تبلیغی جماعت اور نور کی چادر


کراچی میں ہی انہوں نے ایک اور مکان لے لیا۔ مجھے بھی گھر بلایا تھا۔ مجھے ان کی دوسری بیوی بھی پہلی بیوی کی طرح ہی حسین لگی تھی۔ بھولی سی اور شاید دونوں ہی وقت اور حالات کی شکار۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر وہ مجھے خوش لگی تھیں۔ صلاح الدین بھائی کے پہلی بیوی سے دو بیٹیاں تھیں اور دوسری بیوی سے تین بیٹے۔

اس شادی نے ان کی زندگی میں بڑی تبدیلیاں برپا کردیں۔ یکایک وہ متوسط گھرانے سے اعلیٰ گھرانے میں انتقال کر گئے۔ ان کے تعلقات ان لوگوں سے استوار ہو گئے جو پیدائشی طور پر حکمران تھے، جاگیرداروں، پیروں، مخدوم زادوں، گدی نشینوں سے لے کر فوجی جرنیلوں تک ان کی رسائی تھی۔ ان کا تبادلہ اسلام آباد ہوگیا تھا یا شاید انہوں نے کرا لیا تھا۔

ضیاء الحق کے زمانے میں وہ بڑے مشہور ہوئے تھے۔ اشرافیہ کے حلقوں میں یہ بات مشہور تھی کہ صلاح الدین ہر کام کرا سکتے ہیں۔ صلاح الدین ہر کام کرا بھی دیتے تھے۔ تجارت کے لائسنس، بینکوں کے قرضوں کی ہیرا پھیری، پلاٹوں کی کمرشلائزیشن، غیر ملکی وظیفے، کسی بھی شہر میں کوئی کام ہو صلاح الدین چاہیں تو ہو سکتا تھا۔ ان کی تھوڑی سی فیس ہوتی تھی جو کام کرانے والے خوشی سے دیتے تھے۔

پھر یہ ہوا کہ ضیا ء الحق کی بے وقت موت ہوگئی تھی بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ بہت پہلے ہونی چاہیے تھی اور بہت دیر سے ہوئی۔ بے نظیر کی حکومت میں وہ کچھ اور زیادہ ہی طاقت ور ہو گئے تھے۔ کچھ ان کی قابلیت کچھ ان کا انداز نوکر شاہی اور کچھ ان کا سندھی کنکشن سب نے مل کر انہیں اپنے کام میں پکا کر دیا انہوں نے ہر دور حکومت میں پھنسنا، آگے بڑھنا ترقی کرنا سیکھ لیا تھا۔ کہتے ہیں اس زمانے میں انہوں نے بڑی دولت کمائی۔

کراچی اور لاہور کے ڈیفنس سوسائٹی میں بنگلے پاکستان سے باہر جائیداد اور غیر ملکی کرنسی میں غیر ممالک میں اکاؤنٹ یہ سب باتیں مجھے اس لیے پتہ تھیں کہ ان کی دوستی بھائی جان سے برقرار تھی اور بھائی جان سے کچھ نہیں چھپا ہوا تھا۔ انہیں سب کچھ بتاتے تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح ہوگا کہ پاکستان سے باہر بھائی جان ہی ان کے ایڈوائزر تھے۔ بھائی جان کو اس بات سے کوئی مطلب نہیں تھا کہ ان کے پاس پیسے کہاں سے آرہے ہیں ان کا کام ایک دوست ہونے کے ناتے مشورہ دینا تھا جو وہ بڑے اطمینان سے انہیں دے دیا کرتے تھے بلکہ ان کی مدد بھی کرتے تھے۔

صلاح الدین بھائی کی گڈی بے نظیر کے بعد نواز شریف کے زمانے میں بھی اونچی ہی اڑتی رہی۔ بلکہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے ہیں کہ جہاں وہ وزیراعظم ہاؤس میں جانے پہچانے تھے۔ وہاں وہ ایوان صدر میں بھی اپنی قابلیت کے جوہر دکھانے کے ماہر تھے۔ وہ ایک خاموش کارکن تھے۔ سامنے کوئی اور پس پردہ کوئی اور حکومت کے اعلیٰ سطحی اجلاسوں میں وہ شامل، صدر اور وزیراعظم کے وفود میں ان کا نام، مجھے لگتا تھا کہ عوام کے خلاف ہونے والے ہر کام اور ہر سازش میں ان کا سایہ ضرور ہوتا تھا۔

ایک دفعہ میں نے حساب لگایا تھا کہ انہوں نے کچھ نہیں تو کم ازکم سو ڈیڑھ سو کروڑ کی ہیرا پھیری ضرور کی تھی۔ ایسی مثالیں تو بے شمار تھیں۔ نوکر شاہی کے افسر ان، اعلیٰ فوجی عہدیداران اور سیاسی جماعتوں کے رہنماء و کارکنان عوام کو لوٹنے میں اور ناجائز دولت کمانے میں ایک دوسرے کے بہت قریب تھے بلکہ یہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا کہ ملک کی گزشتہ پچاس ساٹھ سالہ تاریخ میں یہ آپس کے مقابلے میں ایک دوسرے سے پیچھے نہیں تھے۔

رہی بات عوام کی، غریب کسان کی مزدور اور عام لوگوں کی تو یہ کہنا نا مناسب نہیں ہوگا کہ جب سے دنیا بنی ہے غریب لوگوں کو کب انصاف ملا ہے ہمارے جیسے لوگ یہ بات سمجھ کر بھی نہیں سمجھتے ہیں۔ صلاح الدین بھائی جیسے لوگ پیدائشی طور پر یہ سمجھے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے دل مضبوط ہوتے ہیں یہ کسی بیوہ کی حالت زار دیکھ کر روتے نہیں ہیں، کسی یتیم بچے کو دیکھ کر ان کا دل پسیجتا نہیں ہے، انہوں نے بھی یہی کیا تھا۔ بے انصافی پر کڑھتے نہیں ہیں، لاقانونیت سے گھبراتے نہیں ہیں، ظلم سے پریشان نہیں ہوتے ہیں، ان کے پاس ہر بات کی تاویل ہوتی ہے۔ یہ دنیا کو دنیا کی طرح ہی دیکھتے ہیں لہٰذا ترقی بھی کرتے ہیں اور ہر طریقے سے ترقی کرتے ہیں۔

ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی کایا پلٹ دیکھ کر میں بھی حیران ہوگیا تھا۔ سارے بچے پڑھ لکھ گئے تھے، لڑکیوں کی شادیاں ہوگئی تھیں بلکہ یہ کہنا زیادہ صحیح تھا کہ انہوں نے بہت اچھی حیثیت کے داماد اچھی قیمتیں دے کر حاصل کر لیے تھے۔ لڑکیاں سب خوش تھیں، جن کے شوہر ترقی کے راستے پر گامزن تھے۔ لڑکے بھی اچھی جگہوں پر اچھا کام کر رہے تھے۔ انہوں نے بھی ریٹائر منٹ کے بعد ڈیفنس میں ہی دونوں بیویوں کو الگ الگ مکانوں میں سیٹ کر دیا تھا۔

پلان تو ان کا کاروبار کرنے کا تھا کاروبار میں انہوں نے اچھی خاصی رقم لگا بھی دی تھی مگر یکا یک کاروبار کرتے کرتے مکمل طور پر تبلیغی بن گئے تھے۔ ان کی بے شمار دعوتوں کے بدلے میں آخرکار ایک دن میں نے حامی بھر لی کہ ان کے ساتھ تبلیغی اجتماع میں چلا چلوں گا۔ پھر یہ ہوا کہ وہ خود مجھے لینے آ گئے تھے۔ بے شک بہت بڑا اجتماع تھا، ہزاروں کی تعداد میں لوگ عبادت کرنے آئے ہوئے تھے۔ بہت منظم انداز میں سب نے نماز پڑھی تھی، دعائیں کی تھیں ایک دوسرے سے ملے تھے۔ ایسا لگتا تھا کہ قرون اولیٰ کے مسلمان اپنے تمام جوش و جذبے کے ساتھ پھر یکجا ہو گئے ہیں۔

اجتماع میں جس طرح سے رو رو کر دعائیں مانگی گئی تھیں۔ اس سے بھی ایک سماں بندھ گیا تھا۔ مسلمانوں کی تنزلی کی داستان سے امام صاحب نے لوگوں کے دلوں کو گرما دیا تھا۔ اتنی بڑی تعداد میں اتنے لوگوں کی ایک ساتھ اللہ کے حضور گڑگڑاتے ہوئے میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ صلاح الدین بھائی کی آنکھیں سرخ ہوگئی تھیں۔ آنکھوں سے بہتے ہوئے آنسوؤں نے داڑھی کو تربتر کر دیا تھا۔ مجھے حیرت ہوئی، یہ وہی صلاح الدین بھائی تھے جن کا کروفر مشہور تھا جو ناک پر مکھی نہیں بیٹھنے دیتے تھے، جنہوں نے اسلام آباد کے اقتدار کے ایوانوں میں خاموش بادشاہت کی تھی۔

کیا تبدیلی آئی تھی ان میں۔ میں حیران رہ گیا تھا۔ اس دن مجھے اچھا بھی لگا اور کچھ برا بھی۔ کئی دنوں تک میری سمجھ میں نہیں آیا کہ میرے دل میں کس بات کی کھٹک تھی۔ کیا تھا جس نے مجھے بے چین رکھا تھا کیوں میں چاہتے ہوئے بھی اپنے دل میں تبلیغی جماعت کے لیے وہ کشش وہ جذبہ نہیں پا رہا تھا جو کہ اتنے بڑے اجتماع کے بعد لوگ کہتے ہیں کہ خود بخود دل میں پیدا ہوجاتا ہے۔ ایک دفعہ جانے کے بعد لوگ کشاں کشاں اس طرف کھینچتے ہی چلے جاتے ہیں بلکہ کتنے ہی لوگ باگ تو ایسے ہیں جنہوں نے اپنا گھر بار سب کچھ تبلیغی جماعت کے لیے چھوڑ دیا ہے۔

ایک دن یہ مسئلہ حل ہوگیا تھا ہوا یہ کہ صلاح الدین بھائی نے اپنے گھر پر چند لوگوں کا ایک تبلیغی اجتماع کیا تھا اور خصوصی طور پر مجھے ہدایت کی تھی کہ میں ضرور اس میں شامل ہوں۔ مجھے تھوڑی دیر ہوگئی لیکن جب میں پہنچا تو تقریباً سب لوگ جمع ہوچکے تھے۔

ان کے بڑے سے بیسمنٹ میں قالین کے فرش پر شہر کے چند مشہور و معروف ڈاکٹر موجود تھے جنہوں نے زندگی بھر مریضوں سے دولت بٹورنے کے سوا کچھ نہیں کیا تھا۔ کچھ نامی گرامی سرکاری افسران تھے جنہوں نے اپنے دور ملازمت میں سرکار کی نوکری کے بل بوتے پر عوام کو صرف لوٹا ہی تھا کچھ مشہور بلڈر، تجارت پیشہ لوگ اسٹاک ایکسچینج کے وہ بڑے نام جن کا کالا کام بہت مشہور ہوا تھا۔ وہ سارے کے سارے اب ریٹائر ہو کر تبلیغی جماعت کے نیک کام کے واسطے سے جنت میں اپنے لیے جگہ بنا رہے تھے۔

مجھ سے زیادہ دیر بیٹھا نہیں گیا۔ مجھے ایک عجیب قسم کی بے چینی سی ہوئی تھی۔ تھوڑی دیر تک ان کی باتیں سننے کے بعد میں غریب اور شریف لوگوں کی تبلیغی مسجد تلاش کرلوں گا ان کے ساتھ بیٹھ بھی جاؤں گا مگر آپ کے تبلیغی جلسے میں میرا دم گھٹ رہا ہے۔ میں خاموشی سے اٹھ کر باہر کی طرف چل دیا تھا۔ گیٹ سے نکل کر میں اپنی گاڑی کی طرف جا ہی رہا تھا کہ صلاح الدین بھائی جلدی جلدی چلتے ہوئے مجھے روکنے کے لیے لپکے۔ ۔ ۔ ۔ ۔

اس دن نجانے کیسے مجھ میں بڑی ہمت آ گئی تھی۔ ان کی پوری بات سنے بغیر ہی میں نے کہہ دیا تھا کہ نہیں صلاح الدین بھائی مجھے تو معاف رکھیں اور اس دن تک معاف رکھیں جب تک آپ اور آپ کے یہ سارے لوگ اپنے اپنے کالے دھندے، رشوت، بے ایمانی اور عوام سے لوٹی ہوئی جائیداد، دولت عوام کو واپس نہیں کردیتے ہیں۔ میں وہاں کیسے بیٹھ سکتا ہوں، مجھے تو معاف ہی رکھیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
میں پہلی دفعہ ان کے چہرے سے نور کی چادر کو بڑی تیزی سے سرکتے ہوئے دیکھا تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments