نائن الیون کے پندرہ برس بعد۔۔۔ الیون نائن


 \"aniqامریکی صدارتی انتخابات کے نتائج سناتے اور ان پر تبصرہ کرتے چہرے، موصول ہوتے نتائج کے ساتھ لمبے ہوتے جا رہے تھے۔ نا قابل یقین حیرت نما مایوسی لہجوں پر حاوی تھی۔ نتائج حیرت انگیز حد تک اندازوں کے برعکس سامنے آئے۔ ”مبصرین اور مفکرین “ایک دوسرے کو گویا حوصلہ دیتے دکھائی دئیے کہ آپ کا اندازہ غلط ہوا تو کوئی بات نہیں، سب (مراد، ”میں“) کا خیال آپ ہی کی طرح تھا۔ یہ سب دیکھتے ہوئے بے ساختہ ہنسی آ رہی تھی اور ایک کمینی سی خوشی بھی ملی کہ عوامی خیالات اور دنیاوی حقائق سے دور صرف ہمارا میڈیا ہی نہیں‘دنیا کے مانے ہوئے میڈیا ہاﺅسز بھی عوامی حقیقت سے دور اپنے سیارے میں رہائش پذیر ہیں۔ مقام حیرت ہے کہ ٹیکنالوجی کی اس دنیا میں جب ہر انسان دوسرے انسان سے رابطے میں رہ سکتا ہے، ایک ہی معاشرے میں رہنے والے طبقات ایک دوسرے سے اتنے بے خبر ہو سکتے ہیں۔ مگر یہ ہوا اور ہو رہا ہے۔

 بظاہر تو یہ نفرت، نسل پرستی اور جذباتیت کی، تجربے، بنیادی انسانی تہذیب اور دلیل پر فتح دکھائی دیتی ہے مگر سوچنا پڑے گا کہ نفرت کے رویوں کا جنم کیوں ہوتا ہے؟ نفرتیں آسمانوں سے بارش کی طرح نہیں برسا کرتیں۔ ان کا ظہور زمینی حالات سے ہوتا ہے۔ یہ مایوسیاں ہیں۔ پیچھے رہ جانے کا دل شکن احساس ہے۔ یہ چند افراد کی حیرت انگیز خوش حالی اور کامیابیوں کا منطقی ردعمل ہے۔ یہ بے بسی کا احساس ہے۔ یہ غریب اور پیچھے رہ جانے والے ان امریکیوں کا جمہوری انتقام ہے‘جو سپر پاور امریکی شہریت کی محض تہمت اٹھائے کھڑے ہیں۔ یہ ڈوبنے والوں کی ایک ارب پتی سے فرمائش ہے کہ تم امیر ہونا جانتے ہو، ہمیں بھی کر دو۔ یہ بظاہر چمکتے دمکتے معاشرے میں رہنے والوں کی وہ دائمی محرومیاں ہیں، جو نفرت میں بدلتی ہیں۔ اس نفرت کا رخ اصل وجہ سے ہٹا کر کسی مذہب، یا اس کے ماننے والوں یا کسی بھی اقلیتی گروہ پر تھونپ دینا سیاسی جادو گروں کی پرانی روایت رہی ہے۔ برطانیہ میں بریگزٹ کے بعد امریکی عوام کا سٹیٹس کو سے بےزاری کا ثبوت سامنے ہے۔ یہ ان کا اعلان ہے کہ وہ اپنے حالات سے اس حد تک تنگ ہیں کہ انہیں تبدیلی کے لئے غیر روایتی راستوں کا انتخاب قبول ہے، خواہ اس کی قیمت کچھ بھی ہو۔ ٹرمپ نے تسلیم شدہ تہذیب اور اخلاق کی دھجیاں اڑا دیں۔ عقل رکھنے والوں کی ایک دلیل کا جواب بھی اس کے پاس نہیں تھا۔ امریکی یونیورسٹیوں میں کبھی فخر سے نہیں پڑھایا جا سکے گا کہ آج کے امریکہ میں سیاسی کامیابی کا دارومدار احترام اور اخلاقیات کی بنیاد پر ہے۔ اب تو یہ بھی نہیں کہا جا سکتا کہ امریکی عوام، قومی قیادت کی بد اخلاقی، جھوٹ اور گنوار پن کو برداشت نہیں کرتی۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی کمپئین، غیر معمولی رویہ، بدتمیزی، اقلیتوں کے بارے میں خیالات، اس کے نزدیک خواتین کا سماجی رتبہ، دنیا کے بارے میں اس کا علم‘ معذوروں کے لئے اس کی حقارت، ہمسایوں کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کی صورت گری وغیرہ کو اگر دیکھا جائے تو ہر وہ ذہن جس کی تربیت مغرب میں رائج اور تسلیم شدہ \"911\"قواعد و ضوابط کے اصولوں پر ہوئی ہو‘ٹرمپ کی جیت کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ مگر یہ ہوا، کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ امریکی عوام بد اخلاقی، بد تمیزی، گنوار پن‘انا پرستی اور نسل پرستی کو پسند کرتے ہیں؟ کیا امریکی خواتین اس رویے کے گن گاتی ہیں جو ٹرمپ کا ہے؟۔ مجھے یقین نہیں۔ مگر ایک بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ امریکی عوام، روایتی جمود سے بےزار ہیں۔ وہ تبدیلی جو باراک اوباما کا نعرہ تھا، امریکی عوام کو نظر نہیں آئی اور انہوں نے ایک ایسے فرد کا انتخاب کیا، جس کی سب سے بڑی کمزوری کہ وہ کبھی اقتدار میں نہیں رہا، اس کی سب سے بڑی طاقت بن کر ابھری۔ یہ نتیجہ بتا رہا ہے کہ جمود کو کتنا ہی خوبصورت نام دیا جائے۔ کیسا ہی اخلاقی جواز عطا کیا جائے، اب قبول نہیں۔ سٹیٹس کو سے بےزاری کی انتہا ہے کہ ایک آدمی عوامی اخلاقیات کا جنازہ نکال کر بھی جیت گیا۔ پیغام یہ ہے کہ آپ جانتی بھی ہیں ، تجربے کار بھی ہیں، الفاظ بھی خوب صورت ہیں۔ عقل و دانش بھی کیا کہنے، ہوم ورک بھی ٹھیک لیکن آپ نے ہمیں کیا دیا؟ جو دیا وہ قبول نہیں۔ جو وعدے ہیں ، ان کا اعتبار نہیں۔ اب وہ چاہئے جو تم لوگوں میں سے نہ ہو۔ دوسرا بد تمیز سہی لیکن تم میں سے تو نہیں۔

 ایک غیر سنجیدہ ارب پتی نے کھیل کے قواعد کو توڑا، یا تبدیل کر دیا اور سیاسی بقراطوں کو چلغوزہ بنا دیا۔ ہیلری کلنٹن کے پاس وہ سب کچھ تھا، جس کا کوئی بھی صدارتی امیدوار تصور کر سکتا ہے۔ ان کے گھر میں ایک کرشماتی صدر بیٹھا ہے، جسے سیاسی مہم چلانے پر ملکہ حاصل ہے۔ یاد رہے کہ یہ سہولت صرف ہیلری کلنٹن کو ہی میسر تھی۔ یہ سب کچھ مل کر بھی نا کامی سے دوچار ہوا تو اس کا مطلب کیا ہے؟ موجودہ دنیا کے تسلیم شدہ اصولوں اور دائرے جن میں سیاست ہوتی رہی ہے، ٹوٹ رہے ہیں۔ ایسا ہی کچھ صحافت میں بھی ہوا ہے۔ اب کہیں بھی ایسے”چند“ لوگ نہیں جو کھیل کے اصول مرتب کریں۔ قواعد و ضوابط بنائیں اور ان پر سختی سے عمل کروائیں۔ اب ہر کوئی میدان میں ہے۔ ہر کوئی عقل کل ۔ تسلیم شدہ ضوابط چیلنج ہو رہے ہیں یا بکھر رہے ہیں۔ صحیح غلط، اچھا یا برا ہونے کی نا ختم ہونے والی بحث میں پڑے بغیر صرف اتنا عرض ہے کہ ایک نئی دنیا وجود پذیر ہو رہی ہے۔ انسان بدل رہے ہیں۔ اذہان بدل رہے ہیں۔ سیاست اور خود صحافت بھی تبدیلیوں کی رفتار کا ساتھ نہیںدے پا رہے۔ جذباتی نعرے جن کی بنیاد نسل پرستی اور نفرت ہو کا انجام کیا ہوا کرتا ہے، حالیہ انسانی تاریخ میں کیا ہوا اور آج بھی اس کا انجام مختلف معاشروں میں کیا ہو رہا ہے؟ سب جانتے ہیں اور یہی وہ علم ہے جس کی بنیاد پر موجودہ ریاست، سیاست، جمہوریت اور بنیادی اخلاقیات کے اصول مرتب کئے گئے تھے۔ تو کیا یہ اصول اپنی بنیاد اور حقیقت میں ہا ر رہا ہے؟ کیا لوگ جانتے بوجھتے تباہی کو گلے لگا رہے ہیں؟ یا وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو رائج شدہ قواعد کے تحت کھیلتے رہے، وہ عوام سے محض باتیں ہی کرتے رہے گئے اور عوام کے مطابق، جھوٹ بولتے رہے۔ یہ عدم اعتماد اخلاقی اور سیاسی اصولوں پر ہے یا ان کا نام لے کر اپنی دکان چمکانے والوں پر ہے۔ امریکی سیاسی تاریخ تو کیا مغربی جمہوریت میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی مہم ایک دلچسپ موضوع بنی رہے گی۔ آنے والا وقت ہمیں بتائے گا کہ تبدیلی کی خواہش \"donald-trump\"رکھنے والے جمود بےزار امریکی عوام کو کیا ملتا ہے؟آخری نتیجے میں یہ لڑائی امریکہ کے بر سر اقتدار طبقات کی لڑائی ہی تھی۔ یہ لڑائی دو سیاسی جماعتوں کے مابین تھی اور دونوں کا شمار ہی امریکی بالادست طبقے سے ہے۔ سرمایہ دارانہ جمہوریت میں یہی ہوتا ہے۔ ایک دلچسپ حقیقت سوشل میڈیا پر زیر گردش ہے اور وہ یہ کہ امریکی تاریخ میں جو حیثیت 9/11 کو حاصل ہے، کم و بیش وہی حیثیت11/9 کی بننے جا رہی ہے۔

 غیر منطقی یا جذباتی نظریہ دنیا میں کیوں جیت رہا ہے؟ فرانس، جرمنی، برطانیہ، بھارت خود پاکستان اور اب امریکہ۔ اقوام اور ممالک کو ایک طرف رکھیں۔ یہ ایک رویہ ہے جس کی کامیابی ہمارے چاروں طرف پھیل رہی ہے۔ یہ رویے اور ان کی کامیابی انسانیت کے لئے نئی چیز نہیں۔ یہ سب ہو چکا۔ اس کا انجام بھی سب کے سامنے ہے۔ اس رویے کا انجام ماضی سے مختلف کیسے ہو سکتا ہے اور کیسے ہو گا؟ مایوسی کوئی حل نہیں۔ دلیل کی طاقت رکھنے والوں کو، تہذیب کے ماننے والوں کو، عوامی اکثریت سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور ذرا ٹھہر کر سوچنے کی ضرورت ہے کہ غلطی کہاں ہو رہی ہے؟

مدت ہوئی منو بھائی محترم سے سنا تھا کہ” اگر سو کتے کچلا کھا کر مر جائیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں کچلا بطور غذا مرغوب ہے مسئلہ یہ ہے کہ انہیں آٹا میسر ہی نہیں“۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments