بلوچستان، ڈاکٹر منان اور …. یہ مرے خواب کا مکان


\"mubashirبلوچستان لبریشن فرنٹ کے رہنما، ڈاکٹر عبدالمنان، کوئی چار دن قبل مبینہ طور پر مستونگ میں ایک کریک ڈائون اور مقابلہ میں ہلاک ہو گئے۔ ان کے ساتھ چار دیگر بلوچ نوجوان بھی مارے گئے، جو مختلف سرکاری عمارتوں اور اہلکاروں پر حملوں میں مبینہ طور پر ملوث تھے، جن میں کوئٹہ شہر میں پولیس پر حملے بالخصوص شامل تھے۔ ڈاکٹر عبدالمنان اپنی عمر کی تیسری دہائی کے آخر میں تھے، یا شاید چوتھی دہائی کے درمیان، جبکہ مرنے والے باقی چاروں بلوچ عمر کی دوسری دہائی میں ہی کہیں اپنے جذبات کے چپو چلا رہے تھے۔ یہ پانچ مرنے والے مر گئے، ان کے جانے سے پیدا ہونے والاخلا کوئی دوسرا پر نہیں کر سکے گا، اور جذبات کے بنیاد پر ردعمل کی جنگ لڑتے ہوئے ان لوگوں کے گھروں میں ان کی مائیں، بہنیں، بیٹیاں اور باپ، اپنی آخری سانس تک ان کی راہ دیکھیں گے، اور بےچارگی کے اس ٹھنڈے برفیلے آسمان تلے ننگے سر رہیں گے جس سے یہ پانچ لوگ انہیں اپنی معاشی، معاشرتی اور سماجی کامیابی کی بدولت بچا سکتے تھے۔

مجھے کوئی خاص تعلق تو محسوس نہیں ہوتا، مگر کچھ ایسا ہی خیال فلسطین میں آباد مسلمانوں کے ردعمل کے حوالے سے بھی ہے۔ لاکھوں کے لاکھوں دربدر ہوئے ، مارے گئے، گھر، محلے، قصبے،شہر اور پورا ملک تباہ ہو گیا۔ پوری چار نسلیں اس تباہی کا شکار رہیں، اور ابھی پانچویں بھی اسی رستے پر ہے، اور یہی آثار رہے تو شاید چھٹی، ساتویں اور آنے والی مزید نسلیں بھی اسی کا شکار رہیں گی۔

بس اک خیال ہی تو ہے کہ ایک متوازی کائنات میں اگر اس ردعمل میں، کہ بھلے وجہ جو بھی ہوتی ہو، اگر بلوچ (اور فلسطینی) اکابرین کہ جن کی بات ان کی قوم کے لوگ سنتے اور مانتے ہیں، اپنے لوگوں کو ردعمل، جذباتیت اور تشدد کی بجائے سر نیچے پھینک کر محنت، علم حاصل کرنے اور اس علم کی بنیاد پر عمل کرتے ہوئے اپنے لیے معاشی، معاشرتی، سماجی اور سیاسی ممکنات تلاشنے اور تراشنے کی جانب لگا ڈالتے؟ سنہ 1947 سے میرے بلوچ النسل دوستوں (بلوچستان میں آباد کوئی 44فی صد پشتون بلوچوں کے عموما ہمنوا نہیں) کی اک مناسب سی بڑی تعداد میں اقلیت، کہ اکثریت آزادی پسند نہیں، اپنی دھرتی ماں کی \”آزادی\” کے لیے ابھی چوتھی مرتبہ مسلح جدوجہد میں مبتلا ہیں اور اپنے بہترین لوگ ضائع کیے جانے کے باوجود، ان کو مسلسل ضائع کرنے پر م ±صر ہیں۔

اگر آپ اسے ایک ’پنجابی کا بیان‘سمجھنا چاہتے ہیں تو بھلے سمجھیں، مگر میں پچھلے اٹھارہ برس سے بلوچستان کا پیشہ وارانہ طور پر طالبعلم ہوں، اور بلوچستان سے محبت کو اپنے سیاسی ایمان کا لازمی حصہ سمجھتا ہوں۔ اسی لیے اس تکلیف میں ہوں۔

مگر کچھ دیر کے لیے فرض تو کیجیے کہ ریاست کی مسلسل اور شدید حماقتوں کا جواب، جوابی حماقتیں اور تشدد نہ ہوتا، بلکہ اک اثبات پر مبنی سماجی، معاشی، معاشرتی اور سیاسی بیانیہ ہوتا کہ: \” جناب اسلام آباد صاحب، آپ جو مرضی ہے کریں، ہم مگر پرامن طریقے سے اپنی نسلوں کو سنواریں گے، اور آج سے چالیس سال بعد، ہماری نسلیں آپ کے ساتھ آئین کے تحت ایک سخت سیاسی بارگین کرکے اپنے صوبے اور قوم کے لیے بہترین معاملہ سازی کریں گے۔ ہم تب تک انتظار کریں گے، محنت کریں گے، اپنے اور اپنے بچوں کے لیے بہترین ممکنات تراشیں گے!\”

ممکنات کیا تراشنے ہیں، پنجابی، سندھی، سرائیکی اور دیگر قوموں کے، جن میں پشتون بھی شامل ہیں، مڈل کلاس پروفیشنلز چند بلوچ یاروں کے تشدد نے مار بھگائے ۔ ابھی جاہل اور ان پڑھ نسلوں نے صرف تقلید ہی سیکھنی ہے، نسل اور قوم کیا بنانی ہے۔ اور جس کو جذباتیت میں ملی غیرت، جذبہ ایمانی، سیاسی حق کے لیے (متشدد) جدوجہد وغیرہ کا نام دیا جاتا ہے، اس میں رستہ صرف خون سے ہو کر جاتا ہے، اور حاصل حصول جدید دنیا میں صرف تباہی ہے۔

مگر وہی نا کہ: بس اک خیال ہی تو ہے!

پس تحریر: بلوچستان میں ’آزادی‘کی تحریکوں میں کوئی ننانوے فیصدی مجھ جیسے غریب گھروں کے بیٹے کھیت رہے۔ وہ قبائل، اور ان کے سرداران اور ان کے بڑے حامی عمومی طور پر انگلیاں بھی کٹا کے نہیں، بلکہ انگلیوں میں اک چِیرا لگا کر شہیدوں میں شامل رہے۔ موجودہ لہر کو بلاشبہ مڈل کلاس کی اک اقلیت کی کچھ اخلاقی مدد حاصل ہو، مگر اسلحہ اور دیگر آلات بہرحال ان مسلح گروہوں پر آسمان سے نازل نہیں ہوتے، کہیں آس پاس سے ہی آتے ہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments