اسلام آباد کی جدید یونیورسٹی میں قومی کمزوری پر کانفرنس


\"ali-raza\"پچھلے دنوں اسلام آبا د کی ایک یونیورسٹی میں جنات اور کالے جادو پر ہونے والی کانفرنس کی ناقابل یقین کامیابی کے بعد گردونواح میں پائے جانے والے بنگالی بابوں کی چاندی ہوگئی ہے۔ اب دن رات ان کے ڈیروں پر نوجوان لڑکوں اور لڑکیوں کا ہجوم لگا رہتا ہے، جو محبوب کو قدموں میں لانے، رقیب کو بھگانے، پیپر میں بغیر محنت پاس ہونے، آسٹریلیا کینیڈا کا ویزا لگوانے ، اور دنیا کی ہر مشکل کا حل ڈھونڈنے وہاں جاتے ہیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ روحانی علوم کی برکات اور مؤکلات کی محنت سے لوگوں کی زندگیاں آسان ہو رہی ہیں۔ تحقیقی رجحان رکھنے والے اور مادہ پرست سائنسدانوں نے جن میں کچھ پاکستانی بھی شامل ہیں ہمیں ان مخفی علوم اور مخلوقات کے بارے میں گمراہ کیا ہوا تھا۔ اور بیچارے مخلص محنت کش روحانی و سفلی علوم کے ماہر پیروں اور بنگالی بابوں کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ حالانکہ کہ یہ مخلص لوگ تو اپنی زندگیاں مخفی علوم کے لیے وقف کرچکے ہیں۔ اور یہی لوگ ہیں جو آج کے سائنس و ٹیکنالوجی زدہ مغربی معاشرے کو اپنے علم سے للکار رہے ہیں، یہی درویش ہماری تہذیب کو تبدیلی کے طوفان سے بچانا چاہتے ہیں۔ اور ایک گہری بات یہ ہے کہ مابعدالجدید فلسفہ انھی مخفی علوم کی سچائی کو دیکھ کر بنایا گیا ہے۔ انھی بے لوث بنگالی بابوں اور پیروں کے مافوق الفطرت تجربات و مشاہدات کو دیکھ کر یہ ثابت ہوتا ہے کہ سائنس ہی آخری سچائی نہیں ہے۔ کچھ اور سچ بھی ہیں جو صرف جنگلوں اور آستانوں میں حاصل ہوتے ہیں۔ اللہ بخشے مرحوم اقبال صاحب اس بات کو جانتے تھے اور وہ تو خود بھی بہت پہنچے ہوئے تھے تبھی تو کہہ گئےتھے

نہ پوچھ ان خرقہ پوشوں کی ، ارادت ہو تو دیکھ ان کو

ید بیضا لیے بیٹھے ہیں اپنی آستینوں میں

اور جناب ہارون رشید صاحب اکثر اپنے کالموں میں لکھتے ہیں کہ اقبال آخری عمر میں قریب قریب ہر مجذوب کے پیچھے چل پڑتے تھے اور افسوس کرتے تھے کہ انھوں نے ساری عمر مغربی فلسفہ پڑھنے میں کیوں گزار دی ۔ تو ثابت یہ ہوا کہ پیروں اور بنگالی بابوں کی تلاش میں رہنا اور ان سے مخفی علوم کی حاصل کرنے کی خواہش رکھنا ہمارے بزرگوں کی عادت تھی۔ اور ضرورت یہ ہے کہ پوری قوم بھی ان کے نقش قدم پر چلے۔

لیکن ہماری قومی بے حسی کا عالم یہ ہے کہ بجائے ان مخفی علوم کے ماہرین کی قدرو منزلت کرنے کے اور انھیں پی ایچ ڈی کی ڈگریاں دینے کے ہمارے سائنس دان ان درویشوں کے خلاف جدوجہد کررہے ہیں۔ جناب ہود بھائی کا علم دشمنی بھرا کالم پڑھ کر میرا دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ اور مجھے تو یقین نہیں آرہا کہ ہم زوال کی کس سطح پر پہنچ چکے ہیں جہاں معصوم بنگالی بابوں، علم دوست کالے جادو کے ماہرین کا کھلے عام مذاق اڑایا جا رہا ہے۔ اس تمام صورت حال میں امید کی کرن اسلام آباد کی وہ یونیورسٹی ہے جہاں کالے جادو اور جنوں پر کانفرنس کا انعقاد کیا گیا تھا۔ ایسی کانفرنسیں ہی ہمارا علمی سرمایہ ، اور نئی نسل میں مخفی علوم کا شعور اجاگر کرنے کا ذریعہ ہیں۔ اور تمام یونیورسٹیوں کو اس کی پیروی کرنی چاہئے ۔

 مخفی علوم پر بات چیت کا سلسلہ چل پڑا ہے تو طب یونانی پر علمی بحث اور نوجوانوں میں اس کی افادیت کے شعور کے لیے بھی کانفرنسوں کا انعقاد ہونا چاہئے۔ پورے پاکستان میں دیواروں پر لگے اشتہارات، بس سٹاپوں پر مفت بنٹنے والے میگزینوں اور پمفلٹس، یوٹیوب پر معروف اور زیادہ دیکھی جانے والی پاکستانی وڈیوز، گوگل پلے سٹور پر مشہورپاکستانی مفت ایپلیکیشنز، کیبل کے لوکل چینلز ر چلنے والے اشتہارات کو دیکھ کر کوئی بھی ذی فہم یہ سمجھ سکتا ہے کہ پاکستانی مردوں کا سب سے بڑا خوف اور مسئلہ مردانہ کمزوری ہے۔ اور سب سے بڑی خواہش جنسی طاقت حاصل کرنا ہے۔ تقریبا تمام نوجوان ہی بری صحبت کا شکار ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ مغربی مادہ پرست میڈیکل سائنس اس مسئلہ کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی۔

خدا کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ ہمارے قدیم طبی علوم ابھی تک زندہ ہیں۔ جن میں ہر طرح کے مردانہ و زنانہ مسائل کا شافی حل موجود ہے۔ ان علوم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ علوم سینہ بہ سینہ منتقل ہوتے ہیں۔ ایسے ہی جیسے جدید سائنس والے کسی سانس اکھڑتے مریض کو مصنوعی سانس دلاتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ مشرق میں یہ زندگی بخش عمل اپنے اندر ایک روحانیت رکھتا ہے۔ لیکن ان علوم کے ماہرین بہت درویش صفت ہوتے ہیں ،شہرت سے دور بھاگتے ہیں، ہاں کوئی مصیبت کا مارا آ جائے تو فی سبیل اللہ اس کی مدد کردیتے ہیں۔ بہر حال یہ صورت حال مزید نہیں چل سکتی اب ضرورت اس بات کی ہے کہ یونیورسٹیوں میں قوم کی سب سے بڑی کمزوری پر کانفرنسیں کرائی جائیں، جہاں ملک بھر اور بیرون ملک سے حکیموں کو خطاب کی دعوت دی جائے۔ جدید میڈیکل سائنس کے کھوکھلے پن کو بے نقاب کیا جائے اور طب یونانی کے کمالات سے لوگوں کو آگاہ کیا جائے۔ عوام و خواص کو ایسی کانفرنسوں میں شرکت پر ابھارا جائے۔ خصوصا بری صحبت کے شکار نوجوانوں کو امید کی کرن دکھائی جائے۔ ایسی کانفرنسوں میں سانڈے کے تیل اور دوسرے بنیادی علمی لوازمات کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments