرنا ممکن ہو گیا۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4 5

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32298 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp

1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments