مفخر عدیل کیس: موجودہ چالان پر ملزم کو سخت ترین سزا دلوانا ناممکن ہے


پولیس پھر اس مکان کے مالک کور ڈیفنس کے رہائشی آفتاب اصغر تک پہنچی جنھوں نے 13 فروری کو مکان کا تالا کھولااور اس طرح پولیس جائے وقوعہ پر پہنچی۔ پولیس کی اطلاع پر پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی کے اہلکاروں کو بلایا گیا اور وہاں سے مختلف طرح کے نمونے اکھٹے کیے گئے۔

دورانِ تفتیش مالک مکان نے بتایا کہ انھوں نے 90 ہزار روپے کے عوض 15 دن کے لیے وہ مکان ایک پراپرٹی ڈیلر فرحان کے ذریعے کرائے پر دیا تھا۔ پولیس نے جب فرحان کا کھوج لگایا تو معلوم ہوا کہ مذکورہ گھر اس نے مفخر کے لیے اسد بھٹی کے کہنے پر لے کے دیا تھا جبکہ بغیر تحریری معاہدے کے گھر دلوانے کے لیے اس نے 15 ہزار روپے بطور کمیشن بھی وصول کیے تھے۔

اسی اثنا میں پولیس کو اہل محلہ سے یہ بھی پتا چل چکا تھا کہ مذکورہ گھر کو نو فروری بروز اتوار واٹر بوئزر منگوا کر دھلوایا گیا تھا جس کے سارے شواہد بھی پولیس نے اکھٹے کر لیے۔

پولیس ذرائع کے مطابق جائے وقوعہ سے لیے گئے نمونوں میں سے ایک گلاس پر مفخر کے بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کے نشان ملے ہیں جبکہ پنجاب فورینزک سائنس ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق اس مکان میں گٹر کے پائپوں سے گندھک کے تیزاب کی موجودگی کا بھی سراغ ملا ہے لیکن فورینزک کو جائے وقوعہ سے ملنے والے نمونوں کا ڈی این اے مقتول کی والدہ کے ڈی این اے سے ملنے کے شواہد نہیں مل سکے۔

پولیس حکام کو ملزم کے زیر استعمال گاڑی کی، جو مبینہ طور پر قتل کی واردات کے لیے بھی استعمال کی گئی، فرانزک رپورٹ کا بھی انتظار ہے جس سے مقتول کے مفخر کی گاڑی میں موجود ہونے یا نہ ہونے کے متعلق کوئی اہم شواہد مل سکتے ہیں۔

’ملزم مقتول کے منہ پر تکیہ رکھ کر اس پر بیٹھ گیا‘

چالان کے مطابق دوران تفتیش مبینہ قتل کی ساری کہانی ابتدائی طور پر اسد بھٹی کی زبانی پولیس کے سامنے آئی جس کی تصدیق پھر ملزم مفخر عدیل نے پولیس کے سامنے اقبالی بیان میں کی ہے۔

اسد بھٹی کے مطابق سات فروری کی رات شہباز کو مکان پر لانے کے بعد جوس میں نشے کی گولی ملا کر دی گئی جس کے بعد مفخر نے اس سے اپنی سابقہ بیوی کے ساتھ افیئر کے متعلق پوچھا۔ چالان میں دی گئی معلومات کے مطابق شہباز کچھ دیر تو انکار کرتا رہا اور پھر معافی مانگنے لگا کہ اس سے غلطی ہو گئی تھی۔

نشے کی گولی کی وجہ سے کچھ دیر بعد وہ لڑکھڑاتا ہوا فرش پر گر گیا جس کے بعد اسد کے بقول اس نے مقتول کی ٹانگوں کو پکڑ لیا جبکہ مفخر اس کے ہاتھوں اور ہونٹوں پر ٹیپ لپیٹنے کے بعد اس کے منھ پہ تکیہ رکھ کر بیٹھ گیا اور سانس رکنے سے شہباز کی موت واقع ہو گئی۔

چالان کے مطابق اسد بھٹی نے لاش کو تیزاب میں تحلیل کرنے اور جائے وقوعہ کو دھونے کی تفصیل بھی بتائی جس سے مفخر عدیل کے بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔

پولیس چالان کے مطابق اسد کے علاوہ شریک ملزم عرفان علی نے بھی دوران حراست تسلیم کیا ہے کہ مفخر کے کہنے پر اس نے چار فروری کو کہہ کر 40 لیٹر تیزاب منگوایا کہ کسی ڈرامے کی شوٹنگ کرنی ہے۔ تحقیقات کے دوران ایک پارٹی گرل بھی سامنے آئی جس نے پولیس کی پوچھ گچھ کے دوران بتایا کہ سات فروری کی رات مفخر نے اسے فون کر کے وہاں بلایا تھا اور وہ کچھ گھنٹے اس گھر میں رکی تھی۔ اس لڑکی کے بقول گھر سے اس رات کچھ جلنے کی بدبو تو ضرور آ رہی تھی لیکن باورچی خانے میں پڑے ہونے کی وجہ سے وہ ڈرم دیکھ نہیں پائی۔

’ایک کڑی کمزور پڑی تو سارا مقدمہ بکھر جائے گا‘

سینیئر قانون دان اور سیکرٹری سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن شمیم ملک نے اس مقدمے پر بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ شہباز تتلہ قتل کیس میں ملزمان کے خلاف قتل ثابت کرنے کے لیے پولیس کے پاس موجود براہ راست شواہد بظاہر کمزوردکھائی دیتے ہیں۔

’یہ ایک واقعاتی ثبوتوں (Circumstantiale vidence) پر مبنی مقدمہ ہے اور استغاثہ کے پاس واردات کی مختلف کڑیاں تو ہیں لیکن ان میں سے اگر ایک بھی کمزور پڑ گئی تو سارے کا سارا کیس خود بخود ہی بکھر جائے گا‘۔

جائے وقوعہ

سی سی پی او لاہور ذوالفقار حمید کے مطابق مفخر عدیل کے جائے وقوعہ سے ملنے والے گلاس پر انگلیوں کے نشانات یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ موقع پر موجود تھے

ان کا مزید کہنا تھا کہ پولیس نے وجہ عناد پر تحقیقات ہی نہیں کیں اور نہ ملزم کی سابقہ اورموجودہ بیویوں کو چالان کا حصہ بنایا ہے جس سے اس کیس پر اثر پڑ سکتا ہے۔

’اگر پولیس وجہ عناد کو ڈھونڈنے پر توانائی لگاتی تو ہو سکتا ہے اس کیس کے حوالے سے کئی اور شواہد مل جاتے۔ ملزمان کے پولیس حراست میں دے گئے بیان کے علاوہ پولیس کے پاس براہ راست کوئی شواہد نہیں کہ یہ قتل کیسے اور کیوں ہوا‘۔

قانون شہادت آرڈر 1984 کے سیکشن37 اور 38 کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ملزم کے پولیس کے سامنے دئے گئے بیان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں اور اگر ملزمان اپنے اعترافی بیان سے مکر گئے تو استغاثہ کو مقدمہ ثابت کرنے میں کافی مشکل پیش آ سکتی ہے۔

چشم دید گواہوں کے متعلق بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ دونوں پراسیکیوشن اور ڈیفنس دونوں کے لیے بہت اہم ہیں کیونکہ جہاں یہ سات فروری کو مقتول کے ملزم کے ساتھ جانے کے تعلق کو جوڑتے ہیں وہیں چار دن یعنی 11 فروری تک ان کا خاموش رہنا ملزمان کو بھی فائدہ دے سکتا ہے۔

شمیم ملک کے مطابق پولیس نے اگر 11 فروری کو گواہان کی نشاندہی کے بعد سیف سٹی سے ملزم کی گاڑی کو ٹریک کر لیا تھا تو وہ دو دن بعد جائے وقوعہ پر کیوں پہنچے کیونکہ پولیس ریکارڈ کے مطابق وہ جائے وقوعہ میں 13 فروری کو داخل ہوئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’پولیس نے چالان میں جو ضبطگیوں (ریکوری) کی فہرست میں مقتول کا شناختی کارڈ اور اے ٹی ایم کارڈ مفخر کی گرفتاری والے دن اس کی پتلون کی جیب سے برآمد کرنا شامل کیا ہے وہ بھی مضخکہ خیز لگتا ہے کیونکہ جس ملزم پہ یہ الزام ہے کہ اس نے قتل کرنے کے بعد لاش تک کے نشانات مٹا دیے وہ کیوں مقتول کے شناختی کارڈ جیب میں رکھ کر ایک ماہ تک گھومے گا‘۔

ان کے نزدیک پولیس کی طرف سے ملزم مفخر کے موبائل اور لیپ ٹاپ کا قبضے میں نہ لے کر ان کا فورینزک تجزیہ نہ کروانا بھی غیر معمولی لگتا ہے کیونکہ ان سے اہم شواہد مل سکتے تھے۔

شمیم ملک نے مزید کہا کہ اب دیکھنا ہوگا کہ ایک ایسے کیس میں جس میں لاش بھی نہیں، آلۂ قتل بھی نہیں اور تفتیش میں بھی کئی کمزور پہلو موجود ہیں، پولیس اور استغاثہ کس طرح سے ملزمان جن میں ایک سینیئر پولیس افسر بھی شامل ہے، سزا دلوانے میں کامیاب رہتے ہیں۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

بی بی سی

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32500 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp