ویپ ہولز ۔۔۔۔ پھول کالے، تتلیوں کے پر سلیٹی ہو چکے ہیں
ہمیں دیوار مت سمجھو
کہ جب دیوار کے پیچھے کی مٹی بھیگ جائے گی
تو ہم بوجھل نمی کا دکھ بہائیں گے
ابھی نم گیر ہے مٹی
درختوں کی جڑوں کو چوستی ہے
پانیوں کا دکھ
ابھی دیوار کے پیچھے کی مٹی تک نہیں پہنچا
زمیں نے آسماں کا غم زدہ چہرہ نہیں دیکھا
ابھی دیوار کو رونا نہیں آیا
ہوا پتوں کا رستہ دیکھتی ہے
بے شجر سڑکوں پہ پولی تھین کے خالی لفافے سرسراتے ہیں
خود اپنے موسموں کا خون پی کر
لوگ جرثوموں کی صورت پَل رہے ہیں
تابکاری کے الاؤ جل رہے ہیں
بدنمائی کے دھوئیں سے
پھول کالے، تتلیوں کے پر سلیٹی ہو چکے ہیں
خواب کا چہرہ
دباؤ سے بگڑ کر ٹوٹ جائے گا
نمی کو راستہ دو
درد کے بادل برسنے دو
زمیں پر آسماں کا دکھ اترنے دو
ہمیں دیوار مت سمجھو
ہمیں بیکار مت سمجھو
کہ جب دیوار کے پیچھے کی مٹی بھیگ جائے گی
تو ہم بوجھل نمی کا دکھ بہائیں گے
ہماری آنکھ میں آنسو نہیں خوابوں کی کیچڑ ہے!!
(ویپ ہولز Weep Holes)
- مجھے یہ نظم نہیں لکھنی چاہیے تھی - 03/09/2023
- ہیلی کاپٹر - 27/08/2022
- مئی میں “دسمبر کی رات” اور کتابوں کی چھانٹی کا غم - 22/05/2020
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).